سٹرس پھل گہرے سبز رنگ کا ہے‘ کچھ دنوں بعد یہ ہلکا سبز‘ پھر پیلاہٹ لیے ہوئے اور پھر اپنے آخری اور انتہائی دلفریب تاریخی رنگ کا روپ دھار لے گا ‘جو کہ نارنگی ہی سے مشتق ہے۔ سبز پتوں میں گھرا یہ پھل دیکھنے میں بھی ایک روح پرور نظارے سے کم نہیں۔ میری کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ کھانے کے لیے یہ بازار سے منگوا لیا جائے اور یہ محض اپنا ساحرانہ نظارہ دینے کے لیے!۔
چند دنوں سے دو عجیب انکشافات ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ممولہ پرندوں میں سے غالباً سب سے سمارٹ مخلوق ہے‘ بیشک دوسرے پرندے بھی کم سمارٹ نہیں‘ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس کا یہ امتیاز ظاہر ہو جائے گا۔ پرندوں میں مرغی غالباً سب سے اَن سمارٹ‘ بلکہ بھدّا پرندہ ہے‘ بلکہ اسے پرندہ کہنا بھی زیادتی ہے۔ بیشک اس کے پر بھی ہیں اور یہ بوقت ضرورت اُڑ کر تھوڑی دور جا بھی سکتی ہے اور اس دوران گرد بھی اڑاتی ہے‘جبکہ اس کے مقابلے میںمرغا کافی سمارٹ ہوتا ہے؛ حالانکہ سمارٹ مرغی کو ہونا چاہئے! دوسرا انکشاف یہ ہے کہ فاختہ جو خود امن کی علامت ہے‘ لڑائی میں یہ بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ ہمارے دو جوڑے قمریوں کے موجود ہیں‘جو فاختہ ہی کا ایک ذرا چھوٹا ورژن ہے‘ کیونکہ فاختائیں تو ناپید ہو چکی ہیں کہ یار لوگوں نے جال سے پکڑ پکڑ کر ہوٹلوں کو سپلائی کر کر کے‘ جو آگے انہیں بٹیر کہہ کر فروخت کرتے ہیں‘ ان کا بیج ہی مار دیا ہے۔ اگلے روز میں واک کر کے بیٹھا ہی تھا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک جوڑا جنگ آزما نظر آیا۔ ایک‘ دوسری پر بار بار جھپٹ رہی تھی اور دوسری اپنا دفاع کرنے میں مصروف تھی۔ جھپٹنے والی ‘یعنی حملہ آور قمری یقینا مادہ ہوگی ‘ ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین ہی مردوں کی پٹائی کرنے میں شہرت رکھتی ہیں۔
شاید پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ کچھ عرصہ پہلے میرا معمول تھا کہ واک اور ہلکی پھلکی ورزش کے بعد اللہ اللہ کرنے کے ''وقفے‘‘ میں مکھّی مار اپنے پاس رکھتا اور دس پندرہ مکھیوں کا میرا روزانہ کا سکور ہوا کرتا تھا‘ فرش پر چیونٹیاں جن کی منتظر ہوتی تھیں کہ اپنے سے کم از کم دس گنا بھاری مکھی کو تین چار چیونٹیاں کھینچ کر لے جاتی تھیں اور تھوڑے ہی عرصے میں فرش صاف ہو جاتا تھا۔ کچھ دنوں بعد میں نے یہ سوچ کر یہ شغل ترک کر رکھا ہے کہ اللہ توبہ بھی کر رہا ہوں اور ساتھ ساتھ اللہ ہی کی مخلوق کا قتلِ عام بھی کر رہا ہوں؛ اگرچہ اس سے چیونٹیوں کو رزق بھی فراہم ہو جاتاتھا ‘ جسے انہیں باقاعدہ ذخیرہ کرنے کا بھی موقعہ ملتا تھا‘ لیکن پھر بھی یہ کام مجھے اچھا نہ لگا کہ یہ آپ کا کیا لیتی ہیں؟ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھک کر رکھیں تو مکھیوں کی دست برد سے با آسانی بچا جا سکتا ہے‘ انہیں جان سے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ البتہ یہ آپ کے چہرے یا ہاتھوں پر بیٹھ کر آپ کو ڈسٹرب ضرور کر سکتی ہیں‘ تو اس کا علاج انہیں ہاتھ سے اڑا دینا ہی کافی ہے۔کچھ لوگ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ ان کا اعتراض شاید صرف ناک پر بیٹھنے سے ہے‘ یہ کان میں گھس رہی ہوں یا آنکھوں کے اردگرد‘ بلکہ اگر منہ کھلا ہو تو اس کے اندر بھی چکر لگاتی پھریں تو ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اس سے مچھر کہیں اچھی چیز ہے ‘جو کان کے قریب آ کر اپنا اعلان کرتا ہے‘ جبکہ مکھی اس تکلف کی روادار نہیں ہوتی۔ بس چپکے سے آ کر آپ کے جسم کے کسی بھی کھلے حصے پر بیٹھ جاتی ہے!۔
منقول ہے کہ کچھ فلسفی حضرات ایک جگہ بیٹھے کسی مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے کہ ایک مکھی نے آ کر ایک صاحب کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مکھی مار منگوایا‘ لیکن مکھی کچھ فاصلے پر جا کر ٹی وی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ وہ اسے مارنے لگے تو وہ اڑ کر ایک شو پیس پر جا بیٹھی۔ فلسفی صاحب وہاں جا کر اسے مارنے لگے تو وہ وہاں سے اڑ کر دور کسی چیز پر جا بیٹھی۔ پروفیسر صاحب اسے مارنے وہاں پہنچے تو اسے دیکھ کر مارنے کی بجائے واپس آ کر بیٹھ گئے۔ ساتھیوں نے پوچھا کہ اسے مارا کیوں نہیں ؟تو وہ بولے: ''یہ وہ مکھّی نہیں تھی!‘‘۔
مزید منقول ہے کہ ایک نوجوان مکھی پر تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے ایک مکھی کے پر توڑے اور اسے ایک کیوب میں ڈال کر اسے کہا کہ اڑ! مکھی نہ اڑی تو اس نے دوسری دفعہ اسے حکم دیا کہ اڑ۔ جب تیسری بار کہنے پر بھی وہ نہ اڑی تو اس نے نتیجہ یہ لکھا کہ جب مکھی کے پر توڑ دیئے جائیں تو وہ قوتِ سماعت سے محروم ہو جاتی ہے!
کچھ حضرات دودھ میں سے مکھی نکالنے کے ماہر شمار ہوتے ہیں اور یہ کام اس پھرتی سے کرتے ہیں ‘جس طرح دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے اور یہ صرف دودھ میں سے مکھی نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں‘ لسّی یا شربت میں گری ہوئی مکھی کو نکالنا ان کے بس سے باہر ہوتا ہے؛ حالانکہ دودھ میں مکھی گر جائے تو اسے نکالنے کی بجائے دودھ ہی کو ضائع کر دینا چاہئے ‘کیونکہ اس کی آلائش اور جراثیم دودھ میں شامل ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ استعمال کے قابل نہیں رہتا۔
دن بھر مکھیاں مارنے اور مکھی پر مکھی مارنے میں فرق ہے۔ دن بھر مکھیاں مارنا باقاعدہ ایک طنز کے طور پر استعمال ہوتا ہے؛ حالانکہ ان حضرات کا کام بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں ہوتا کہ یہ خلق خدا کو ایک نہایت غلیظ ''جانور‘‘ سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور ‘ اگر یہ نہ ہوتے‘ تو مکھیوں سے تنگ آ کر خلق خدا کہیں اور کوچ کر چکی ہوتی۔مکھی پر مکھی مارنا؛ البتہ خاصا وقت طلب کام ہے کہ پہلے مکھی مارو اور اس کے اوپر رکھ کر ایک اور مکھی مارو‘ بلکہ مکھیوں پر مکھیاں مارتے چلے جائو‘ تاہم ہمارے جیسے شاعر یا کام خاصی سہولت سے انجام دے لیتے ہیں‘ کیونکہ انہیں دو مکھیاں نہیں‘ بلکہ مری ہوئی مکھی پر ہی مکھی مارنا ہوتی ہے۔ مکھیوں کو کم کرنے میں ان حضرات کا ایک اپنا کردار ہے۔ شہد کی مکھی کو بھی مارنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ ڈنک مار کر آپ کو پریشان کر سکتی ہے‘ تاہم اس سلسلے میں ہاتھ ذرا ہلکا رکھنا ضروری ہے کہ اگر یہ مکھیاں مار دی جائیں‘ تو شہد کون بنائے گا اور جو سیاستدان عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے کرتے ہیں‘ ان کے لیے بھی خاصی مشکل پیدا ہوگی۔ بصورت دیگر ان کے پاس یہ عذر موجود ہوگا کہ شہد ہی نہیں تھا ‘وہ اس کی نہر کیسے بہاتے۔
آج کا مقطع
بظاہر تو ظفرؔ یہ گھاس میری کچھ نہیں لگتی
مگر یہ اور سارے پیڑ رشتے دار ہیں میرے