تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-09-2018

ڈڈار کاڈر

انگریزی میں اسے بمبل بی کہتے ہیں۔ پوٹھوہاری زبان میں ڈڈار۔ اس کا رنگ شہد کی مکھی سے مشابہہ ہے۔ مگر شکل خوفناک، چیر پھاڑ کرنے والے جبڑے اور زہر آلود ڈنک۔ ڈڈار دوسروں کی کمائی پر پلتا ہے۔ شہد کی بستیوں کو اجاڑنے کا شوقین۔ کاٹ لے تو بچھو کی ٹکر کا زہر، درد، تکلیف اور سوجن۔
شہد کے ذکر نے مجھے دو مقدمے یاد کروا دیے۔ پہلا، ایک مزاحیہ فن کار کا کیس تھا‘ جو این ڈبلیو ایف پی کے زمانے میں تھانہ ترنول کی حدود میں پکڑا گیا۔ الزام تھا: بوتل کی برآمدگی۔ مگر شہد والی بوتل نہیں۔ مرحوم اداکار سوشلسٹ خیالات رکھتے تھے اور طبقاتی تقسیم پر خود کئی لا زوال فلمیں تخلیق کیں۔ یہ مقدمہ شرف فریدی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے درج ہوا تھا۔ تب تک ایگزیکٹیو مجسٹریٹ ہی جوڈیشل مقدمے سنا کرتے تھے۔ اس دور میں سیاست کاروں اور فن کاروں سے کیمیکل ایگزامینر لیبارٹری ایک جیسا سلوک کیا کرتی تھی۔ لہٰذا جو کچھ صراحی دار لمبی گردن والی بوتل میں تھا‘ رپورٹ میں وہی برآمد ہوا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس طرح کے مال مقدمے میں ہر برآمدگی کے دو سیمپل لیے جاتے ہیں۔ سیمپل A اور سیمپل B۔ ایسی سیمپلنگ کے بارے میں باقاعدہ تحریری رولز موجود ہیں۔ برآمدگی والا مال کتنا قیمتی اور نشاط آور تھا‘ یہ جانتے ہوئے فن کار نے A سیمپل کی رپورٹ چیلنج کر دی۔ عدالت سے درخواست کی گئی کہB سیمپل اور بوتل کا موازنہ کروایا جائے۔ محرر مال خانہ عدالت میں حاضر ہوا تو یہ راز کھلا کہ یہ قیمتی بوتل غٹاغٹ کرتی ہوئی کسی رندِ بلا نوش کے حلق میں جا بسی ہے۔ 
دوسرا مقدمہ پنڈی کے پڑوسی ضلع میں درج ہوا‘ جہاں تین دیہاتی پرانی دشمنی میں گولیوں سے بھون دیئے گئے۔ مقدمے کی ایف آئی آر میں تہرے قتل کے وقوعے میں زخمی ہونے والا گواہ مدعی تھا۔ استغاثہ کی کہانی کے مطابق تینوں قتل پوری منصوبہ بندی سے کیے گئے۔ اس لیے مرکزی ملزم نے پنڈی کے ایک ہسپتال میں اپنے نام پر کوئی فرضی مریض لٹا کر جائے وقوعہ سے دوری کی حاضری ڈلوا لی۔ فوجداری مقدمات میں ایسے دفاع کو "Plea of Alibi" کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے ملزم واردات کے وقت ''سین آف کرائم‘‘ پر نہیں بلکہ کسی دوسری جگہ موجود تھا۔ بڑی واردات تب سامنے آئی جب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے سی ایم او کی رپورٹ پڑھنے کو ملی‘ جس نے ہر مقتول کی "Autoposy" میں لکھا کہ مقتول کی وجہ موت خنجر کے وار لگنا ہے۔ میڈیکل بورڈ تشکیل ہوا۔ تینوں مقتولین کی قبر کشائی ہوئی‘ جن کے جسموں کے اندر سے گولیوں کے سکیّ برآمد ہو گئے۔ ڈاکٹر نوکری سے نکل کر قتل کی شہادتیں ضائع کرنے کے الزام میں قید ہو گیا۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 201 میں کسی قاتل کے خلاف شہادت ضائع کر کے اسے بچانے والے کو 7 سال قید کی سزا اور جرمانہ لازمی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل جج صاحبان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، مسٹر جسٹس منظور اے ملک اور جناب جسٹس سردار طارق مسعود کے بینچوں میں اس طرح کی تفتیش پر دل دوز تبصرے ہوتے ہیں۔ مجھے اس عدالت کے روبرو اکثر ایسے مقدمات لڑنے کا موقع ملتا ہے‘ جہاں سرکاری اہلکار چند سکوں کے عوض بے گناہ کو قاتل اور قاتل کو معصوم ثابت کرنے کے لیے گواہیاں گھڑتے نظر آتے ہیں۔ 
بات شروع ہوئی تھی بمبل بی سے جسے پوٹھوہاری زبان میں ڈڈار کہتے ہیں۔ میں ایک ہائی پروفائل کیس لڑ رہا تھا۔ 1990 کے عشرے کی بات ہے۔ فائل پر قومی وسائل کے شہد کو تاراج کرنے والے ڈڈاروں کی پوری ڈار کے سیاہ کارنامے پھیلے تھے۔ کیس ناقص تفتیش کی وجہ سے انجام کو پہنچا۔ کچھ سالوں بعد دور تبدیل ہوا تو میں نے وہی پرانے بمبل بی، شہد بنانے والی بے بس مکھیوں کے اثاثوں پر حملہ آور ہوتے دیکھے۔ آپ یہ جان کر یقینا حیران نہیں ہوں گے کہ صرف وفاقی دارالحکومت میںکئی لاکھ کنال سرکاری زمین‘ جس میں سی ڈی اے، اوقاف، متروکہ وقفِ املاک، موو ایریا، گرین ایریا، قومی شاہراہوں پر رائٹ آف وے‘ وفاقی ترقیاتی ادارے کی ملکیتی پورے پورے سیکٹر شامل ہیں‘پر قبضہ مافیا بیٹھ چکا ہے۔ ایک کمرہ، درس گاہ، مارکی، ریسٹورنٹ، شو روم، دکان، پلازہ، مارکیٹ ہر چیز کے لیے سرکاری زمین پر قبضے کے لیے الگ الگ ریٹ ہے۔ اسلام آباد کے انتہائی پوش سیکٹرز میں خالی پلاٹوں پر کئی منزلہ غیر قانونی تعمیرات کھڑی کر کے قبضہ مافیا اسے کہیں دنیا داروں اور گاہے دین داروں کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے‘ مگر قبضے روکنے کے لیے با قاعدہ تنخواہیں اور مراعات لینے والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ گئے دنوں کے کسی شاعر نے اپنے محبوب کو یوں بد دعا دی تھی: 
خدا کرے تیرے دل کی کلی کبھی نہ کھلے 
تیری شرابِ جوانی خمار کو ترسے 
تین مرتبہ کے وزارتی تجربات کی روشنی میں جی چاہتا ہے کہ گڈ گورننس کے سارے چاہنے والوں کو دعا دوں: اللہ کرے تم سب وزیر بن جائو‘ تاکہ تمہیں پتہ تو چلے اچھی حکمرانی کی تبلیغ کرنے اور گُڈ گورننس کے لیے اداروں کے قبرستان میں عوام کے آدرش کا جھونپڑا تعمیر کرنے میں فرق کیا ہے۔ ہفتے کے روز بنی گالا میں وزیر اعظم نے برین سٹارمنگ سیشن رکھا تھا‘ جس میں کئی معاملات زیرِ بحث آئے۔ میں نے اپنے تجربات اور مشاہدات شیئر کیے۔ ساتھ مختلف تبصرہ نگاروں کی تجاویز اور تجزیہ کاروں کے تجزیوں کا حوالہ بھی دیا۔ دوسری جانب وہ سارے جو شہد کے مفتوحہ چھتوں سے 36 سال تک رس چوستے رہے‘ کہتے ہیں: 18 دن میں کتنی تبدیلی آئی ہے؟ جو عشروں تک کج روی پر خاموش رہے‘ آج کل دنوں میں معجزاتی تبدیلی کے نقیب بن گئے ہیں۔
بمبل بی سرجیکل آپریشن کس قدر ٹارگٹ پر ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے راکٹ سائنس پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ ہفتے کی شام کو لاہور کے ایک پلازے میں ''ٹیلنٹڈ شعلے‘‘ بھڑکنے کا واقعہ دیکھ لیں۔ جہاں صاف پانی سکینڈل کے ایک کردار کی دفتری فائلوں پر ٹیلنٹڈ شعلوں نے تاک کر نشانہ لگایا۔ اس سے پہلے 20/25 مرتبہ ٹیلنٹڈ شعلے زیر تفتیش مقدموں کے کرائم سین پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ کل بھی ایک غریب اہلکار کی جان گئی۔ اس سے پہلے بھی ٹیلنٹڈ شعلے درجنوں چھوٹے ملازمین پر قہر برسا چکے ہیں۔ مگر نہ کوئی مقدمہ نہ کوئی تفتیش، نہ کسی کی ذمہ داری اور نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ شعلے صرف ٹیلنٹڈ ہی نہیں بلکہ پوری طرح سے ''گائیڈڈ‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ 
میرا مشاہدہ اور تجربہ کہتا ہے کہ ہر لیول پر ملک کی ورک فورس کو ٹرینڈ یا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ادارے کے اندر خود کار نگرانی اور احتساب کا نظام تشکیل دینا بھی ضروری ہے۔ سالہا سال نہیں عشروں کی سیاسی مداخلت نے میرٹ کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ خوشامد سکۂ رائج الوقت بن کر چل نکلی۔ پارلیمنٹ میں کوالٹی ڈیبیٹ ہوئی نہ ہی فلاحی ریاست جیسی قانون سازی۔ عمومی طور پر قوم کے آئیڈیل تبدیل ہو گئے۔ جس کی وجہ سے آئیڈیلسٹ پیچھے رہ گئے اور ڈڈاروں کا ڈر خوف کی ٹیکنالوجی کو پروموٹ کرتے کرتے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔ ایسے میں ہم وہاں پہنچ گئے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔
ایلف شفق نے محبت کے چالیس چراغ میں لکھا...
''اپنے گھوڑے کو تھپکی دیتے ہوئے شمس تبریز نے حتمی انداز میں بات ختم کی۔ تم کہتے ہو کہ تم اس راہ کے مسافر بننا چاہتے ہو‘ لیکن اس کے لیے قربانی نہیں دینا چاہتے۔ پیسہ، طاقت، شہرت، افراط یا نفسانی خواہش۔ کسی کو زندگی میں جو شے بھی سب سے پیاری ہو۔ اسے وہی سب سے پہلے چھوڑنی چاہیے‘‘۔
وطن کی درستی کے لیے آئیے تھوڑا تھوڑا چھوڑنے کا آغاز انا پرستی چھوڑنے سے کریں۔ ڈڈار کا ڈڑ دور ہو جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved