تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     12-09-2018

دل اور دماغ کی غربت

صدیوں سے ہمارے معاشرے خصوصاًاور دیگر ممالک میں عموماً یہ ذہنیت غالب ہے کہ اگر آپ امیر ہیں‘ تو کسی نہ کسی کو آپ کی خدمت کے لیے غریب ہونا پڑے گا‘اگر آپ نے جیتنا ہے ‘تو کسی نہ کسی کو ہارنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں برابری اور رواداری کے تمام تر تعلیمات کے باوجود آج بھی یہی نظریات پائے جاتے ہیں۔علم اور ادب کے ایک ایسے دور میں جب معلومات کی ترسیل عام ہے اور بہت سے ادارے وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ ایک ایسا معاشر ہ‘ جہاں دولت چند ایک ہاتھوں میں جمع ہوکر رہ جاتی ہے‘ وہاں معاشرتی ناانصافی عام ہو جاتی ہے ‘ وہاںغربت آج بھی صرف محفلوں کا ایک مصنوعی موضوع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی براہِ راست غربت سے جڑی ہوتی ہے۔ عام طور پر غربت کو صرف اور صرف اس پیمانے پر ناپا جاتا ہے کہ کتنے لوگ 2ڈالرز روزانہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں ؟ تاہم یہ یک نکاتی اشارہ محدود اور گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ غربت کے کثیرالجہتی حل کے لیے اس کا اصل ادراک ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ برائے ترقی(UNDP) کا متعارف کردہ MPIغربت کو جانچنے کا ایک کثیر الجہتی پروگرام ہے ۔MPIغربت کا اندازہ اُن محرومیوں سے لگاتا ہے‘ جن کا سامنا ایک عام انسان روزمرہ کی زندگی میں کرتا ہے۔ اس میں تعلیم‘صحت اور طرزِ زندگی شامل ہے ۔یہ غربت مٹانے اور غربت اورترقی کو آپس میں جوڑنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے ۔اس کے ذریعے منصوبہ سازوں کو غربت کی اصل جڑ تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
دنیا میں آج بھی غریب کا راج ہے ۔دنیا کے 103ممالک کے تقریباً ڈیڑھ ارب لوگ غریب ہیں۔دنیا کی سب سے زیادہ غریب جنوبی ایشیاء میں ہیں‘ جہاں تقریباً 48 فیصدغرباء رہتے ہیں۔ اس کے بعدصحرائے صحارا کے ممالک جہاں 36 فیصدغرباء رہتے ہیں اور سب سے خوفناک اعداد و شمار یہ ہیں کہ ان غریبوں میں بیشتر کی عمرایک سے سترہ سال کے درمیان ہے۔ ان کی کثیر تعداد غذائی قلت کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان‘افغانستان اور بھارت غریب ترین ممالک شمار ہوتے ہیں۔حقیقت میں پاکستان آج تک صرف اس وجہ سے غربت کے خاتمے کا دیر پا حل نہ تلاش کر سکا‘ کیونکہ حکمرانوں نے آج تک عوام پر سرمایہ کاری کر کے اسے ملک کی ترقی سے جوڑا ہی نہیں ۔دوسری طرف ایک رپورٹ کے مطابق‘ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں زچہ اور بچہ کی موت کی شرح پوری دنیا سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں ہر حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کی ہیں۔نقد رقم کی تقسیم ہی وہ واحد فارمولا ہے ‘جو غربت کے خاتمے کے لیے ہرحکومت کی طرف سے اپنایا گیا ہے ۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ملک میں غریب لوگوںکومعاشی تحفظ فراہم کرنے کے لیے نقد رقم تقسیم کرنے کا ایک نمایاں پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت غرباء کو ماہانہ بنیاد پر مخصوص رقم فراہم کی جا رہی ہے ۔2008ء میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ پاکستان کا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام ہے‘ جس میں 2016ء تک تقریباً 54لاکھ لوگوں میں 90ارب کے قریب ایک خطیررقم بطورِ کیش تقسیم کی گئی ہے۔
اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کا ادارہ برائے بین الاقوامی امداد‘ اس پروگرام کا سب سے بڑا سپانسر ہے‘جس نے 2016ء تک اس پروگرام کا تقریباً 27فیصد حصہ ادا کیا۔ اس پروگرام کے تحت تقریباً 19338روپے کی رقم سالانہ کے حساب سے تقسیم کی گئی ہے۔ یہ وظیفہ صارفین کی قوتِ خرید سے جڑا ہواہے اور ایک سمارٹ کارڈ کے ذریعے اس کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔رقم کی تقسیم عطیات دینے والے اداروں کی طرف سے غربت کے متعلق کئے گئے‘ سروے کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے ۔یہ سروے تمام صوبوں میں تفصیلی بنیادوں پر کئے گئے ہیں۔
اصل بحث یہ ہے کہ وقتی طور پر نقد رقم کی تقسیم ایک قلیل مدتی کا میاب منصوبہ توہو سکتا ہے‘ مگر طویل المیعاد منصوبہ ہر گزنہیں ہے ۔اور یہ غربت سے بھی لوگوں کونہیں نکال سکتا ہے‘ جیسے کہ کہا جاتا ہے؛ اگر آپ کسی کو ایک مچھلی دیں‘ تو آپ اُسے ایک دن کھانا کھلائیں گے ‘اور اس کے برعکس اگر آپ کسی کو ماہی گیری سیکھادیتے ہیں‘تو آپ اس کے لیے ساری عمر کے لیے رزق کا بندوبست کر دیتے ہیں ۔گو بے نظیر انکم سپورٹ فنڈنے بہت سے ایسے منصوبے شروع کئے ہیں‘ جو لوگوں کو ہنرمند بناتے ہیں‘ لیکن کوئی ایسی تحقیق موجود نہیں ہے‘ جو یہ بتا سکے کہ ان منصوبوں کا غربت پر کیا اثر پڑاہے ؟اسی طرح وسیلہ حق پروگرام خواتین کو چھوٹے قرضے فراہم کرکے بااختیار بنا رہا ہے ‘لیکن رقم کی فراہمی کے یہ دونوں پروگرام کسی بھی قسم کی ہنرمندی یا ملازمت سے مشروط نہیں ہیں۔
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ غربت اتنا گمبھیرمسئلہ ہے کہ اسے آپ وقتی ریلیف پروگرام سے ختم نہیں کر سکتے ۔سب سے پہلے شفاف طریقے سے پروگرام کی افادیت کا تعین کیا جائے‘ اس کے ساتھ ساتھ اس کی تقسیم اور غربت میں خاتمے پر اس کے کردار کا جائزہ بھی لیا جائے۔ کوئی دور تھا کہ یہ طریقہ کار MNASکے لیے ووٹ مشین کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔ایک ایسا آڈٹ یہ بتاسکے کہ کتنے لوگ اصل میں غربت سے باہر آئے‘ وہ ضروری ہے ۔اسی طرح مختلف وزارتوں کی ایک کمیٹی‘ جس میں تعلیم ‘صحت‘ہنرمندی کے لوگ شامل ہوں ضروری ہے کہ وہ مستقبل کے اہداف کا یقین کرے۔
تمام شعبہ جات سے ماہرین اکھٹے ہو کر اس بات کا تعین کریں کہ کس جگہ بنیادی تعلیم اور وظیفہ کی ضرورت ہے؟ اسی طرح ایک فوکل پرسن ہوجو تمام وزارتوں یعنی انڈسٹری یا ٹریڈ کامرس وغیرہ کے ساتھ کو آرڈینٹ کر کے تربیت یافتہ لوگوں کے لیے نوکری کا بندوبست کر سکے۔اس طرح ایک فعال ٹریکنگ سسٹم بھی موجود ہو‘ جو پروگرام کی افادیت کا جائزہ لے کر مستقبل کی بہترین پالیسیوں کو نہایت آسانی سے مرتب کر سکے۔
خود انحصاری کسی بھی انسان کے لیے انسانیت اور عزت ِنفس کے تحفظ کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔خودانحصاری ایک سوچ ہے ‘ایک نظریہ ہے ‘ ایک طرزِ زندگی ہے‘ جس کے بغیر غربت دور کرنے کا کوئی بھی لائحہ عمل نا مکمل ہے۔ جو لوگ غربت ختم کرنے کے منصوبے بنانے والے ہیں اور ان کی سوچ صرف پیسہ لینے اور دینے پر ہے‘ تو وہ کبھی بھی غربت کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔یہ ضروری ہے کہ ہر پروگرام اور پالیسی انسان کو ایک مکمل انسان سمجھ کر بنائی جائے ‘ جہاں اس کی نہ صرف جسمانی ضروریات کو سامنے رکھا جائے‘ بلکہ اس کی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے کام بھی کیا جائے۔اس طرح جب آپ ایک انسان کو ہنر مند کردیں گے‘ تو آپ اس کو طاقتور کر دیتے ہیں‘ اور وہ اپنے لئے روزگار تلاش کرنے میں ذہنی طور پرآسانی محسوس کر تاہے ۔
تمام فریقین جس میں حکومت ‘خیراتی اور ترقیاتی ادارے اور این جی اوزوغیرہ شامل ہیں ۔ان کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے لیے ایسے روزگار کا بندوبست کریں کہ وہ عزت اور وقار کی زندگی گزار سکیں!۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved