تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     13-09-2018

کرتار پور‘امن کا راستہ بن سکتا ہے؟

یہ کوئی 2016ء کے اوائل کی بات ہے۔ میں ضلع نارووال سے شکرگڑھ جانے والی سڑک پر کوٹھے پنڈ گاؤں میں پہنچا تو گردوارہ دربار صاحب ‘کرتار پور مری نظروں کے سامنے تھا۔سرسبز کھیتوں کے بیچوں بیچ واقع گردوارے کی عمارت پر نظر پڑھتے ہی ایک عجیب سی کیفیت خود پر طاری ہوتی محسوس ہوئی۔ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والی عمارت دیکھ کرخود پر طاری ہونے والی کیفیت کی کوئی منطق پیش کرنے سے میں آج بھی قاصر ہوں۔عمارت کے قریب پہنچتے ہی ایک تختی پر نظر پڑی ‘ جس پر لکھا تھا: واہے گروجی کا معجزہ۔غالب گمان ہے کہ 1965ء کی جنگ میں یہاں پر ایک بم گرا تھا‘ لیکن پھٹ نہیں سکا تھا۔یہ تختی اسی معجزے کی طرف اشارہ کررہی تھی۔گردوارے میں داخل ہونے پر مجھے سر پر پہننے کے لیے ٹوپی دی گئی‘ جس کے بعد یہاں واقع تالاب سے ہاتھ منہ اور پاؤں دھوئے‘ جس کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی۔گردوارے کے اندر سکھ حضرات کی قابل ذکر تعداد موجود ہونے کے باوجود پوری عمارت پر عقیدت بھری خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔کسی نے میری شناخت نہیں پوچھی تھی۔ بتایا گیا کہ یہاں کسی کے آنے پر پابندی نہیں ہے‘ سکھوں اور ہندوں کی طرح مسلمان بھی یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں۔بالکل ویسے ہی جیسے بھارت میں خواجہ نظام الدین اولیا ؒکی درگاہ پر ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔
سرسبز کھیت‘ ہلکی سی چلنے والی ٹھنڈی ہوا اور عقیدت کے عناصر نے مل کر گویا دنیا سے مافیہا سے بے خبر کردیا تھا۔رہ رہ کر صرف ایک ہی خیال آرہا تھا کہ میرا تو سکھ مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ تو پھر ایسی کیفیت کیوں طاری ہوئی جارہی ہے؟ بس‘یہی سمجھ میں آیا کہ شاید یہ 1469ء میں پیدا ہونے اور پھر سکھ مذہب کی بنیاد رکھنے والے بابا گرونانک جی کی شخصیت کا کرشمہ ہے ۔ہندو والدین کی اولاد ہونے کے باوجود اُن کی عقیدت ہمیشہ ہی مسلمان صوفیا سے رہی۔ ان صوفیائے کرام میںپیر عبدالرحمن‘میاں مٹھا‘ پیرجلال اور حضرت بابا فرید ثانی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ سب سے قریبی ساتھی مردانہ بھی مسلمان ہی تھا۔ باپ نے تجارت کا گرسکھانے کے لیے کچھ روپے دئیے تو اِن پیسوں سے کھانا خرید کر غریبوں میں بانٹ دیا۔ گھر واپسی پر والد نے پیسوں کی بابت پوچھا تو جواب دیا کہ میں ان کا اُس کے ساتھ سودا کرآیا ہوں‘ جو مجھے اس کا کئی گنا زیادہ دے گا۔روایت ہے کہ1499ء کے کسی دن نہانے کے لیے دریا پر گئے‘ چھلانگ لگائی اور تین دنوں بعد باہر نکلے‘کچھ روز خاموش رہے اور جب زبان کھولی تو مخلوق کو یہی پیغام دیا کہ اک اونکار‘ ست نام‘کرتا پرکھ‘ نر بھاؤ‘ نر وی‘ خدائے واحدہی سچ ہے‘ وہ خالق ہے‘ اُسے کسی کا ڈر نہیں‘ اُس کی کسی سے دشمنی نہیں۔اپنی آخری عمر میں وہ کرتار پور چلے آئے اور اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال یہیں گزارے۔یہی وجہ ہے کہ یہ جگہ سکھوں کے لیے انتہائی متبرک ہے ‘تو مسلمان کی بڑی تعداد بھی ان سے عقیدت رکھتی ہے۔
کرتار پور میں واقع یہی گردوارہ دربار صاحب ہے جس کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور بارڈر کھولنے کی باتیں ہورہی ہیں۔تقسیم ہند سے پہلے یہ علاقہ ضلع گرداسپور کا حصہ تھا۔اسے تین جون کے پلان کے تحت پاکستان کو دیا جانا تھا‘ لیکن بعد میں پاکستان کو اس ضلع کے بڑے حصے سے محروم کردیا گیا تھا‘ لیکن کرتارپور کا علاقہ پاکستان کے پاس آگیا۔سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ انتہائی متبرک مقام ہے۔جن سکھوں کو پاکستان کا ویزہ مل جاتا ہے اور وہ پاکستان آنے کی استطاعت رکھتے ہیں‘ وہ تو یہاں آجاتے ہیںلیکن وسائل نہ رکھنے والے سرحد پار سے ہی اِس کو دیکھ لیتے ہیں۔ سرحد کے اُس پار بھارتی حکومت نے ایک اونچی جگہ پر درشن استھل بنایا ہوا ہے۔اِسی کرتار پور کے دوسری جانب ڈیرہ بابا نانک واقع ہے ۔ان دونوں کے درمیان تقسیم نے لکیر کھینچ دی ۔سکھ مذہب کے بڑے ‘ 1998ء سے گوردوارہ دربار صاحب اور ڈیرہ بابا نانک کے درمیان پیدل راستہ کھولنے پر زور دے رہے ہیں‘لیکن بیل ابھی تک منڈھے نہیں چڑھ سکی۔اب جو پاکستان کی طرف سے یہ راستہ کھولنے کی کھلے دل سے بات کی گئی ہے‘ اُس کے باعث گیند بھارت کی کورٹ میں چلا گئی ہے لیکن ‘بھارت اس پر آسانی سے رضامند نہیں ہوگا۔بھارتی میڈیا کے مطابق ‘اِس حوالے سے بھارتی پارلیمنٹ میں داخلہ اُمور کی کمیٹی کے سربراہ پرتاب سنگھ نے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کو ایک تجویز دی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی پنجاب کی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک قرارداد منظور کرکے اسے مرکزی حکومت کو بھیجا جائے ‘تاکہ مودی حکومت پر دباؤڈالا جائے۔
ہوسکتا ہے کہ ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نکل آئے‘ لیکن اس حوالے سے بھارتی حکومت کی طرف سے جلد کسی قدم کی توقع رکھنا شاید مناسب نہیں ہوگا۔بھارتی حکومت کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ پاکستان دشمنی میں وہ اپنے ہی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا کبھی بھی مناسب طریقے سے تحفظ نہیں کرسکا۔اس کی ایک بڑی بنیادی وجہ بھی رہی ہے کہ بھارت میں مودی حکومت نے سیاست میں مذہبی انتہاپسندی کے جو تجربات کیے ہیں‘ ان تجربات کے اُسے بہت ہی فروٹ فل نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ خودموجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات میں خوفناک مسلم کش فسادات سے وزارت عظمیٰ کی طرف اپنا سفر شروع کیا تھا۔2002ء میں بھارتی گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو کون بھول سکتا ہے۔جس وقت یہ فسادات پھوٹے تھے ‘ اُس وقت نریندرمودی ہی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ان فسادات کے دوران مسلمانوں کی املاک کو جلا کر راکھ کردیا اور کم از کم ایک ہزار کے قریب مسلمانوں کو شہید کردیا گیا‘پھر 2012ء میں آسام میں خوفناک فسادات ہوئے۔اس سے پہلے 1984ء میں آپریشن بلیوسٹار کے دوران امرتسر میں سکھوں کے متبرک ترین مقام‘ گولڈن ٹیمپل پر خوفناک فوج کشی کی گئی ۔اس کے ری ایکشن میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے دوسکھ محافظوں نے اندراگاندھی کو قتل کردیا ‘جس کے نتیجے میں سکھ کش فسادات بھڑک اُٹھے۔صرف دہلی میں تین ہزار کے قریب سکھوں کو قتل کردیا گیا۔اِن تمام فسادات کی شدت اتنی زیادہ رہی کہ جب جب یہ فسادات بھڑکے‘ ان کے اثرات کئی کئی سال تک محسوس کیے جاتے رہے۔اقلیتیں شدید خوف کا شکار رہیں اور نریندرمودی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد فسادات بھڑکنے کا دھڑکا ہرلمحہ ہی لگا رہتا ہے۔اجتماعی فسادات سے ہٹ کر انفرادی سطح پر بھی مسلمانوں کے خلاف انتہاپسند ہندوں کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔عالم تو یہ بھی رہا کہ سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ کے پاکستان آنے پر بھارت میں طوفان کھڑا کردیا گیا۔
سو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو ملک اپنی اقلیتوں کی جانوں کی حفاظت نہیں کرسکتا ‘ وہ اِن کے مذہبی جذبات کا کیا خیال رکھے گا۔ماضی میں متعدد مواقع پر ایسا ہوچکا ہے کہ سکھوں کو پاکستان آنے سے روکا گیا۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے ایسے پاکستانی زائرین کو بھی روکا گیا جو وہاں مختلف مزارات پر حاضری دینے کی خواہش رکھتے تھےؔ‘ پھر بھی اِن سب کے باوجود عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ہی واضح طور پر اعلان کیا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو پاکستان دوقدم آگے بڑھے گا۔اب پاکستان کی طرف سے کرتار پور بارڈر کھولنے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے تو بھارت کو اِس موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہیے؛اگرچہ یہ بارڈر سکھ یاتریوں کے لیے ہی کھلے گا ‘لیکن اس کے فوائد بہرحال وسیع پیمانے پر حاصل ہوں گے اور کرتار پور امن کا راستہ بن سکتا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved