تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-09-2018

Someone should cry halt

جیسا کہ عرض کیا تھا ، کوئی مہلت دائمی نہیں ہوتی، Someone should cry halt ۔ رک جائو ، خدا کے لیے ابھی رک جائو۔
جب کوئی سوال سلجھ نہ سکے تو کیا کرنا چاہئے ؟ اللہ کی کتاب سے ، رحمۃ اللعامینﷺ اور تاریخ سے پوچھنا چاہئے ۔ قرآنِ کریم کہتا ہے : جب تم الجھ جائو تو اہلِ ذکر کے پاس جائو ۔ جواب دہی کے احساس میں گندھے دیانت دار ، اجلے اکابر۔ 
امام غزالیؒ نے لکھا ہے : فاروقِ اعظم ؓ لحد میں اتارے گئے تو جناب عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: آج علم کے دس میں سے 9 حصے اٹھ گئے ۔ خود عبداللہ بن مسعودؓ وہ تھے ، جنہیں فقیہہِ اسلام کہا گیا۔
ابو لولو فیروز خنجر گھونپ چکا تو آپؓ کو حجرے میں لٹا دیا گیا۔ جنابؓ نے تکیہ ہٹانے کو کہا۔ یہ انکسار کی حد تھی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا : اللہ کے آخری رسولؐ نے آپ کے بارے میں یہ اور یہ کہا تھا : آپ نے امامت کا حق ادا کیا۔ فرمایا: ابنِ مسعود ، کیا اللہ کے ہاں گواہی دو گے ؟ کہا : جی، گواہی دوں گا۔ 
دنیا سے رخصت ہونے کا یقین ہو چکا تو ان سے کہا : ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے پاس جائیے ۔ ان سے کہیے کہ عمر‘ رحمۃ اللعالمینؐ کے جوار میں دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے ۔ دروازے تک پہنچے تو بولے: یہ مت کہنا کہ امیر المومنین نے بھیجا ہے بلکہ یہ کہ خطاب کے فرزند نے استدعا کی ہے ۔ سیدہ ؓ رو پڑیں ۔ فرمایا: اپنے لیے جگہ رکھ چھوڑی تھی لیکن عمر کو کون انکار کر سکتا ہے ۔ علمی ، سیاسی ، عسکری اور انتظامی جینئس مگر عاجزی میں ڈوبے ہوئے۔ 
کُرتے والا واقعہ معروف ہے‘ لیکن ایک دوسرا موقع اس فروزاں شخصیت کو اور بھی زیادہ آشکار کرتا ہے ۔ مسجدِ نبویؐ میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو کہا: مہر کے بارے میں ، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیشہ کے لیے جھگڑا تمام ہو جائے۔ ایک معمر خاتون اٹھی اور اس نے کہا : اللہ ہمیں دیتا ہے اور عمر ہمیں روکتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے چکے ہو تو ان سے واپس مت مانگو ۔ آدھی دنیا پہ حکومت کرنے والا شہسوار خاموش ہو گیا۔ کہا تو پھر یہ کہا : ایک بڑھیا نے عمر کو گمراہ ہونے سے بچا لیا ۔ دبائو نہیں ، ترغیب اور خوف نہیں ، وہ دلیل کے سامنے جھکتے تھے۔
ڈاکٹر عبد الرحمن الباشا نے ''اصحابِ رسولؓ کے درخشاں پہلو‘‘ کے عنوان سے سرکارؐ کے رفقا کی تصویریں سی بنا دی ہیں ۔ ایسی دلگداز تحریریں کہ اچھے شعر کی طرح دل کو چھو لیتی اور داستاں کی طرح یاد رہتی ہیں۔
مشاور ت کے عمل میں فاروقِ اعظمؓکے طریقِ کار کی کچھ تفصیلات بیان کیں ۔ اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً ہر روز مشاورت کی محفل برپا ہوتی۔ کبھی قبائلی سردار، کبھی عسکری دماغ ، کبھی اصحابِ کبارؓ میں سے کوئی ایک۔ ایک بار ارشاد کیا تھا کہ علیؓ نہ ہوتے تو عمر ؓ تباہ ہو جاتا ۔ فیصلہ کن جنگِ نہاوند میں عمر فاروقِ اعظمؓ ذاتی طور پر قیادت کا فیصلہ کر چکے تھے کہ پورے عرب میں تحرک پیدا ہو۔ یہ جنابِ علی ؓ ہی تھے ، جنہوں نے آپ ؓ کو روک دیا... اور وہ مشہور جملہ کہا ''امیر المومنین، جنگ ایک ہنڈولا ہے ، جو کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے ۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اسلام کا کیا ہو گا؟‘‘۔ نہاوند کے سفید محلات کو سیف اللہ کے سامنے سرنگوں ہونا تھا۔ 
ایک سے ایک صاحبِ علم مدینۃ الرسولؐ میں مہکتا تھا۔ وہ لوگ، جو اپنے آپ کو پیچھے چھوڑ آئے تھے ۔ ہر تعصب اور مفاد سے بالا ، جن کی تربیت خود ختم المرسلینؐ نے کی تھی ۔ جو جانتے تھے کہ مشورہ ایک امانت ہے ۔ جو اس راز سے آشنا تھے کہ جب خلق سے واسطہ ہو تو اپنے آپ کو الگ رکھا جائے اور جب اللہ کا معاملہ ہو تو خلقِ خدا کو بھی فراموش کر دیا جائے۔ مباحث کے باوجود فیصلہ نہ ہو چکتا تو اصحابِ بدر ؓ کو زحمت دی جاتی۔ 
عرب دانائی کسی سوال کا جواب تلاش نہ کر سکتی تو فاروقِ اعظمؓ سوال کرتے : شاہانِ عجم ایسے موقع پر کیا کرتے ہیں؟ مالِ غنیمت یا ٹیکس سے ملنے والی آمدن کا ایک بڑا حصہ بچ رہا۔ کوئی محتاج نہ تھا، جس کی داد رسی نہ کر دی گئی ہو۔ کوئی شکم رزق سے اور کوئی تن لباس سے محروم نہ تھا ۔ سوال یہ تھا کہ اب کیا ہو ۔ جنابِ علی کرم اللہ وجہہ تو اب بھی بانٹ دینے کے حق میں تھے لیکن امیر المومنین ؓ نے بچا رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پھر وہی سوال کیا کہ ایسے میں دوسری دنیا کے حکمران کس قرینے پہ عمل کرتے ہیں۔ 
ایران سے آشنا ، کسی عرب نے خزانے کے بارے میں بتایا؛ چنانچہ سادہ سی عمارت تعمیر ہوئی اور ایران سے ماہرین بلوائے گئے ۔ کارِ حکمرانی کی حکمت کو قرآنِ کریم نے ایک جملے میں بیان کر دیا ہے ''و امرھم شوریٰ بینھم‘‘۔ وہ اپنے معاملات مشورے سے انجام دیتے ہیں ۔ مشورہ کس سے کیا جاتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ کسی موضوع کے ماہر اور مخلص سے ۔ ظاہر ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ۔ ظاہر ہے کہ تمام پہلوئوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، باریک ترین نکات پر بحث۔
کرپشن کا سدّ باب بجا، بھاشا پہ پانی کا بند بجا، ایوانِ وزیرِ اعظم کی فالتو گاڑیوں ، ہیلی کاپٹروں اور بھینسوں کی نیلامی بجا۔ اہم عہدوں پر تقرر کا جہاں تک سوال ہے ، وزیرِ اعظم نہ خود عرق ریزی کرتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی ، جن پہ بھروسہ کر لیا گیا ہے ۔ چار الیکشن لڑنے کے باوجود ، ٹکٹوں کی تقسیم کا کوئی Mechanism یعنی طریقِ کار اب تک وضع نہیں کیا جا سکا۔ اعلیٰ عہدوں کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ افسروں کے ایک خاص گروپ نے گھیرا ڈال رکھا ہے بلکہ وزیرِ اعظم نے خود اس کا موقع فراہم کیا۔ وہ شناسا لوگوں میں آسودہ رہتے ہیں اور اپنی آسودگی انہیں عزیز ہے ۔ ٹکٹ اب بھی سوچے سمجھے بغیر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
این اے 124 کے بارے میں شکایات ہیں کہ کوئی سلیقہ اس میں کارفرما نہیں ۔ حمزہ شہباز یہاں ساٹھ ہزار کی اکثریت سے جیتے تھے ۔ قاعدے کی بات یہ ہے کہ نہ صرف امیدوار مضبوط ہو بلکہ حلقے کے موثر لیڈر اور پوری پارٹی اس کی پشت پہ کھڑی ہو جائے ۔ وزیرِ اعظم کو آج اس سلسلے میں ایک ذاتی پیغام بھیجا ہے۔ قرائن یہ کہتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی جیت جائیں گے۔ اس لیے کہ وسطی پنجاب میں نون لیگ کی لہر باقی ہے۔ اس لیے کہ پی ٹی آئی کے لیڈر دھڑے باز اور تنگ نظر ہیں۔ پنجاب کے فلم سنسر بورڈ میں‘ جہاں کئی بد عنوان موجود ہیں، مہم جو سرگرم ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اطلاعات کے لیے مشورہ یہ ہے کہ تعجیل نہ کریں، انصاف کو ملحوظ رکھیں۔ المناک کہ شجاعت اللہ خاں اور فواد اسد اللہ خاں سمیت آئی بی کے بہترین افسروں کو الگ کر دیا گیا ہے ‘ یعنی کان کمزور‘ آنکھیں کمزور۔ جہاندیدہ، نادر و نایاب لوگ ، جن پر ہمیشہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔ 1995ء میں کراچی آپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی، تو یہ افسر حجاز پہنچے ۔ بیت اللہ اور مسجدِ نبویؐ میں گریہ کیا۔ لوٹ آئے تو پھر ڈٹ کر کھڑے ہی رہے۔ 
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں 
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو 
اسلام آباد میں سب خبریں اچھی نہیں۔ کپتان کی مردم نا شناسی ایک مسئلہ ہے ۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مشیر ناقص اور ابن الوقت ۔ نئی حکومت کو کامیاب ہونا چاہئے ۔ اکثریت پُر امید ہے، ایثار پہ آمادہ ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا تھا ، کوئی مہلت دائمی نہیں ہوتی، Someone should cry halt ۔ رک جائو ، خدا کے لیے ابھی رک جائو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved