کئی عشروں پر محیط نام نہاد دوستی کے ہاتھوں پاکستان نے امریکا کی مہربانی سے ایسے کئی مراحل دیکھے جب ایک مصیبت ختم ہوتی تھی اور دوسری آجاتی تھی اور کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ مصائب نے ہمارا پتا ڈھونڈ نکالا ہے اور اب صرف ہم پر مہربان ہیں۔ امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں ہمیں جو کچھ بھگتنا پڑتا تھا‘ اُسے دیکھ کر منیرؔ نیازی بار بار یاد آتے تھے ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
پاکستان کی نئی سیاسی قیادت کو ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں اور امریکی قیادت کچھ پوشیدہ رکھنے کے موڈ میں بھی نہیں۔ پاکستان کو دھمکانے اور آنے والے دنوں سے خوفزدہ کرنے کے حوالے سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جارہی۔
پاکستان کی معاشی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ ایک طرف قدرتی عمل ہے۔ چند ایک مسائل اپنے آپ‘ فری مارکیٹ میکنزم کے ہاتھوں پیدا ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف امریکا نے ہم مزاج و ہم نوا طاقتوں کے ساتھ مل کر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا اور مشرق وسطٰی کے چند ممالک کو گھیرنے کی تیاری کرلی ہے۔ آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دن کسی بھی طور ایسے نہیں ہوں گے کہ پاکستانی قیادت اور قوم آسانی سے سکون کے سانس لے سکے۔
ہر بحران کے پہلو بہ پہلو چند ایک فوائد بھی ہوتے ہیں اور یہ سب قدرت کی طرف سے ہوتا ہے۔ جب بھی کسی فرد یا قوم پر کوئی بڑی مصیبت نازل ہوتی ہے‘ تو باریکی سے جائزہ لینے پر کوئی نہ کوئی بڑا فائدہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ میسر ہے یا نہیں۔ اس وقت بھی پاکستان کے لیے چند ایک بڑی مشکلات ہیں۔ معیشت اور سفارت کاری کے حوالے سے بحرانی کیفیت پائی جارہی ہے‘ مگر ساتھ ہی ساتھ چند ایک اسٹریٹجک فوائد کے حصول کی بھی گنجائش ہے۔ ان فوائد کے حصول کے لیے دانش مندی اور معاملہ فہمی درکار ہے۔ نگاہ بلند ہونی چاہیے۔ محض سوچ لینے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو جاتا‘ جیسے تیل کے ذخائر کا دریافت ہو جانا تیل کی پیداوار نہیں کہلاتا۔
پاکستان کو ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنا ہے۔ ایک زمانے سے معاملہ یہ ہے کہ ہمیں ہر چار پانچ سال بعد ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنا پڑتا ہے۔ اب پھر یہ مرحلہ درپیش ہے۔ ایک بار پھر ہمیں طے کرنا ہے کہ عالمی برادری میں کھویا ہوا وقار کس طور بحال ہو۔ نئی ترجیحات طے کرنا اس لیے بھی لازم ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکا اور یورپ کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ چین‘ روس اور ترکی سے بڑھتی ہوئی قربت پاکستان کو مغرب سے دور کر رہی ہے‘ مگر یہ سب کچھ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ امریکا اور اس کے زیر اثر کام کرنے والے مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان سمیت متعدد اہم اسٹریٹجک ممالک مغرب کے تلوے چاٹتے رہیں۔ یہ خواہش ایک خاص حد تک ہی پوری کی جاسکتی ہے۔ تمام معاملات میں غلامانہ ذہنیت اپناتے ہوئے زندہ رہنا کسی فرد کے لیے ممکن ہوتا ہے نہ قوم کے لیے۔
فراقؔ گورکھ پوری نے کہا تھا ؎
دیکھ رفتارِ انقلاب فراقؔ!
کتنی آہستہ ... اور کتنی تیز
عالمی سفارت کاری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بین الریاستی تعلقات میں بہت کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ مفادات بدلتے ہی تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ بھی عین فطری ہے‘جو کچھ انفرادی سطح پر درست ہے‘ وہی کچھ اجتماعی سطح پر بھی غلط نہیں۔ پاکستان کے لیے بھی بہت کچھ بدل رہا ہے اور مزید بہت کچھ ہے‘ جو بدلنے کی تیاری میں ہے۔ بین الریاستی تعلقات میں مستقل دوست ہوتے ہیں ‘نہ مستقل دشمن۔ میوزیکل چیئر گیم کی طرح ریاستوں کے دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔
چین‘ روس اور ترکی سے بڑھتی ہوئی قربت کے ہاتھوں جہاں اور بہت کچھ ہوا ہے‘ وہیں یہ بھی ہوا ہے کہ امریکا نے پاکستان سے فاصلہ رکھنے کا ذہن بنالیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ امریکا کا میٹر شارٹ ہوگیا ہے! امریکا اگر ہم سے دور ہوگیا ہے‘ تو نئی بات نہیں۔ ہاں‘ ہم یہ حقیقت نظر انداز کر رہے ہیں کہ روس بھی تو بھارت سے دور ہوتا جارہا ہے۔ امریکا نے راہ بدلی ہے‘ تو بھارت نے اُس سے روابط بہتر بناتے ہوئے صورتِ حال کا فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے۔ ہم نے اب تک بھارت اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے فائدہ اٹھانے کی کیا تیاری کی ہے؟ شاید‘ بلکہ یقینا کچھ بھی نہیں۔ روس معمولی یا گیا گزرا ملک نہیں۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں اُس سے اب بھی بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ روس کی مارکیٹ بھی چھوٹی نہیں۔ ہم روس کے لیے برآمدات بڑھاکر اپنے خسارے کا حجم گھٹانے کی سمت تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ خارجہ پالیسی تیار کرنے والوں کا بنیادی فریضہ ''اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے پالیسی میکرز کو اسٹریٹجک ڈیپتھ یقینی بنانے پر زیادہ سے زیادہ محنت کرنی ہے۔ اس حوالے سے اُن کی محنت ہی چار پانچ سال کے لیے ملک کی سمت کا تعین کرے گی۔
امریکا اور یورپ کی حاشیہ برداری کا نتیجہ ہم دیکھ ہی نہیں‘ بھگت بھی چکے ہیں۔ خاص طور پر امریکا کے حوالے سے غلامانہ ذہنیت اپنانے کے نتیجے میں ہم نے ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ...
جیسی کیفیت بارہا محسوس کی ہے۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران متعدد مواقع پر صاف محسوس ہوا ہے کہ ہم دوسروں کے یا دوسروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کرائے کے ٹٹّو کا کردار ادا کرتے رہنے سے ہمیں بار بار ''مفت ہوئے بدنام‘ کسی سے ہائے دل کو لگاکے!‘‘ گنگنانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اور ایسا کرنے پر ہم مجبور کیوں نہ ہوں؟ کام نکل جانے کے بعد امریکا صریح طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''نیکسٹ‘‘ کی صدا لگانے کا عادی رہا ہے۔ ہم انوکھے نہیں کہ امریکا ہم سے امتیازی سلوک کرے۔ کام نکل جانے کے بعد نظر پھیرنا تقریباً سبھی ''اپنوں‘‘ کے معاملے میں امریکا کا وتیرہ رہا ہے۔
حالات واضح اشارا کر رہے ہیں کہ اب ہمیں صرف سمجھنا اور سوچنا نہیں‘ بلکہ عمل کی راہ پر گامزن بھی ہونا ہے۔ عمل کی راہ پر چلے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس راہ میں رکاوٹیں بہت ہیں۔ امریکا سیخ پا ہے۔ وہ ہمیں مفادات مستحکم کرنے کی راہ پر آسانی سے آگے بڑھنے نہیں دے گا۔ مگر خیر‘ اس راہ پر چلتے رہنے کے سوا آپشن نہیں۔
تیزی سے بدلتے ہوئے سفارت کارانہ ماحول میں یاد رکھنے کا نکتہ صرف یہ ہے کہ اب ہمیں صرف اپنے مفادات کو یقینی بنانے پر دھیان دینا ہے اور کسی بھی اور کے حصے کا کام کرنے سے صاف بچنا ہے۔ کسی کا بوجھ اٹھانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنا بوجھ اٹھائیں اور بھرپور مورال کے ساتھ جئیں۔ اقوامِ عالم کی برادری میں معاملات بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات و معاملات اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ دانش و حکمت کے ساتھ تبدیلی اپنائی جائے۔ اسٹریٹجک ڈیپتھ راتوں رات یا ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت پیدا نہیں ہو جایا کرتی۔ اس کے لیے کچھ نہ کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ ہم دوسروں پر بہت کچھ قربان کرتے رہے ہیں‘ تو اپنی خاطر تھوڑی بہت قربانی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
٭٭٭