سارنگ شیدور معروف عالمی تجزیہ کار ہیں۔ان کایہ مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ ''ڈوکلام میں پیدا ہونے والے فوجی تنائو کے ایک سال بعد‘ بھارت اور چین اپنے تعلقات بحال کرنے اور ان میں بہتری لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس تبدیلی کے امکانات امسال اپریل میں چین میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر‘ شی چن پنگ کے مابین ہونے والی ملاقات کے بعد‘ واضح طور پر روشن ہونا شروع ہوئے تھے۔ رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ہی ملک اپنی اپنی فوج کو سٹریٹیجک گائیڈنس فراہم کریں گے‘ تاکہ آئندہ ڈوکلام جیسی صورتحال پھر پیدا نہ ہو ۔ ملاقات کے بعد معاملات میں بہتری کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ دونوں جانب سے خارجہ اور دفاع کے وزرا اور قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان اعلیٰ سطحی میٹنگز ہوئیں‘ جن میں اہم معاملات پر تبادلہ خیالات کیا جاتا رہا۔ نریندر مودی اور شی چن پنگ کی بھی اس کے بعد مختلف جگہوں پر ہونے والے کثیر جہتی اجلاسوں میں مزید دو بار ملاقات ہو چکی ہے۔ان ساری ملاقاتوں اور تبادلہ خیالات کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملک اپنے فوجی ہیڈ کوارٹرز کے مابین ہاٹ لائن قائم کرنے کے بارے میں صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔دونوں ملکوں کی سرحد کے ساتھ ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
بھارت اور چین کے مابین تعلقات میں بہتری کا معاملہ محض فوجی سطح پر اعتماد بڑھانے اور علامتی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دونوں ممالک نے سمندری معاملات اور دریائی پانی کے ایشو پر مذاکرات کا سلسلہ بحال کر لیا ہے‘ جو 2016ء سے معطل تھا۔ بھارت نے دلائی لامہ کے معاملے پر اپنے جذبات کو قابو میں کر لیا ہے اور اپنی قومی ایئر لائن کے نقشے میں تائیوان کا نام تبدیل کر کے چین کو کچھ رعایتیں دی ہیں‘ اور اس کے بدلے میں چین نے بھارت کی فارماسیوٹیکل اور زرعی برآمدات کو اپنی مارکیٹ تک رسائی فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے‘ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ انڈو پیسیفک ریجن اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بارے میں بھارت کا اندازِ فکر ہے جس کی وجہ سے دونوں ملک اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ بھارت بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا دنیا بھر میں سب سے بڑا مخالف ہے۔ بھارت ان دو ممالک میں سے ایک تھا‘ جس نے 2017ء میں بیجنگ میں اس منصوبے کے بارے میں منعقد کی گئی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ دوسرا ملک بھوٹان تھا۔ اس مخالفت کی وجہ‘ پاک چین اکنامک کوریڈور تھا۔ بھارت کے مطابق ‘پاکستان کے علاوہ جس کا ایک حصہ کشمیر میں سے بھی گزرتا ہے‘ جو اس کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اس بات پر بھی زور دیتا رہا ہے کہ انیشی ایٹو منصوبہ بے ہنگم اور بے آہنگ ہے‘ کیونکہ اس کی وجہ سے ان ممالک پر قرضوں کا بوجھ بے انتہا بڑھ جائے گا‘ جو اس کا حصہ بنیں گے اور اس منصوبے سے ماحول کو شدید نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔
بھارت نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو تسلیم نہیں کیا ہے‘ لیکن وہ امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے مشترکہ تعاون سے بننے والے ایک انفراسٹرکچر منصوبے کا حصہ دار بننے کیلئے تیار ہو گیا ہے۔ اس دوران چین نے ایک بار پھر بھارت کو یہ کہہ کر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ بننے کی
پیشکش کی کہ وہ چین کا ''قدرتی پارٹنر‘‘ ہے۔ بھارت‘ چین کے تعاون سے بننے والے ان منصوبوں کے بارے میں صلاح مشوروں میں مصروف ہے‘ جو بھارت کے ترقی یافتہ شمال مشرقی حصے کو کم ترقی یافتہ جنوب مشرقی حصوں اور بنگلہ دیش کی چٹاگانگ بندرگاہ سے ملائیں گے۔ مودی نے حال ہی میں شنگریلا ڈائیلاگ ‘ جو سنگا پور میں ہر سال منعقد ہوتے ہیں‘ میں جن خیالات کا اظہار کیا‘ وہ بھارت ہی کے وزیر دفاع کی جانب سے 2016ء میں اسی فورم پر کہی گئی باتوں سے بالکل مختلف تھے۔ مودی نے وہی باتیں کیں‘ جو ان دنوں بھارت کے سیاسی نعرے بن چکے ہیں‘ یہ کہ ''جہاز رانی کی آزادی‘‘ ہونی چاہئے اور ''اصولوں پر مبنی ترتیب‘‘ "rules-based order" ضروری ہے۔چین سائوتھ چائنا سمندر میں جو کچھ کر رہا ہے‘ یہ اسی جانب ایک بالکل واضح اشارہ تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ نریندر مودی‘ چین کے ان تحفظات کو کم کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہے‘ جو اسے اپنے خلاف بھارت‘ امریکہ‘ جاپان اور آسڑیلیا کے ابھرتے ہوئے اتحاد کی وجہ سے لاحق ہیں۔ مودی نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ انڈو پیسیفک کوئی تزویرات ہے‘ یا محدود ارکان پر مشتمل کوئی کلب ہے یا کوئی ایسی گروپنگ ہے‘ جو کچھ حوالوں سے غلبہ چاہتی ہو اور یہ کسی بھی طرح کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کے تعلقات میں تبدیلی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہ بات درست ہے کہ داخلی معاملات اس حوالے سے کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ بھارت کی بات کی جائے تو نریندر مودی کو اگلے سال انتخابات میں حصہ لینا ہے اور وہ الیکشن سیزن میں داخل ہونے والے ہیں‘ جبکہ وہ ایک سال پہلے کی نسبت اب یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں الیکشن میں سخت مقابلہ درپیش ہو گا کیونکہ حالات پہلے جیسے نہیں رہے‘ خاصے بدل چکے ہیں جبکہ ڈوکلام جیسا ایک اور تنازعہ کھڑا ہو گیا تو حالات کو ان کے مزید خلاف کر دے گا جس کے باعث ان کی کامیابی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ دوسری جانب چینی صدر‘ شی چن پنگ کو بھی داخلی سطح پر مخالفین کی جانب سے دبائو کا سامنا ہے۔
یہ واضح ہے کہ ڈوکلام کے معاملے میں بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ اس معاملے میں فتح یاب نہیں ہوا۔ بھارت ڈوکلام کے علاقے میں اس سڑک کی تعمیر روکنے میں تو کامیاب ہو گیا‘ جو چین وہاں تعمیر کر رہا تھا اور جس کی وجہ سے یہ تنازعہ کھرا ہوا تھا (کم از کم فی الوقت) لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ چینی افواج اس علاقے سے واپس نہیں گئی ہیں‘ بلکہ انہوں نے اپنی وہاں موجودگی مزید یقینی بنا لی ہے۔ دوسری جانب بھارتی افواج کو وہ علاقہ مکمل طور پر خالی کرنا پڑا تھا اور سطح مرتفع چھوڑ کر اسے اپنے غیر متنازعہ علاقے تک پسپائی اختیارکرنا پڑی تھی۔ بھارت کو گزشتہ سال اس کے علاوہ بھی کچھ دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اس کی اپنے کچھ پڑوسی ممالک کو‘ اپنے زیر اثر رکھنے کی پالیسی کو نقصا ن پہنچا تھا۔ مثلاً نیپال میں ہونے والے انتخابات میں ایک ایسی پارٹی کامیاب ہو گئی‘ جو بیجنگ کی حامی ہے اور اس نے چین سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبے پر بات چیت بھی شروع کر دی ہے۔ نیپال میں جو پارٹیاں کامیاب ہوئیں اور انہوں نے حکومت بنائی‘ وہ کمیونسٹ پارٹیوں کا اتحاد ہے۔ اس طرح نیپال اب بھارت کے اتنے زیر اثر نہیں ہے‘ جتنا وہ کچھ عرصہ پہلے تک تھا۔ مالدیپ کے حالات بھی بھارت کے حق میں نہیں ہیں۔ وہاں ایک ایسی حکومت ہے‘ جو بھارت کی نسبت چین کے زیادہ قریب ہے اور اسی کے ساتھ اپنے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور اب پاکستان‘ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک طرف رکھ کر‘ چین کے ساتھ راہ و رسم بڑھا رہا ہے۔ بھارت کو یہ بھی یقین نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر رہتے ہوئے امریکہ‘ چین اور پاکستان کے حوالے سے اس کی کوئی مدد کر سکے گا یا نہیں۔ ان تمام معاملات نے بھارت کو جیو پولیٹکل مسائل سے دوچار کر دیا ہے اور بھارت کے نقصان کا مطلب ہے‘ چین کا فائدہ‘‘۔ (جاری )