تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-09-2018

حسینہ واجد کا نیا خط

عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بیگم حسینہ واجد نے پاکستان کے نئے منتخب وزیر اعظم عمران خان کو ان کی انتخابات میں کامیابی اور وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر نیک جذبات کے ساتھ مبارکباد کا پیغام بھیجتے ہوئے‘ جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ وہ دو برادر اسلامی ممالک کے عوام کیلئے باعث ِمسرت ہے۔ 18 اگست کے خط میں انہوں نے لکھا ہے: پاکستانی عوام کی اکثریت نے اپنے حق رائے دہی کے ذریعے آپ پر اور آپ کی سیا سی جماعت پر جس یقین اور اعتمادکا اظہار کیا ہے‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ عوام کی اکثریت کی ترجمانی کرتے ہوئے اقتدار کی مسند تک پہنچے ہیں۔بنگلہ دیش کے عوام کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایسے برادرانہ تعلقات رکھے جائیں ‘جو دیر پا اور وونوں ملکوں کیلئے ترقی اور اعتماد سے لبریز ہوں۔بنگلہ دیش کی خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ دوستی کے ایسے راستے پر چلا جائے‘ جس سے دونوں ملک اور اس کی عوام ایک دوسرے کے مزید قریب آ جائیں۔سائوتھ ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی سماجی تعلقات میں ہی بنگلہ دیش دیرپا امن کے راستے پر بغیر کسی رکاوٹ کے چل سکتا ہے۔ بیگم حسینہ واجد نے کہا ہے کہ انہیںامید ہے اور وہ دعا کرتی ہیں کہ پاکستان ‘آپ کی سربراہی میں ایک خوشحال ریا ست کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے‘ اپنے عوام کی خوش حالی اور ترقی کا باعث بننے کے ساتھ خطے اور سارک ممالک کیلئے رہنمائی کا کردار ادا کرے۔
برادر مسلم ریاست بنگلہ دیش کی سربراہ کے ان نیک جذبات اور پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود اور سالمیت کیلئے کی جانے والی دعائیں یقینا بارگاہ الہٰی میں قبولیت کا شرف حاصل کریں گی اور بنگلہ دیش کے لئے بھی پاکستانیوں کی خواہش اور دعا ہے کہ اﷲ پاک ہمارے ان بنگالی بھائیوں کی قدم قدم پر رہنمائی کرتے ہوئے مدد کرے ‘تاکہ وہ خوشحال ریا ست کا بہترین نمونہ بن سکیں۔عمران خان نئے پاکستان کا نیا حکمران ہے‘ جس کی سب سے پہلی خواہش یہی ہو گی کہ مسلم ریا ستیں تو ایک طرف کسی بھی ہمسایہ ملک اور اس کے عوام کو ان کے کسی عمل سے نقصان نہ پہنچے اور جواب میں وہ بھی ان سے اسی قسم کے جذبات اور اقدامات کا خواہش مند ہو گا ‘کیونکہ آج کی گلوبل دنیا میں جہاں تمام قومیںکسی نہ کسی صورت میں ہمہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ صنعتی تجارتی سیا سی فوجی اور سماجی تعلقات میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی بھی جگہ کسی بھی بر اعظم میں دو قومیں ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں‘ تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ باقی کی دنیا تک اس کے اثرات نہ پہنچ سکیں۔
بنگلہ دیش کے ساتھ تو ویسے ہی پاکستانیوں کے دہائیوں سے یک جان دو قالب والا تعلق رہا ہے اور میں یہ الفاظ استعمال کرنا نا مناسب سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش ہمارا ہی حصہ رہا ہے‘ بلکہ اس کی بجائے یہ کہنا زیا دہ منا سب ہو گا کہ ہم کل کے مشرقی پاکستان ‘ جسے آج بنگلہ دیش کہا جاتا ہے‘ اس کا ہی کئی دہائیوں تک حصہ رہے ہیں۔اس لئے کل بھی او ر آج بھی بنگلہ دیش کو پہنچنے والی معمولی سی تکلیف بھی ہم پاکستانیوں کو پریشان کر دیتی ہے۔1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران بنگلہ دیشی عوام کی تمام تر ہمدردیاں بھارت یا کسی اور ملک کے مقابلے میں پاکستان سے سب سے زیا دہ دیکھی گئیں اور جب اس ورلڈ کپ کاپاکستان اور انگلینڈ کے درمیاں فائنل ہو رہا تھا‘ تو بنگلہ دیش کے ہر چھوٹے بڑے دفتر میں با بو لوگ تو ایک طرف‘ اعلیٰ عہدوں کے افسران بھی اپنے سامنے ٹرانسسٹراور ٹی وی رکھے ہوئے میچ دیکھنے میں گم تھے اور میچ کے دوران پاکستانی بلے بازوں کی بیٹنگ اور فیلڈنگ کرتے ہوئے بائولنگ پر وہ اس انداز میں خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے اپنی نشستوں سے اچھلتے دیکھے جا تے تھے‘ جیسے یہ ورلڈ کپ بنگلہ دیش جیت رہا ہواور پاکستان کی کامیابی پر پورا بنگلہ دیش فتح کے شادیانے بجاتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا‘ بازاروں مارکیٹوں میں مٹھائیاں اس طرح بانٹی جا رہی تھی‘ جیسے ورلڈ کپ ڈھاکہ پہنچنے والا ہے۔
1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کا ہیرو وہی عمران خان آج پاکستان کا وزیر اعظم ہے‘ جس کیلئے 'جندہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بنگالی عوام سڑکوں پر ناچ رہی تھی اور مجھے یقین ہے کہ آج جب وہی سپورٹس مین‘ جس کی کامیابی پر بیگم حسینہ واجد نے بنگالی عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے مبارک بادکا خط بھیجا ہے‘ اس عمران خان کو بنگالی عوام کی میزبانی سے فیض یاب ہونے کا موقع دینے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے گی ۔سارک تنظیم کو اگر انتہا پسندی کی نذر کرنا ہے‘ اگر کسی جانب سے بھی ایک ساتھ جڑے ہوئے سارک ممالک کے عوام میں نفرتیں اور دوریاں پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا‘ تو اس سے خطے کا امن اور ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟پاکستان ‘اگر سارک سے یہ درخواست کرے کہ کھیلوں کے فروغ کیلئے پاکستان میں سارک ممالک پر مشتمل T20 کرکٹ کپ میں شرکت کریں ‘تو اس سے دہشت گردوں کو یہ پیغام جائے گا کہ خطے میں ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں‘ لیکن اگر کوئی بھی سارک رکن ایسا نہیں کرتا ‘تو یہ سمجھنے میں کوئی شک نہیں رہے گا کہ وہ عالمی دہشت گردی کے خلاف نہیں ‘بلکہ اس کی در پردہ حمایت کرنے والوں میں سے ہے اور یہ فرق اقوام عالم کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہو گا‘ جو دل سے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ چاہتے ہیں؟سپورٹس مین شپ اگر کھیل کے میدان میں دکھائی جانا ضروری ہے‘ تو پھر کھیل کے میدان میں بھیجنے والے سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرنے سے کیوں کتراتے ہیں؟
سارک ممالک کا ایک اہم رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان بنگلہ دیش سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس تنظیم کی غیر جانبداری اور اہمیت میں کمی لانے اسے بے اثرکرنے کی کسی بھی کوشش کا ساتھ دینے سے گریز کرے گا ‘کیونکہ بے شک آج بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان پہلے ہی کی طرح سینکڑوں میل کا فاصلہ ہے‘ لیکن یہ طویل فاصلہ زمینی‘ سمندری اور فضائی راستے تک محدو رہنا چاہئے ‘نا کہ دلوں میں۔بیگم حسینہ واجد کا خلوص اور نیک جذبات سے لبریز اس خط نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو وہ دن بھی یاد لا دیا ہے‘ جب وہ اس آخری پی آئی اے کی فلائٹ کے مسافرکے طور پر کراچی پہنچے اور اب ان کی یہ خواہش ہو گی کہ دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان ایک ساتھ رہنے ایک دوسرے کی خوشیوں میں دلی طور پر شریک ہونے کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا جائے‘ جو کسی طاقت کو اگر ناگوار بھی گزرے‘ تو اس راہ کو اس جذبے کو ختم نہ کیا جا ئے۔دونوں بھائی ایک د وسرے کی سرحدوں کی سالمیت کے امین بن کر رہیں‘ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات اس طرح استوار ہو جائیں کہ نفع نقصان کی سوچ سے بالاتر ہو جائیں۔آج کہیںکھیل کے میدان میں دونوں ملک ایک دوسرے سے دوری پر جو نظر آ رہے تھے‘ بیگم حسینہ واجد آگے بڑھ کر ایک کھلاڑی اور ورلڈ چیمپئن کی درخواست کو لازمی شرف قبولیت بخشے ہوئے ‘پاکستان کی سر زمین کو اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں کی مہمان نوازی کا بھر پور موقع دے گی۔ان خیالات اور نیک تمنائوں کا جو اظہار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے اپنے خط میں دکھایا ہے ‘امید ہے کہ وہ کھیل کے میدانوں کو آباد کرنے میں دکھایا جائے گا۔
بنگلہ دیش حکومت کو اب ماضی کی تلخیوں کو دفن کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا ‘ کیونکہ اگر کل کے فرانس ‘ برطانیہ‘ جاپان اور امریکہ ایک دوسرے کو اپنے رستے ہوئے زخم ہی دکھاتے رہتے؛ اگر ان میں قومیتوں کی نفرت دہکتی رہتی؛ اگر وہ ایک دوسرے کو ہضم کرنے کیلئے اپنے دانتوں کو تیز کرتے رہتے‘ تو آج ان کی پر رونق اور رنگوں سے چمکتی دمکتی سڑکوں ‘بازاروں اور درس گاہوں کی جگہ کھنڈرات ملتے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved