دن بھر کی بدن توڑ مشقت کے بعد عین آدھی رات کے وقت میں گھر پہنچا۔ آپریٹر سے کہا: آج کی کالیں ملا دو۔ پہلی کال لاہور کے ایک وکیل صاحب کو لوٹائی‘ جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں ووٹ مانگ رہے تھے۔ کہنے لگے: آپ نے مجھے پہچانا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا پھر بولے: آپ جیسے وکیل ہم لوگوں کو کیسے پہچانیں گے۔ میں نے وضع داری نبھانے کے لیے دو جملے بولنا چاہے مگر ناکام رہا۔ دوسری طرف سے ارشاد ہوا: ایک ہفتے سے آپ موبائل فون نہیں اٹینڈ کر رہے؟ خیر تو ہے نمبر بدل لیا ہے؟ میں نے پھر عرضِ مدعا کی ناکام کوشش کی۔ بولے: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا امیدوار ہوں۔ پھر جھٹ پٹ اپنا نام بتایا‘ ووٹ پر اپنا سیریل نمبر بھی۔ ساتھ کہا: آپ کے حلقۂ احباب کو مجھے ''اونرشپ‘‘ دینی چاہیے‘ یہ میرا حق ہے‘ آپ پرانی دوستی کی لاج رکھیں۔ کہنے لگے: دن رات پورے پاکستان میں دوڑ رہا ہوں‘ ووٹر بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ موصوف نے مجھے لاجواب چھوڑ کر فون بند کر دیا اور لائن کٹ گئی۔
دوسرا فون گولڑہ شریف گائوں سے ایک دور کے عزیز کا تھا۔ ایسا عزیز جسے خود نہیں پتا ہو گا کہ میری اس سے کیا عزیز داری ہے۔ میرے ہیلو کہنے سے پہلے ہی بول اُٹھے: ملک صاحب پنسل پکڑو‘ میرے پُتّر دا نام لکھو‘ 35 سال میں میرا ایک پُتّر بھرتی نہیں ہو سکا‘ تبدیلی کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد باقی نمبروں پر جو کال بھی ملائی وہ آغاز سے اختتام تک شکایت نامہ ثابت ہوا۔ مجھے پہلے تو اپنی اس خطاء کا احساس ہوا کہ میں نے فون کرنے والوں کی کالز کا جواب کیوں دیا۔ پھر خیال آیا آج کل ویسے ہی ہر آدمی ناراض ہے اور اس ناراضگی کی معقول وجہ بلکہ وجوہات اور دلیل نہیں دلائل بھی پائے جاتے ہیں۔ 1970/80 کے عشرے میں ایسے شکایتی ''اینگری ینگ مین‘‘ کہلاتے تھے۔ ان دنوں شکایت کرنے کے لیے ینگ مین کی قید باقی نہیں رہی‘ بلکہ شکایت کے لیے صنفی امتیاز (Gender Discrimination) کا نظریہ بھی باقی نہیں بچا۔
میں نے یہ آپ بیتی اپنی صاحبزادی ڈاکٹر حفصہ بابر سے شیئر کی۔ پہلے تو ہم دونوں نے مل کر خوب قہقہے لگائے۔ پھر ڈاکٹر صاحبہ سنجیدہ ہو گئیں۔ کہنے لگیں: میں نے ایک تجربہ کیا ہے... کچھ ہفتے پہلے۔ بابا آپ بھی وہی تجربہ دہرائیں۔ تجربہ یہ تھا: ایک ہفتے کے لیے طے کر لیا جائے کہ میں کسی سے کوئی شکایت نہیں کروں گا۔ گھر والے ہوں۔ ساتھ کام کرنے والا سٹاف یا کوئی اور۔ مجھے بظاہر یہ بہت آسان سی بات لگی۔ بس صرف ایک ہفتہ شکایت نہ کرنا بھی بھلا کوئی کام ہے؛ چنانچہ میں نے سوتے وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ کل طلوعِ صبح سے شب بسری تک کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائوں گا۔ صبح سویرے اٹھ کر گھر کی سی سی ٹی وی مانیٹرنگ کا بٹن دبایا۔ کیمرے آن ہوئے باہر گیٹ کا نگہبان لان میں چادر اوڑھے سویا نظر آیا۔ انٹر کام پر گھنٹی بجی۔ وہ دوڑ کر پہنچا اور میں نے اپنے دن کی بسم اللہ شکایت سے کر دی۔ کہا: دن کو بھی سوتے ہو اور رات ڈیوٹی میں بھی سوئے رہتے ہو۔ دو جملے کہنے کے بعد مجھے اپنے آپ سے کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا۔ بہرحال اس وقت تک شکایت پہ چُپ رہنے کا روزہ ٹوٹ چُکا تھا۔ اگلے دن پھر شکایت تج دینے کی نیت کر کے سو گیا۔ بڑی احتیاط سے زباں بندی یا سیلف سینسرشپ کر کے ناشتے تک پہنچا۔ ٹرالی کمرے میں پہنچائی گئی۔ حسبِ معمول ابلے ہوئے انڈے دیکھ کر خیال آیا: آج تو مجھے آملیٹ ملنا چاہیے تھا۔ جھٹ سے کہہ دیا: روز اُبلا انڈا کون کھا سکتا ہے‘ کبھی آملیٹ بھی بننا چاہیے۔ اس طرح دوسرا دن بھی شکایت سے ہی شروع ہوا۔ تیسرے دن صبح F-8 سے سپریم کورٹ کے لیے نکلنے تک حرفِ شکایت والا روزہ برقرار رہا۔ نیول چوک میں دونوں طرف سے موٹر سائیکل سوار ایسے گاڑی کے سامنے آئے کہ بڑی مشکل سے بچت ہو سکی۔ بے اختیار زبان پر آیا کہ ان موٹر سائیکل سواروں کو اللہ ہی پوچھے۔ اسی بحر پر دو تین ملامتی جملے اور کہنے کے بعد یاد آیا کہ آج کا دن میں نے شکایت فری گزارنا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کیفے ٹیریا بھی عجائباتِ وکالت میں سے ایک ہے۔ فاضل جج صاحبان پورے 11 بجے چائے کا وقفہ کرتے ہیں۔ 11:30 بجے تک عدالت دوبارہ لگ جاتی ہے۔ عدالت سے بار روم پہنچنے تک تقریباً 5 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ فائلیں سنبھالنے، علیک سلیک وغیرہ میں۔ کل بھی ایسا ہی ہوا۔ احباب کے ساتھ چائے کا آرڈر دیا اور انتظار کرنے لگے۔ سماعت کے دوران عدالتی وقفہ ختم ہونے میں محض نوے سیکنڈ باقی بچے تھے کہ مہمانوں سے شرمندہ ہو کر چائے کے بغیر واپس کورٹ روم جانا پڑا۔ ہوتا یہ ہے کہ بار کے ممبران کو ایک روپیہ پیالی سستی چائے ملتی ہے۔ جبکہ دور دراز کے آئے ہوئے سائلین کو کیفے ٹیریا کے ٹھیکیدار صاحب بل میں جتنا مرضی ہو ٹیکہ لگا دیں۔ جس ملک میں پرائس کنٹرول کا کوئی نظام نہیں وہاں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی کینٹین والوں سے شکایت کیسی۔ ان کے لیے بھی رجال العدل سے زیادہ رجالِ مال ضروری ہوتے ہیں۔ ہفتۂ شکایت منانا اب ہمارا قومی کھیل بن گیا ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، بار کونسل، سرکاری دفاتر ہر جگہ شکایات سیل پائے جاتے ہیں۔ تھانوں کا تو ذکر ہی کیا۔ وہاں شکایت کر کے واپس نکلنے والا پھر کبھی شکایت نہیں کرتا‘ بلکہ وہی کرتا ہے جو عبیر ابو ذری نے کیا تھا:
پُلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی
جو لوگ عملی سیاست کرنے میں ملوث پائے جاتے ہیں شکایت کے بارے میں ان کا تجربہ کچھ یوں ہے۔ فرض کریں آج کا وکالت نامہ پڑھنے والے سارے خواتین و حضرات اپنے آپ کو سیاست میں ملوث سمجھ لیں۔ (یہاں ملوث کا لفظ جان بوجھ کر استعمال ہوا ہے) اگر کوئی حاجت مند یا کوئی عادی شکایتی آپ کو کوئی کام کہے اور پھر آپ کو کبھی ملنے واپس نہ آئے تو سمجھ لیں اس کا کام ہو گیا تھا۔ اگر چند دن بعد فریادی آپ پر پھر حملہ آور ہو جائے تو جان لیں‘ اس کی توقع یا غرض پوری نہیں ہو سکی۔ تازہ وزارت کے آخری دن کا تجربہ مگر سب سے سوا تھا۔ میں جتنے دن پاک سیکرٹریٹ گیا‘ ''R‘‘ بلاک کے دروازے پر بیٹھے ہوئے سائلوں کے جمگھٹے سے روزانہ بات کی۔ ایک دن وزارتِ داخلہ کے کسی افسر کے پاس ایک سال سے رسائی کا منتظر بلوچی نوجوان انتظار گاہ میں بیٹھا ہوا ملا۔ میں نے استقبالیہ اہلکاروں سے پوچھا۔ کہنے لگے: صاحب نے ملاقاتی اوپر بھیجنے سے منع کرا رکھا ہے۔ اپنے PS کو کہا: جائیں انہیں صاحب سے ملوا کر آئیں۔ نوجوان واپس گھر جاتے ہوئے مٹھی بھر بادام اور رقعہ چھوڑ گیا۔ چند لفظوں کا ایسا رقعہ جس نے میرا دل چُھو لیا۔
دوسرا تجربہ بی بی سی کے ایک گورے صحافی سے استقبالیہ انتظار گاہ میں ملاقات تھی جس کا ویزہ ایکسپائر ہو چکا تھا۔ اس کے پاکستانی ہمراہی نے شکایت سے بات شروع کی اور اسی پر گفتگو کا ''ایکسٹرو‘‘ دیا۔ کالے انگریز نے سوچا‘ شاید گورا اس کی پرفارمنس پر فدا ہو جائے گا۔ میں نے گورے سے ہاتھ ملایا اور پوچھا میرے لائق کوئی خدمت۔ اس نے شائستگی سے جواب دیا:
Thank you excellency, I can wait
کرسٹینا لیمب کی کتاب "Waiting for Allah" میں سہالہ پھاٹک کراسنگ کے بارے میں لکھا ہوا واقعہ یاد آگیا‘ جہاں سائیکل سوار نے بند پھاٹک سے گزر کر تیز رفتار ٹرین کو کراس کیا اور پھاٹک کی دوسری جانب پہنچ کر بندر کا تماشا دیکھنے لگا۔
نے کوئی ظلِ الٰہی، نے کوئی عزت مآب
نے کوئی عالم پناہ ہے، نے کوئی والا جناب
صورتِ حالات نازک، عصرِ حاضر نامراد
انقلابِ گردشِ گردونِ گرداں زندہ باد