تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-09-2018

خالی ہاتھ

فرمایا: آخرت ہی افضل و اولیٰ ہے مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ ژولیدہ فکری، بے چینیاں، افلاس اور خالی ہاتھ!
حکمران تو وہ تھے کہ وقت ہمیشہ انہیں حیرت سے دیکھتا رہے گا۔ بعد میں کبھی کبھی کسی میں ان کی ایک جھلک سی دکھائی دیتی اور نگاہ کو خیرہ کرتی ہے۔ جیسے صلاح الدین ایوبی، جو سرکاری خزانے سے کبھی کچھ نہ لیتے، جیسے محمد علی جناح، جو کم از کم خرچ کرتے، اتنا کم کہ تحقیق کرنے والے تعجب کرتے ہیں۔ زیارت میں ان کی بھوک مرنے پہ معالج پریشان تھے تو کچھ بندوبست کیا گیا۔ بابائے قوم کو بتائے بغیر لائل پور سے ان کے پسندیدہ باورچی منگوائے گئے۔ پتہ چلا تو نا خوش ہوئے۔ فرمایا: کیا ریاست کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ گورنر جنرل کے لیے لذیذ طعام کا بندوبست کرے۔ بر سبیل تذکرہ بابا کو مشرقی کھانے پسند تھے۔ پلائو سے شغف تھا۔ کبھی کبھار سری پائے بھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی مزاحمت کے باوجود انتقال سے تین دن قبل حلوہ پوری بھی کھائی۔ 
معمول مگر مختلف تھا۔ ہمہ وقت کام میں مگن۔ مشقت کے نشئی، Workaholic کی اصطلاح تو نصف صدی بعد وجود میں آئی۔ قائدِ اعظم واقعی کام کے نشئی تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح مطلع کرتیں کہ کھانا چن دیا گیا ہے۔ کہتے کہ ابھی آتا ہوں۔ چند منٹ بعد دوبارہ تشریف لاتیں کہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ فرماتے: آپ لوگ شروع کیجیے۔ پانچ سات منٹ اور بیت جاتے۔ اپنے کندھوں پہ جو قوموں کا بار امانت داری سے اٹھاتے ہیں، ان کے شب و روز کچھ اور طرح سے گزرتے ہیں۔ یہ ہمارے عہد کے حکمراں ہیں، جو دستر خوانوں پہ ڈٹے رہتے ہیں۔ 
عمر فاروق اعظمؓ نے ایک زرد رو کمسن بچی کو دیکھا۔ پوچھا: کون ہے۔ عرض کیا: امیرالمومنین، آپ کی پوتی ہے۔ بارہ برس پہ پھیلے اقتدار کے عہد میں، جو تاریخ کا چراغ ہے، پانچ سال قحط کے تھے۔ امیرالمومنینؓ نے گھر کا راشن محدود کر دیا۔ پوتی کے چہرے پہ کھنڈی زردی اسی کا نتیجہ تھی۔ چھوٹے غم بیت جاتے ہیں۔ ضمیر کی خلش اہلِ صفا کا زخم ہوتا ہے۔ 
ملاقاتی کو فاروقِ اعظم ؓ نے کھانے کی دعوت دی۔ وہ طرح دے گئے۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ آپؓ نے کہا: ہر بار تم ٹال جاتے ہو۔ بولا: ہم مرغن کھانے کے عادی ہیں۔ کبھی ریشمی کپڑے کے تاجر تھے، خوش حال۔ اچھے کھانے سے شغف رہا تھا۔ مہمان سے کہا: کیا میں نہیں جانتا کہ بھنا ہوا گوشت کتنا لذیذ ہوتا ہے۔ کیا میں گرم چپاتی کے ذائقے سے واقف نہیں۔ ذمہ داری بہت بھاری آ پڑی۔ 
مدینہ کی گلیوں میں گشت کیا کرتے۔ کبھی کھانے کی دعوت قبول کر لیتے۔ ایک شب کسی نے کہا : امیرالمومنین! گوشت ابالا گیا ہے۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ برتن زانو پہ رکھا اور وہیں بیٹھ کر تناول فرما لیا۔ ایک دوسرے موقعہ پر ایسا ہی ہوا۔ دوسرا یا تیسرا لقمہ اٹھایا تو رک گئے۔ یہ کسی خاص عضو کا گوشت تھا، مثلاً چانپ کا۔ فرمایا: اس درجہ اہتمام عیب ہے۔ 
ایران سے قاصد کا انتظار تھا۔ گھر میں تشریف فرما تھے۔ آواز دی: مجھے کچھ کھانے کو دو۔ زیتون کے تیل سے چپڑی جو کی روٹی لائی گئی ۔ مزے لے لے کر کھائی۔ پکار کر کہا : ''کچھ پینے کے لیے‘‘ پھر ستّو لائے گئے۔ 
اتنے میں پیامبر آ پہنچا ۔ آپؓ نے اسے کھانے کی دعوت دی ۔ اس نے فتح کی نوید دی۔ مہم کی تفصیلات بیان کیں ۔ مالِ غنیمت کے بارے میں بتایا ۔ پھر ایک قیمتی ڈبیہ نکالی اور کہا: باقی چیزیں تقسیم ہو گئیں۔ اس کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ آپ کی خدمت میں پیش کی جائے۔ رنج پہنچا کہ انہیں سکھاتا رہتا ہوں ۔ اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ جس چیز پہ میرا حق نہیں، میرے لیے اٹھا لائے ۔ ناراضی میں سرو قد کھڑے ہوئے تو پیامبر خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلا۔ 
نرم خو تھے مگر ہیبت تھی کہ چھا جاتی ۔ یروشلم کے سفر میں منزل پہ پہنچے تو مسلمانوں نے کہا : لباس تبدیل کر لیجیے ۔ شام میں خوش پوشی کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ فرمایا: لباس زمین کی چیز ہے ، رعب آسمان کی۔ 
جناب خالد بن ولیدؓ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ منتخب گھوڑے پہ سوار، قیمتی جبّہ پہنے ہوئے ۔ نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا: میری زندگی ہی میں تم بگڑ گئے ۔ وہ بھی خالد تھے ۔ جبّے میں ہاتھ ڈالا اور کہا : امیرالمومنین، شمشیر وہی ہے۔ 
ابو عبیدہ بن جراحؓ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے ۔ رسولِ اکرم ؐ انہیں عزیز رکھتے تھے ۔ ان کے بارے میں ارشاد کیا تھا : ہر امّت کا ایک امین ہوتا ہے ۔ میری امّت کے امین یہ ہیں ۔ خالد بن ولیدؓ معزول کیے گئے تو کمان انہی کے سپرد کی تھی ۔ محتاط ترین سالاروں میں سے ایک تھے ۔ ہمیشہ یہ ملحوظ رکھتے کہ مسلمانوں کا جانی نقصان کم سے کم ہو ۔ ان کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے تو وہی سامان۔ ایک تلوار ، ڈھال، پانی اک چھوٹا سا مشکیزہ ، فرش پہ بچھا بستر ، لکڑی کا پیالہ ۔ آنکھیں نم ہو گئیں ۔ فرمایا: رسول اللہؐ کے بعد ہم سب تھوڑے تھوڑے بدل گئے، آپ نہیں بدلے۔ 
یہ ایک اور طرح کے لوگ تھے ۔ صحبتِ رسولؐ کے پالے ہوئے۔ قرآن میں غوطہ زن ، سادہ اطوار، منکسر مزاج، وعدے کے پاسدار، علم کے جویا، ایثار کے خوگر، قول و فعل میں ہم آہنگی پہ تلے رہنے والے۔ قرآنِ کریم کہتا ہے : اللہ ان سے راضی اور اللہ ان سے راضی۔ تاریخ نے اس سے پہلے کوئی ایسا گروہ دیکھا نہ ان کے بعد۔ 
اللہ کا کوئی پیغمبرؑ ناکام نہیں ہوا۔ اس کا کام پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ دنیاوی زندگیوں میں بظاہر وہ کامران نہ ہو سکے۔ سیدنا آدمؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا۔ 9 سو برس حضرت نوحؑ تبلیغ کرتے رہے۔ ان کا بیٹا بھی ایمان نہ لایا؛ حتیٰ کہ ان پر پانی کا عذاب آیا۔ سیدنا موسیٰ ؑ کی قوم نے ان کی زندگی میں بچھڑے کی پوجا کی۔ ایک کے بعد دوسرا، قرآنِ کریم ان کی سرکشی کے واقعات بیان کرتا ہے ۔ خود موسیٰ ؑ نے ان کے بارے میں کہا تھا : میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں سے ہو جائوں۔ 
صرف مسلمان ہی نہیں، کرّۂ خاک پہ زندگی گزارنے والا کوئی وجود نہیں ، جس کی گردن پہ رحمۃ اللعالمین ؐ کے احسانات کا بوجھ نہ ہو۔ جہاں کہیں انصاف کسی مسکین کو پناہ دیتا ہے۔ جہاں بھی کسی کا دکھ بٹایا جاتا ہے۔ جہاں کہیں کسی کے سر پہ چھائوں ہے ، سرکارؐ کا فیض اسے پہنچا ہے۔ 
تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی میں ، آنے والے ادوار کو بھی جس نے بدل ڈالا ، اصحابِ رسولؓ کا حصہ ہے ۔ خوشاب کے صوفی نے ایک شب آپؐ کو خواب میں دیکھا ۔ فرمایا: اسلام کی عمارت میرے اصحاب کے خون اور ہڈیوں پہ تعمیر کی گئی ۔ ارشاد کیا تھا: میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ۔ ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے، فلاح پائو گے۔ 
ان پہ حیرت ہے ، جو اصحاب ؓ سے گریزاں ہو گئے۔ ان پہ حیرت ہے جو سیرت اور قرآن سے بے نیاز ہیں ۔ آدمی عجیب ہے ۔ جگمگاتی شاہراہ سامنے ہے مگر وہ تاریکیوں میں بھٹکتا ہے۔ ادنیٰ کو لپکتا ہے۔ خور و نوش، چمکتا لباس ، بلند مکان ، سواریاں ، مناصب ، دولت اور شہرت ۔ اللہ ان کی مغفرت کرے، اور ان کے خاندان پر کرم فرمائے‘ کلثوم نواز آج اس دنیا سے چلی گئیں۔ اپنے ساتھ وہ کیا لے گئیں؟ آخر کار شریف خاندان کو کیا ملا؟ بھٹو خاندان نے کیا پایا؟ 
فرمایا: آخرت ہی افضل و اولیٰ ہے مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ ژولیدہ فکری، بے چینیاں، افلاس اور خالی ہاتھ!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved