تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-04-2013

انصاف اور قانون کا دائرہ

بعض شرفاء کا خیال ہے کہ جمشید دستی کے سیاست سے دستبردار ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی جنوبی پنجاب میں جھوٹ ، منافقت اور فریب کاری پر مشتمل سیاست کا ایک باب بند ہوا ؛تاہم ابھی اس چھوٹے لیول کے بے شمار کریکٹر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ملک بھر میں جمشیددستی کی نام نہاد غربت کے باعث کافی سارے مداح بھی پائے جاتے ہیں ۔حیرانی کی بات ہے کہ کئی اخبار نویس اور کالم نگار بھی اس صف میں موجود ہیں مگر مظفر گڑھ سے پرے اور حقائق سے لاعلم اس کی شہرہ آفاق غربت اور عوامی انداز سیاست سے متاثر ہوکر اس کے گن گانے والے اس کے اصل گنوں سے ناواقف تھے ۔مجھے اس سے بے شمار اختلافات کے باوجود اس کے خوش قسمت ہونے پر کوئی شک نہیں۔وہ ملکی سیاست میں واحد کنفرم جعلی ڈگری ہولڈر ممبر قومی اسمبلی تھا جس نے پورے پانچ سال نہایت دھوم دھڑکے ، شان و شوکت ، دھونس دھاندلی اور شرفاکی پگڑیاں اچھالتے ہوئے مدت پوری کی۔سپریم کورٹ نے اپنے دو صفحات پر مشتمل حکمنامے میں دو لوگوں کو فارغ کیا۔ایک بورے والا کا نذیر جٹ اور دوسرا جمشید دستی تھا۔اس حکمنامے میں آدھا صفحہ نذیر جٹ کے بارے میں اور ڈیڑھ صفحہ جمشید دستی کے بارے میں تھا۔نذیر جٹ فارغ ہوکر گھر چلاگیا اور جمشید دستی دوبارہ منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچ گیا۔جمشید دستی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ اس کے خلاف نوابزادگان جیسے آرام طلب ، سست اور کنجوس لوگ مدعی تھے۔جنہوں نے نہ تو کیس کی مناسب پیروی کی اور نہ ہی کوئی اچھا وکیل کیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ وہ برصغیر کی تاریخ کا سب سے مضبوط کیس بھی نہ لڑسکے۔ جمشید دستی کا سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان دراصل آج عدالت سے ملنے والی متوقع سزا (جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں صبح کے دس بجے ہیں اور کیس کا فیصلہ نہیں آیا)سے بچنے کے لیے دھوکے اور فریب کاری سے بھرا حربہ ہے۔جمشید دستی کی پوری سیاسی زندگی ایسے ڈراموں سے پُر ہے ۔وہ محض اپنی مستقل مزاجی ، ڈراموں اور عوامی جذبات سے کھیلنے جیسے حربوں کے طفیل وکیل کے منشی سے ایم این اے کی منزل تک پہنچا۔جمشید دستی کا والد سلطان دستی ایک غریب شخص تھا اور پہلوان تھا جس کا ذریعہ آمدنی مزدوری تھا۔جمشید دستی نے عملی زندگی کا آغاز حافظ احمد بخش پتافی نامی ایڈووکیٹ کے ساتھ بطور منشی شروع کیا۔پھر اسی دوران وہ ٹینکر ایسوسی ایشن کے صدر یوسف شاہوانی سے قریب ہوا اور اس کا سیکرٹری بن گیا۔یہاں اس کے تعلقات آئل مافیا کے ساتھ بننا شروع ہوئے، مظفر گڑھ تیل اور اس کی ترسیل کے لیے ٹینکروں کے کاروبار کا بہت بڑا مرکز ہے۔پی ایس او کا ملک کا سب سے بڑا ڈپو ،ملک کے وسط میں موجود پارکو (جسے مڈکنٹری ریفائنری کہا جاتا ہے) ریفائنری ، فرنس آئل کی سپلائی کے حوالے سے مظفر گڑھ تھرمل سٹیشن ، کوٹ ادو پاور پلانٹ اور اے ای ایس لال پیر پاور جنریشن پلانٹ کے باعث روزانہ کم ازکم ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ٹینکر ضرور یہاں آتے جاتے ہیں اور مظفر گڑھ کے زور آور سیاستدان ، تگڑے پولیس افسر اور لمبے ہاتھوں والے آئل مافیا کے سرپرست بلاواسطہ یا بالواسطہ روزانہ ہزاروں لٹر آئل چوری کرواتے ہیں ، ٹینکروں سے بھتہ لیتے ہیں ، بجلی گھروں کو سپلائی ہونے والے فرنس آئل میں پانی ملاتے ہیں اور ایک دوسرے کے باہمی تعاون سے روزانہ کروڑوں روپے بناکر گھر چلے جاتے ہیں۔جمشید دستی آل پاکستان ٹینکرز ایسوسی ایشن کے صدر کا سیکرٹری بن گیا۔اس نے اپنے اس محسن اور مربی یوسف شاہوانی کے نام پر ایک چیتھڑا ٹائپ ہفت روز ہ ’’ شاہوانی ‘‘ نکال لیا۔اس ہفت روزے کا کام بالکل وہی تھا جو اس کا مالک ایم این اے بننے کے بعد کرتا رہا ہے۔لوگ پیسے دے کر اپنی مرضی کی خبریں لگوایا کرتے تھے ، آرڈر دے کر اخبار کی کاپیاں بک کرواتے تھے اور اپنے مخالفوں کے گھروں میں یہ اخبار پھینکوایا کرتے تھے۔جمشیددستی اس اخبار کا مسودہ مظفر گڑھ سے ملتان پل شوالا لاتا تھا اور اخبار چھپوا کر بغل میں دبا کر واپس مظفر گڑھ لے جاتا تھا اور خود لوگوں کے گھروں میں پھینک کر کہیں نمبر ٹانکتا تھا اور کسی کو بلیک میل کرتا تھا۔ ضلع کونسلوں کے الیکشن میں جمشید دستی یوسف شاہوانی کی دامے ، درمے ،سخنے قسم کی مدد سے ضلع کونسل کا ممبر بن گیا۔وہاں وہ مظفر گڑھ کے ضلع ناظم سردار قیوم خان جتوئی کے قریب ہوگیا۔قیوم جتوئی نے مظفر گڑھ سے اسے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ لے کر دے دی ؛تاہم وہ ٹکٹ ارشاد سیال نے ہتھیالی۔مظفر گڑھ میں پی پی کو مناسب امیدوار نہیں مل رہا تھا ۔قیوم جتوئی نے بے نظیر بھٹو کو کہہ کر اسے قومی اسمبلی کی ٹکٹ لے دی جو نوابزادہ صاحب اپنی کاہلی ، سستی، نااہلی اور نالائقی کے طفیل ہار گئے اور جمشید دستی قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔بعد کا قصہ سب کو معلوم ہے۔اصل معاملہ حلقہ این اے 177 سے شروع ہوا۔جمشید دستی کے حلقہ این اے 178 میں صرف مظفرگڑھ تھرمل سٹیشن آتا تھا اور وہ وہاں فرنس آئل کی سپلائی میں ہونے والے تمام تر فراڈ میں نہ صرف حصہ دار تھا بلکہ قومی اسمبلی کا یہ ’’غریب ترین ‘‘ ممبر ایک اطلاع کے مطابق وہاں فرنس آئل سپلائی کرنے والے کنٹریکٹروں میں شامل تھا اور روزانہ ایک ٹینکر سپلائی کرتا تھا جس کی قیمت مبلغ اٹھارہ لاکھ روپے کے لگ بھگ ہوتی تھی اور باوثوق ذرائع کے مطابق جمشید دستی کے ٹینکر میں خالص پانی ہوا کرتا تھا۔اٹھارہ لاکھ روزانہ کی یہ آمدنی محض ایک ٹینکر کی مرہون منت تھی۔باقی ٹینکروں سے بھتہ کی وصولی ، مظفر گڑھ تھرمل سٹیشن کے اس سارے دھندے میں ملوث ملازموں سے جگا ٹیکس کی وصولی اور دیگر مافیا سرپرستوں سے حصہ داری فالتو کے ذرائع آمدنی تھے۔گھر، کاروبار، بینک بیلنس ، گاڑی اور کسی جائیداد سے تہی دامن جمشید دستی جب حالیہ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے ریٹرننگ آفیسر کے پاس گیا تو اس کی سواری گدھا گاڑی تھی اور کاغذات نامزدگی میں منقولہ و غیر منقولہ جائیداد وغیرہ کا خانہ خالی تھا۔ یہ صرف این اے 178 کا حال تھا۔حنا ربانی کھر سے جمشید دستی کا سارا جھگڑا کسی عوامی مفاد یا علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود پر نہیں تھا ۔پارکو ریفائنری ، کوٹ ادو پاور پلانٹ اور سب سے بڑھ کر پی ایس او آئل ڈپو ، یہ سب کچھ حنا ربانی کھر کے حلقہ این اے 177 میں تھا اور جمشید دستی کی نظر ان ’’ ذرائع آمدنی ‘‘ پر تھی۔ اب صرف مظفر گڑھ تھرمل سٹیشن کا چھوٹاسا تالاب اس کے اندر چھپے ہوئے لالچی مگرمچھ کے لیے چھوٹا پڑچکا تھا۔وہ ان جگہوں سے بھتہ اور اپنا حصہ لے تو رہا تھا مگر اسے کئی مقامات پر حنا ربانی کھر کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا اور وہ کھل کھیلنا چاہتا تھا۔جمشید دستی گزشتہ روز دبئی فرار ہونا چاہتا تھا مگر اس کے ہمدردوں نے سمجھایا کہ وہ توقیر صادق نہیں کہ وہاں مزے کرسکے۔پاکستانی عدالتیں اسے تو اگلے ہی روز منگوالیں گی۔عدالتی فیصلہ کچھ بھی ہو اب جمشید دستی کو پتہ چلے گا کہ ’’ کس بھائو بکتی ہے‘‘ اس کی دھونس دھاندلی اور غنڈہ گردی سے تنگ انتظامیہ انتقامی طور پر کچھ بھی نہ کرے تو بھی محض انصاف ہی اس کی قتل ، اغوا اور دیگر معاملات میں ملوث آدھی فیملی کے لیے کافی ہے۔ سیاست سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے جمشید دستی نے کہا کہ ’’ ہارنے کے ڈر سے کھروں اور نوابزادوں نے سازش رچائی‘‘ کیا ان کی جعلی ڈگری نوابزادوں اور کھروں نے جمع کروائی تھی؟ کیا ان کی فراہم کردہ ’’شہادۃ العالیہ ‘‘ (بی اے) اور شہادۃ العالمیہ (ایم اے ) کی ڈگری کو جاگیرداروں نے جعلی قرار دیا تھا اور کیا عدالت میں یہ بیان جاگیرداروں نے دیا تھا کہ ’’ اس نے حضرت نوح ؑکی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر پڑھی ہے ‘‘۔تین دن قبل مدرسے کے ایک مولوی نے عدالت میں آکر یہ کہا کہ شہادۃ العالمیہ کی یہ ڈگری اصلی ہے اور اسے اس کے مدرسے نے جاری کیا ہے ۔عدالتوں کو چاہیے کہ ایسی ’’ اعلیٰ دینی تعلیم ‘‘ دینے والے مدرسوں کے خلاف بھی ایکشن لے۔جعلی ڈگری حاصل کرنا یقینا جرم ہے مگر ایسی ڈگریاں جاری کرنا جرم عظیم ہے۔انصاف اور قانون کا دائرہ صرف الیکشن کے امیدواروں پر نہیں بلکہ سب پر اور یکساں ہونا چاہیے۔ پسِ تحریر:کالم بھجوایا جاچکا تھا،خبر ملی کہ جمشید دستی کو تین سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved