تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     12-09-2018

جیسے عوام ویسے حالات

معیشت تو ٹھیک ہو گی جب ہو گی، اُس کے لئے بھی شرط یہ کہ ہمیں فروعی معاملات سے فرصت ملے۔ نیا پاکستان بھی بن جائے گا جب بننا ہو گا، فی الحال تو پرانے پہ ہی گزارا چل رہا ہے۔ لیکن جب تک یہ کرشمات ظہور پذیر نہیں ہوتے‘ مملکتِ خداداد کی روزمرّہ زندگی میں کچھ آسانیاں تو پیدا ہوں۔ سندھ کے عرصہ پرانے وزیر اعلیٰ جام صادق علی یاد آتے ہیں۔ دھڑلے کے آدمی تھے۔ سندھ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے چناؤ کیلئے عددی تعداد میسر نہ تھی‘ لیکن راتوں رات اپنے لئے اکثریت پیدا کر لی۔ کئی جیالے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز کو زیر حراست کیا۔ ریسٹ ہاؤسوں میں رکھا اور شاموں کو جو اُن کی مانگ ہوتی، پوری کی جاتی۔ اس بارے کوئی کسر نہ اُٹھائی جاتی۔ جتنا عرصہ رہے صحیح طمطراق سے چیف منسٹری کی۔ 
اقلیتوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لئے پورے صوبے میں اُن دکانوں کی اجازت دی گئی‘ جہاں سے اقلیتوں کے فرد مخصوص مشروبات خرید سکتے۔ صوبے میں ایسا ماحول پیدا ہوا کہ اِن اشیاء کی قلت یکسر ختم ہو گئی۔ نیا سندھ تو اُنہوں نے نہ بنایا لیکن اِس لحاظ سے آسانیاں پیدا کر دیں۔ پنجا ب کے نئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ وہ بھی جام صادق علی والی جرات دکھائیں اور بغیر کسی شور شرابے کے اُن جیسی چند آسانیاں پیدا کر دیں۔ عوام کا بھلا ہو گا۔ فضا کی گھٹن میں کمی آئے گی اور نوجوان وَن ویلنگ کے علاوہ کسی اور طرف بھی مائل ہو سکیں گے۔ حکومت کی آمدن بڑھے گی۔ یہ میٹرو بسیں اور اورنج لائن ٹرین تو نرِے گھاٹے کے سودے ہیں۔ جن آسانیوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اُس سے پنجاب کا تمام خسارہ پورا ہو جائے گا۔ نوکریاں بھی ملیں گی۔ دوبئی کا آدھا سروس سیکٹر اِن آسانیوں پہ مبنی و محیط ہے۔ 
لاہور جیسے بڑے شہر میں، اور اَب اُس کی آبادی اتنی ہے کہ گننے میں نہیں آتی، بڑے ہوٹل تین چار ہی ہیں۔ دَلّی میں فائیو سٹار ہوٹلوں کی لمبی قطار ہے۔ دوبئی کی تو بات ہی اور ہے۔ وہاں کی آمدن تیل سے نہیں آتی۔ آمدن کا سارا دارومدار سروس اور فنانشل سیکٹر پر ہے۔ دوبئی میں پیدا کچھ بھی نہ ہو لیکن پیسے کی فراوانی ہے کیونکہ وہاں لوگ پیسہ رکھتے ہیں، جائیدادیں خریدتے ہیں اور سیروتفریح کیلئے آتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے: دوبئی میں دیکھنے کو ہے کیا‘ سوائے صحرا کے کچھ علاقے اور سمندر کے پانی کے۔ لیکن پھر بھی دُنیا ٹوٹ ٹوٹ کے جاتی ہے اور دوبئی کے ائیر پورٹ کا شمار دنیا کے بڑے ائیرپورٹوں میں ہوتا ہے۔ یہ صورتحال صرف اسی لئے ہے کہ دوبئی کے حکمرانوں نے اُس چھوٹی سی جگہ پہ ایسا ماحول بنایا ہے کہ دُنیا وہاں کھنچ کھنچ کے آتی ہے۔
دوبئی کے مقابلے میں ہمارے ہاں دیکھنے کو بہت کچھ ہے، سمندر کے پانیوں سے لے کر دنیا کی بلند ترین چوٹیوں تک۔ لیکن ہمارے ہاں لوگ کیوں نہیں آتے؟ کچھ تو دہشت گردی کی وجہ سے اور یہ ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی کے پیدا کرنے میں ہمارا اپنا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کس افلاطون نے کہا تھا کہ ہم افغانستان کی آگ میں جا چھلانگ لگائیں۔ کچھ تو ہمارا اپنا دل مائل تھا کچھ امریکیوں نے ہمیں پھونک دی اور ہم آپے سے باہر ہو گئے۔ افغانستان کے حوالے سے وہ کچھ کیا جو باقاعدہ احمق نہ کرتے۔ ایسی کارروائی کا صلہ تو ہم نے پانا تھا اور دہشت گردی اور طالبان کی صورت میں ہم نے پا لیا۔ 
لیکن دہشت گردی کے علاوہ بھی ہم فروعی باتوں میں پڑنے سے تھکتے نہیں۔ باقی بھی مسلمان ممالک ہیں۔ دوبئی بھی مسلمان ملک ہے‘ لیکن ہمارا اسلام نرالا ہے۔ جتنا یہاں مولوی صاحبان شور مچاتے ہیں اُس کے دَسویں حصے کی جرأت دوبئی میں کریں تو سیدھا اندر کر دئیے جائیں اورکوئی چھڑانے والا نہ ہو۔ یہاں آئے روز چھوٹی چھوٹی اور فضول باتوں پہ ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ کون پاگل ہے کہ ایسے ماحول کے ہوتے اپنے پیسے خرچ کر کے پاکستان آئے؟ یہاں کوئی باہر سے سیاح کسی ہوٹل میں مقیم ہو اور شام کو اُسے پیاس لگے تو وہ ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ہم میں عقل ہو تو ہندوستان کے ساتھ بارڈر کو تھوڑا نرم کریں تاکہ ویزا کی آسانیاں پیدا ہوں اور وہاں سے لوگ یہاں باآسانی آ سکیں۔ اتنے لوگ آئیں کہ باقی پاکستان کی معیشت تو ایک طرف رہی‘ لاہور کی معیشت یکدم اُٹھ کھڑی ہو۔ لاہور کے ہوٹل ہندوستانی سیاحوں کی آمد کو ہینڈل نہ کر سکیں۔ وہ بازار جو سردار ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب ہے‘ پھر سے آباد ہو جائے۔ اگر پاکستانی اُس پار باآسانی جا سکیں تو اُن کے دماغ تھوڑے کھل جائیں۔ ہمیں ڈر کس چیز کا ہے؟ کہ اگر ہندوستانی سیاحوں کی بھرمار ہو تو ہمارے ایٹمی اثاثے خطرے میں پڑ جائیں گے؟ اتنے افغان ہم نے برداشت کر لئے حالانکہ اُن میں سے بہت سے واپس اپنے ملک کو نہیں گئے۔ ہندوستانی سیاح یہاں آئے تو اُنہوں نے یہاں آباد نہیں ہونا۔ مزدوریاں نہیں کرنیں، ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں نہیں گھسنا۔ 
لیکن یہ سب باتیں ہیں۔ ماحول کچھ ایسا بنا چکے ہیں کہ ہم ایسے اقدام کر نہیں سکتے۔ مسئلہ ہندوستانی خطرے کا نہیں، ذہنوں پہ قدغن اور زنجیروں کا ہے۔ وہ صلاحیت جس سے ہم اِن سوالوں پہ غور کر سکیں ہم نے اپنے آپ کو اُس سے محروم کر دیا ہے۔ بنگالی ہمارے ساتھ تھے تو ہماری دنیا آج کی نسبت تھوڑی وسیع تھی۔ اُن کو نکال باہر کر کے نقصان ہمارا ہوا۔ ذہن مزید جکڑے گئے۔ پھر نام نہاد افغان جہاد کا بوجھ اپنے سر لے لیا اور ذہنی اعتبار سے ہم ایک سو سال پیچھے کو ہو لیے۔ نیا پاکستان تو تب بنے جب اِس سارے ذہنی ملبے سے ہم آزاد ہو سکیں اور ہماری سوچ کی صلاحیت بہتر ہو۔ لیکن جہاں معاشرے کی رہنمائی ہمارے مولوی صاحبان نے کرنی ہے اور دوسرے لیڈرانِِ کرام کی ہمت نہ ہو کہ ان کو کچھ کہہ سکیں تو وہاں بہتری کیا آسمانوں سے آئے گی؟
ہم پرانے زمانوں کے جکڑ سے نکل ہی نہیں پا رہے۔ کسی گفتگو کا آغاز ہو تو حوالے معلوم نہیں کس زمانے کے دئیے جاتے ہیں۔ تعلیمی ماحول کب سے ہمارے ڈنڈا بردار اسلام والوں نے درست کر دیا۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں پہ رائج جمعیت جیسی سوچ ہو وہاں درس، تدریس اور تحقیق کا ماحول پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اِس صورتحال کی فیصلہ سازوں کو کیا پروا؟ اُن کے آنکھ کے تارے تو تعلیم انگریزی یا بیرون ملک درس گاہوں میں حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان سٹڈیز اور دیگر ایسے مضامین کا نصاب پڑھیں، اُس سے ایک خاص بند قسم کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔ مغربی دنیا یا چین جیسے کمیونسٹ ملکوں نے جو ترقی کی ہے وہ ویسے ہی تو نہیں آ گئی۔ آج سے پانچ چھ سو سال پہلے یورپی ذہن آزاد ہوئے اور پرانی قدغنیں ٹوٹیں، تب ہی یورپ ترقی کی راہ پہ چل سکا۔ اُس وقت سے لے کر اَب تک علم کی روشنی مغربی تہذیب کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر جاپان اور چین بھی علم کی شمع سے مستفید ہوئے تو اُنہوں نے مغربی تہذیب کی تقلید کر کے یہ فیض پایا۔ ہم کن اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے سکولوں کا نصاب اگر دیکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اِن اندھیروں سے نکلنے کی ہماری کوئی خواہش نہیں۔ اسلامی دنیا دَبی ہوئی دنیا ہے۔ دنیا کے صفحہ اول میں اور ممالک ہیں۔ اسلامی ممالک کہیں پیچھے کھڑے ہیں۔ 
پوری بیسویں صدی میں ایک ہی مسلمان رہنما تھا جو ذہنوں پہ پڑی زنجیروں کو توڑنے کے قابل تھا... کمال اَتا تُرک۔ وہ بھی ترکی میں کامیاب تب ہوا اور فرسودہ روایتوں کا مقابلہ کر سکا جب میدان جنگ میں اُس نے نام کمایا۔ پہلے کامیاب جرنیل بنا اور پھر ہی ایک نئے ترکی کی تشکیل کر سکا۔ کامیاب جرنیل نہ ہوتا تو مذہبی قوتیں اُسے برباد کر دیتیں۔ ہم نئے اُفق دیکھیں گے تو آہستہ آہستہ۔ سفر لمبا ہے اور منزل خاصی دُور۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved