وزیراعظم عمران خان‘ پاکستان کی ڈوبتی نائو کو پارلگانے کے لئے پر عزم دکھائی دے رہے ہیں۔خاص طور پر معیشت کی دگرگوں صورت حال پر‘ انہوں نے کمر کس لی ہے۔خان صاحب نے معیشت کی ناگفتہ بہ حالت کے پیش نظر‘ وزیر خزانہ اسد عمر کو پہلے ہی یہ ذمہ دار سونپ دی تھی کہ وہ بہتری کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات کریں‘ تاکہ عام آدمی کی زندگی کو کچھ ریلیف مل سکے‘ لیکن قرضوں کے بوجھ معیشت کا بھرکس نکالے ہوئے ہیں۔ ''وزیراعظم عمران خان رواں ماہ سعودی عرب کے مجوزہ دورے پر جائیں گے اور معاشی بحران کے پیش نظر‘ 4ارب ڈالر کے آسان قرضے پر مذاکرات کریں گے‘‘۔ پاکستان نرم شرائط پر قرضے کے حصول کے لئے چین سے بھی رابطے کرے گا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مزید قرض نہ لینا پڑے۔پاکستان ‘عالمی مالیاتی ادارے کاقریباً 6 ارب ڈالر کا مقروض ہے‘ جس کے باعث مزید ادھار لینے کے لیے‘ سخت ترین شرائط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔تباہ حال معیشت کی بنیاد پر ہمیں‘آئی ایم ایف سے صرف 2.85 ارب ڈالر قرض قدرے کم سخت شرائط پر ملنے کا امکان ہے۔ اقتصادی استحکام کے لیے 2018ء اور 2019ء کے لیے 12.5 ارب ڈالرکا سرمایہ درکار ہوگا‘ جبکہ پہلے ہی پاکستان متعدد غیر ملکی قرضوں میں دھنسا ہوا ہے۔صورتحال کو مزید حقیقت پسندانہ طریقے سے واضح کرنے کے لیے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کی عدم مخالفت کی صورت میں بھی آئی ایم ایف سے مالی معاونت کے لیے کئی کڑی ضمانتیں دینا ہوں گی۔ آئی ایم ایف نے نئی قانونی اصلاحات کر کے‘ پہلے سے مقروض ممالک کے لیے مزید مالی قرضوں کا حصول تقریباً ناممکن بنادیا گیا ہے۔اگر وزیراعظم عمران خان کڑی ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کے لیے تیار بھی ہوجائیں تو مزید 6.5 ارب ڈالر کے لیے دیگر ذرائع سے رجوع کرنا ہی ہوگا۔ اکتوبر میں قرضوں کی فراہمی کے باعث ‘ روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکا جاسکتا ہے۔ فی الوقت ایک امریکی ڈالر کی قدر قریباً 123 روپے تک جاپہنچی ہے۔ موجودہ تشویشناک اقتصادی صورتحال کا تقاضا ہے کہ تیل کی ضروریات اور دیگر درآمدات میں 15 فیصد تک فی الفور کمی کی جائے اور برآمدات میں اضافہ کے لیے اصلاحات اور اقدامات بھی کیے جائیں۔
آصف زرداری اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں‘ بجلی کی پیداوار میں کمی برآمدات کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوئی‘ جس کے نتیجے میں درآمدات اور برآمدات کا توازن بگڑ گیا۔ غیر ملکی پاکستانیوں کی ترسیل زر میں بھی تقریباً 10 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یوں عمران خان کی حکومت کے لیے نہ صرف مزید قرضوں کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے‘ بلکہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات‘ناگزیر ضرورت بن چکی ہیں۔چاہے‘ عالمی مالیاتی ادارہ قرض نہ بھی فراہم کرے۔ پاکستان گزشتہ دہائیوں میں پرانے قرضے چکانے کے لیے مزید ادھار حاصل کرتا رہا ہے‘ جس کا نتیجہ قرضوں کا موجودہ حالیہ بوجھ ہے‘ جو نیم ساکن معیشت کا سبب بنا ہے۔ عمران خان کو نہ صرف زر کا حصول سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہے‘ بلکہ ملک کی معیشت کو رواں کرنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ بیرونی قرضوں کی بروقت عدم ادائیگی عالمی مالیاتی نظام سے پاکستان کو خارج کرسکتی ہے۔ یوں بین الاقوامی اقتصادی نظام میں فعال رہنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک دونوں کی تجویز کردہ اصلاحات پر عمل ناگزیر ہے‘ ورنہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن نہ ہوگی اور بزنس مین ‘ تباہ حال معیشت میں پیسے لگانے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔
اگرچین سے دو ارب ڈالر اور سعودی عرب سے چار ارب ڈالر قرضہ مل جاتا ہے‘ توہم فوری طور پر نادہندہ ہونے سے بچ سکتے ہیں‘ جبکہ ایک ارب ڈالر کا نرم شرائط پر اسلامی ترقیاتی بینک سے قرض دشواریوں میں کمی کا باعث ہوگا۔ میاںنوازشریف کی سابق حکومت نے بھی چین سے آسان شرائط پر قرض حاصل کیا تھا ‘جبکہ سعودی عرب نے بھی ایک ارب ڈالر کی گرانٹ دی تھی۔ دونوں ہمسایہ اور دوست ممالک سے قرض بنا طویل اور تفصیلی مذاکرات کے حاصل کرنا‘ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے‘ جبکہ ایران نہ صرف امریکہ کی پابندیوں کا شکار ہے‘ بلکہ FATF کی بلیک لسٹ میں بھی موجود ہے۔ وہ خود گوناگوں مسائل اور قدغنوں کا شکار ہے‘ ایسے میںایران کی طرف سے ایسی مالی امداد کی پیشکش کی توقع رکھنا‘ وقت کے ضیاع ہو سکتا ہے۔ترکی اپنے اندرونی اور علاقائی مسائل خصوصاً شامی مہاجرین کی موجودگی کے باعث قرض کی فراہمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔یوں سعودی عرب کے دورے کے دوران پاکستانی وفد‘ جہاں طویل المدتی آسان قرض پر مذاکرات کرے گا‘ وہاں دنیا کے امیر اسلامی ملک سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ پر بھی بھرپور بحث ہونی چاہیے۔ سعودی عرب میں تین لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے‘ جو تقریباً 8 ارب ڈالر سالانہ پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ ''وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کے لیے سعودی عرب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے کوٹے میں اضافے کی کامیاب کوشش غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل کو مزید تقویت دینے کا باعث ہوگی۔ سعودی عرب‘ چین اور اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضوں کا حصول‘ معاشی اور اقتصادی سا لمیت کے لیے ناگزیر ہے۔امید یہی ہے کہ سعودی عرب اور چین ‘ہمارا ساتھ دے گا اور حق دوستی ادا کرے گا‘‘۔