تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-09-2018

بت پرستی

رہنمائوں پہ نہیں ، زندہ قومیں اپنے آپ پہ انحصار کرتی ہیں۔ شخصیت پرستی بھی ایک طرح کی بت پرستی ہے ۔ صدیوں سے معاشرہ دلدل میں پڑا ہے ۔ سیاسی نہیں ، یہ علمی اور اخلاقی بحران ہے اور کسی لیڈر کے بس کا نہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے 
چاروں طرف بے چینی ہے ۔ کچھ یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان معجزہ کر دکھائے۔ بہار کا موسم طلوع ہو ۔ ہماری زندگیوں میں صدیوں سے جو کلفت گھلی آتی ہے ، دھل جائے ۔ مدینہ منورہ جیسی اگر نہیں تو پولیس کم از کم مغربی ممالک ایسی ہو جائے ۔ دستک دیں تو عدالت کا قاضی برق رفتاری سے داد رسی کر دے۔ سب نوجوانوں کو روزگار نصیب ہو ۔ رعب جمانے والے امریکہ کو ہم دھتا بتائیں ۔ گھور کر بھارت کو دیکھیں تو نریندر مودی کی سٹّی گم ہو جائے ۔ 
اس کے سوا بھی کچھ امیدیں اور آرزوئیں ہیں ۔ نوکری ، آڑھت ، وکالت یا کاروبار سے جتنی بھی آمدن ہو ، ٹیکس کا ایک دھیلا ادا نہ کرنا پڑے ۔ دودھ کا ایک ایک قطرہ خالص ہو ۔ سبزی، اجناس اور گوشت کی قیمتیں کم ہو جائیں ۔ ہمارے تعلیمی ادارے ایسے زر خیز ہو جائیں کہ ساری دنیا رشک کرے ۔ بسیں ، گاڑیاں اور جہاز وقت پہ روانہ ہوں ۔ سرکاری دفاتر میں بابو بھاگ بھاگ کر کام کریں ۔ قوم کا ہر فرد معزز ہو، شہزادوں کی سی زندگی بسر کرے۔ 
ایک دوسرا گروہ ہے، برہم اور مشتعل ۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان پرلے درجے کا فریب کار ہے اور اس کی سرپرستی کرنے والے شعبدہ باز۔ ہمیشہ جو شہریوں کی گردن پہ سوار رہے ۔ اوّل تو اختیار دیتے ہی نہیں ورنہ برتنے نہیں دیتے ۔ حکومت کا حق شریف خاندان کا ہے۔ ہماری تقدیر ان کے سپرد ہونی چاہئے ۔ چاہیں تو عنان اپنے بھائی شہباز شریف کو سونپ دیں ۔ تمنا یہ ہے کہ اللہ انہیں عمرِ خضرؑ عطا فرمائے ۔ انہونی اگر ہو جائے تو ان کے بعد سپتری محترمہ مریم نواز تخت پہ براجمان ہوں۔
جلیل القدر انبیاؑ آئے۔ دنیا نے خیرہ کن اولیا ؒ کو دیکھا ۔ تاریخ ساز لیڈروں نے جنم لیا ۔ انقلابات برپا ہوئے شاید ہی کبھی کسی شاعر نے انسان کے المیے کو اس طرح بیان کیا ہو گا، جس طرح Paradise Lost، فردوسِ گم گشتہ کے خالق، اس نابینا شاعر ملٹن نے ۔ وہ جنت جو کھو دی گئی ۔ آدمی کو جس سے محروم کر دیا گیا مگر اس کی خواہش کسی طرح مرتی نہیں۔ آدمی کے باطن میں بلکتی رہتی ہے۔
کس دھڑلّے کا بادشاہ تھا۔ ہاتھ میں فاتح کی تلوار ، سر میں فلسفیوں کی سی حکمت ۔ ساری دھرتی کو منگولوں نے روند ڈالا تھا مگر وسطی ایشیا عبور کرنے کے بعد خراسان سے انہیں ایران اور پھر سرزمینِ شام کا رخ کرنا پڑا ۔ ایک کروڑ گردنیں انہوں نے تلوار سے کاٹ دیں یا بدن نیزوں سے چھلنی کر دیے ۔ خلجی خاندان سے مگر ایک بالشت بھی لے نہ سکے۔
تاریخِ فرشتہ کے مصنف نے لکھا ہے کہ دلّی کا ایک موٹا سا کوتوال تھا ۔ بہت دانا ، بہت دھیما اور بہت قابلِ اعتماد۔ ایک دن علائوالدین خلجی کے محل میں داخل ہوا تو وزیر نے کہا : بادشاہ تخت پہ سر جھکائے بیٹھے ہیں ۔ بارگاہ میں دو تین بار گیا مگر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ کوتوال کو بادشاہ بہت عزیز رکھتے تھے ۔ بہت بھروسہ اس پہ تھا ۔ ان کی شفقت سے شہ پا کر تھوڑی سی جسارت کبھی کر گزرتے ۔ حاضرِ خدمت ہوئے اور کسی طرح فاتح کو متوجہ کر لیا۔ سر جھکایا اور سوال کیا: کیا کسی غم نے آ لیا ہے یا کوئی بری خبر آئی ہے ؟ خلجی نے سر اٹھایا اور کہا : خلقِ خدا کی مصیبت پہ پریشان ہوں۔ 
زمانہ وہ تھا کہ بڑے شہروں کے سوا سکّوں کا لین دین خال خال تھا۔ ہزاروں میل کی وسعتوں میں پھیلے ہزارہا دیہات میں خریداری کا انداز دوسرا تھا ۔ اونٹوں ، گدھوں اور گھوڑوں پہ سوار بنجارے ضرورت کی اشیا لے کر جاتے ۔ پڑائو کرتے اور اجناس ، گندم، چاول ، کپاس ، مکئی یا چاول کے بدلے اشیا فروخت کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجناس مہنگی ہوتی جاتیں۔ کبھی کبھی تو بہت زیادہ۔ 
کہا : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سے گندم اور چاول حکومت خود خریدے گی ۔ اگلی فصل تک نرخ یکساں رہے گا ۔ آنے والے دنوں میں ہندوستاں نے ایک انقلابِ عظیم دیکھا ۔ صدیوں بعد اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں، چیزیں بہت سستی ہوئیں تو کہا جاتا : خلجی کا دور گویا واپس آ گیا۔ 
یہی علائوالدین خلجی تھا ، ایک شام بادہ نوشی کی محفل میں جب اس نے کوتوال کو طلب کیا اور یہ کہا : ارادہ کیا ہے کہ دو میں سے ایک کام ضرور کروں گا ۔ ایک نیا مذہب ایجاد کروں گا یا ساری دنیا فتح کروں گا ۔ درباری نے خلوت کی درخواست کی اور عرض گزار ہوا : جہاں پناہ، جہاں تک مذہب کا تعلق ہے ، وہ ایجاد نہیں کیے جاتے ۔ پیغمبروں ؑ پہ وحی اترتی ہے ۔ یہ انہی برگزیدہ ہستیوں کا منصب ہے ۔ رہی تسخیرِ عالم کی آرزو تو یہ یونان نہیں۔ ہزاروں میل تک سکندر فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا آیا اور پھر اس یقین کے ساتھ ملتان سے مقدونیہ کا رخ کیا کہ رعایا ویسی ہی وفادار ہو گی ۔ ہندوستان میں لوگ اور طرح کے ہیں ۔ جوں ہی سرحدوں سے آپ باہر نکلیں گے ، سازشی بروئے کار آئیں گے ۔ عین ممکن ہے کہ سلطنت شریروں کے ہاتھ آ جائے ۔ 
یہ کوئی سعید ساعت تھی کہ بات بادشاہ کی سمجھ میں آ گئی ۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ اکبرِ اعظم نے یہی کیا۔ دینِ الٰہی اس نے ایجاد کیا۔ خود گمراہ ہوا اور ہزاروں لاکھوں کو گمراہ کیا ۔ بادشاہوں میں کسی وقت بھی فتور پیدا ہو سکتا ہے۔ 
یہ آج کا کالم سوشل میڈیا کے نسبتاً کم معروف لکھاری رشید یوسفزئی کے نام ہے ۔ خشونت سنگھ کا حوالہ دے کر اس نے لکھا : بہت سے مشہور آدمیوں سے ملاقات رہی ۔ بڑا کیا، میں نے انہیں آدمی ہی نہ پایا بلکہ غیر انسان ، آدمیت سے یکسر محروم ، دوغلے، جھوٹے اور دغا باز ۔ یہی بات ''ناقابلِ فراموش‘‘ کے مصنف دیوان سنگھ مفتون نے کہی تھی : اکثر لیڈر وعدہ شکن، جھوٹے اور عیّار ہوتے ہیں ، اپنی غرض کے بندے ۔ یوسفزئی کا کہنا یہ ہے: میں ایک ملّا زادہ ، پھر کالج میں انگریزی کا طالبِ علم، فیکٹری کا مزدور ، رفتہ رفتہ اچھے عہدوں پہ پہنچا ۔ نام نہاد قائدین اور رہنمائوں سے ملا۔ ان میں سے بعض اتنے بھی امانت دار نہ تھے کہ خاکروب یا بہشتی بنائے جاتے ۔ کارِ سرکار کے دوران ایک شہزادے سے پوچھا: آپ میں کیا خوبی ہے ؟ وہ سٹپٹایا ۔ انگریز یا عرب شہزادوں میں پیدائشی طور پر کیا ہنر پایا جاتا ہے ؟ بلاول بھٹو، پیر صاحب پگاڑا، بے نظیر ، حمزہ شہباز اور اسفند یار ولی کی ذہنی استعداد کیا ہے ؟ بعض کو قریب سے دیکھا ، اکثر سے ذاتی مراسم رہے۔ کوئی خوبی نظر نہ آئی ۔ تکبر ہے اور خود پسندی ۔ اس کے باوجود وہ ہمارے ہیرو ہیں ۔ احساسِ برتری ، Megalomania کے شکار۔ شخصیات نہیں ، افکار پہ سوچنا چاہئے ۔ تصورات اور نظریات پر ۔ 
بہت کڑوی بات ہے مگر اتنی ہی سچی اور کھری بھی ۔ کبھی کبھی استثنا کے طور پر عظیم رہنما بھی پیدا ہوتے ہیں مگر کم کم، خال خال۔ کل شام عارف کی بارگاہ میں حاضری دی تو انہوں نے سوال کیا : اخلاقی اعتبار سے ابرہام لنکن کے سوا امریکی تاریخ میں کیا کوئی اور نمونۂ عمل بھی ہے ؟ 
رہنمائوں پہ نہیں ، زندہ قومیں اپنے آپ پہ انحصار کرتی ہیں۔ شخصیت پرستی بھی ایک طرح کی بت پرستی ہے ۔ صدیوں سے معاشرہ دلدل میں پڑا ہے ۔ سیاسی نہیں ، یہ علمی اور اخلاقی بحران ہے اور کسی لیڈر کے بس کا نہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved