تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-09-2018

’’بھرتی‘‘ کا جادو

پاکستان جیسے معاشروں میں ایک اصطلاح بہت معروف ہے۔ آپ نے بھی سُنی ہوگی۔ یہ اصطلاح ہے ''بھرتی‘‘ یعنی محض خانہ پُری یا کام چلانے کے لیے کچھ کرنا۔ جیسے کوئی شاعر غزل کے صرف چار شعر کہہ پائے اور مزید شعر نہ ہو پارہے ہوں تو مجموعی تاثر کی پروا کیے بغیر بھرتی کے دو شعر کہہ کر گنتی پوری کرتا ہے۔ یہی حال کہانی کاروں کا بھی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ کوئی اچھا خیال سُوجھ گیا تو اُس پر لکھنے بیٹھ گئے۔ اب اگر کہانی زور اور طُول نہیں پکڑ رہی تو کوئی بات نہیں‘ بھرتی کے جملے ڈالتے جائیے اور سلسلہ آگے بڑھاتے جائیے۔ اس بات سے بالعموم کسی کو کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ کہانی کا مجموعی تاثر کہاں جائے گا‘ کس گڑھے میں جا گِرے گا۔ 
یہی معاملہ ٹی وی سیریلز کا ہے۔ کبھی کوئی ڈراما سیریل منطقی طور پر سات آٹھ اقساط میں تکمیل کی منزل تک پہنچ سکتی ہے مگر ناظرین کی فرمائش پر اور زیادہ پسند کیے جانے پر اُسے طول دیا جاتا ہے تاکہ سپانسر ملتے رہیں اور مال بنتا رہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اچھی خاصی دلچسپ ڈراما سیریل بیزاری پیدا کرنے کے مرحلے تک پہنچ جاتی ہے اور ناظرین اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ یہ جلد از جلد اپنی موت آپ مر جائے! 
کسی زمانے میں ڈائجسٹوں کے سلسلے بہت مقبول تھے۔ لوگ ہر ماہ انتظار کرتے تھے کہ اب کہانی کیا رخ اختیار کرے گی۔ رائٹرز سوچتے تھے کہ مال بن رہا ہے تو چلو‘ سلسلے کو طول دیتے جاؤ۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا تھا کہ بارہ تا پندرہ اقساط میں مکمل ہونے والا سلسلہ سات آٹھ سال تک چلتا رہتا تھا یا یوں کہیے کھینچتا ہی چلا جاتا تھا۔ اس معاملے میں بھی نتیجہ وہی نکلتا تھا‘ جو ڈراما سیریل کے کھنچاؤ سے پیدا ہوتا تھا۔ لوگ بیزار ہوکر پڑھنا ہی چھوڑ دیتے تھے۔ پڑھنے والوں کو بے وقوف نہ سمجھا جائے کہ اُنہیں کوئی چیز کسی جواز کے بغیر کھینچ تان کر دے دی جائے گی ‘اور وہ پڑھ لیں گے۔ 
بھرتی کا کام کہاں نہیں ہو رہا؟ پورا معاشرہ اس عادت کا شکار ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ بھرتی کے کام میں محنت نہیں لگتی۔ جب کچھ نہ کرنا ہو تو جو کچھ کیا جاتا ہے‘ وہی تو بھرتی کا کام ہوتا ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ بھرتی کا مرقع ہوکر رہ گیا ہے۔ قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ کیا کچھ بھی نہیں گیا‘ بس یہ ہے کہ کرنے کا ناٹک رچایا گیا ہے۔ 
کسی بھی ادارے میں باصلاحیت اور باسکت افراد کو باضابطہ ملازم رکھنے کے لیے بھی بھرتی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ خاص طور پر فوج میں ملازمت کے لیے بھرتی کا لفظ معروف ہے۔ سرکاری اداروں‘ وزارتوں اور محکموں میں بھی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب سرکاری معاملات کی حد تک بھرتی کا لفظ بالکل حسب ِحال ہے! سرکاری یا ریاستی مشینری جس انداز سے کام کر رہی ہے اُس کے لیے بھرتی کا لفظ ہی حقیقت ِ حال کے بیان کا حق ادا کرسکتا ہے! 
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت سے سوالوں پر غور کرنا ہے‘ اُن کے جواب تلاش کرنے ہیں۔ بھرتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ عام پاکستانی بھرتی سے محض واقف ہی نہیں‘ کسی نہ کسی درجے میں اِس کا ماہر بھی ہے! یہاں کون ہے جو اپنے تمام فرائض سے کماحقہ سبک دوش ہونے کا التزام و اہتمام کرتا ہے۔ تسلیم نہ کرنے سے حقیقت تبدیل یا ختم نہیں ہو جاتی۔ سرِ دست پاکستانی معاشرہ جان لیوا حد تک بھرتی کی ذہنیت کا شکار ہے۔ دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ معاشرے پر بے دِلی اور بے حِسی کی چادر تنی ہوئی ہے۔ بہت حد تک بے کیفی کا عالم ہے۔ دکھاوے کا ولولہ بہت ہے۔ بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں‘ مگر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ بڑی بڑی باتوں سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ جب بات علم کی آتی ہے تو عزائم کے ٹائرز سے ہوا نکل جاتی ہے۔ 
دعوے رہ گئے ہیں یا پھر وعدے۔ یہ بھرتی کی ذہنیت کا کمال۔ جب معاملات کو محض کام چلاؤ اندازِ فکر و عمل کی نذر کردیا جائے تو یہی ہوا کرتا ہے۔ سیاسی جلسے میں جائیے تو ہر تقریر میں بھرتی کے جملے سنائی دیتے ہیں۔ اِن جملوں میں انفرادی سطح پر معنویت ہوتی ہے نہ باہمی ربط۔ بلند بانگ دعووں سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے بھرتی کے عالم میں کوئی کس طور زندگی کا بامقصد بناسکتا ہے‘ زندہ رہنے کا حق ادا کرسکتا ہے؟ 
کئی عشروں سے کیفیت یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر موزوں ماحول نہ پاکر اپنے عزائم ترک کردیتے ہیں‘ پژمردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جوش اور ولولہ رفتہ رفتہ بے دِلی میں تبدیل ہوتا جاتا ہے اور پھر ہر معاملے پر بے حِسی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ معاملات بھرتی سے شروع ہوکر بھرتی پر ختم ہو جاتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ کیا طلسم ہے اور اِس ''جادو نگری‘‘ سے باہر کیسے آنا ہے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ صرف سرکاری مشینری بھرتی کی ذہنیت کا شکار تھی۔ بے دِلی کے ساتھ کام کرنے والوں کی مثال دینا ہوتی تھی تو سرکاری ملازمین کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ سب کچھ لگے بندھے انداز سے کیا جاتا تھا۔ کچھ جوش دکھائی دیتا تھا نہ ولولہ۔ ہر معاملے کو اِس طور نمٹانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ بس کسی طور کام چل جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور غیر سرکاری شعبہ بھی شدید بے دِلی‘ بے حِسی اور بے کیفی کا شکار ہے۔ سبھی ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ ع 
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے! 
آج کا پاکستان اجمالی اعتبار سے ایسے ماحول کا اسیر ہے‘ جس میں کام کرنے کی لگن صرف نعرے بازی اور بڑھک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ ہر معاملے کو بھرتی کی ذہنیت کے ساتھ نمٹانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جنہیں کسی کام کا منہ مانگا اور پورا معاوضہ ادا کردیا جائے وہ بھی اپنے کام میں کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار جاتے ہیں‘ بھرتی کا کچھ نہ کچھ اپنی کارکردگی میں داخل کر ہی دیتے ہیں۔ یہ شرمناک صورتِ حال ہے جس سے نجات پائے بغیر ہم ایک قوم کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہر معاملے میں پوری دلچسپی لیے بغیر‘ کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار کر‘ بھرتی کے کام سے کام چلانے کی سوچ کو ترک کیے بغیر ہم کچھ بھی ایسا نہیں کرسکتے جو ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے لیے احترام کا اہتمام کرے۔ رُوئے زمین پر کسی بھی قوم نے اُس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اُس نے اپنے آپ کو محنت کی سچی لگن کے حوالے نہیں کیا۔ آج کی دنیا میں بھی وہی اقوام بلندی پر ہیں جو بھرتی کی ذہنیت سے گلو خلاصی ممکن بنانے کے بعد کام کرنے کی سچی لگن سے متصف ہیں۔ 
مگر خیر‘ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ محض کہہ دینے سے کچھ بھی ہو کہاں جاتا ہے؟ خود کو بدلنا پڑتا ہے۔ معاملات کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد پہلے سوچ بچار‘ اُس کے بعد لائحۂ عمل کی تیاری اور آخر میں عمل کی راہ پر گامزن ہونا پڑتا ہے۔ اب ہمیں اپنے اندر حقیقی تبدیلی لاکر بھرتی کی جادو نگری سے باہر آنا ہی پڑے گا۔ منہ کے فائر کرنے سے دشمن ڈھیر نہیں ہوتے۔ عمل کا ہتھیار ہاتھ میں ہو تو میدان میں اُترنے کا مزا کچھ اور ہے۔ اور عمل بھی بھرپور‘ نہ کہ بھرتی کا اور سچی لگن سے عاری۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved