حکمران طبقات کی سنجیدہ دانش کے مقبول ترین جریدے اور عالمی سرمایہ داری کے بے باک ترجمان ''دی اکانومسٹ‘‘ نے پچھلے چند ہفتے سے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد کے اہم معیشت دانوں اور سماجی مفکروں کے نظریات پر تجزیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان میں جان سٹورٹ مل، الیکسس دی تکویل، جان مینارڈ کینز، شکمپیٹر، پوپر، ہائیک، روسو اور نطشے جیسے بڑے ناموں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس ہفتے اس سلسلے کی آخری قسط میں کارل مارکس کو خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ مارکس کے تناظر سے ہی اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر سرمایہ داری کے پالیسی سازوں کو تنبیہ کی گئی کہ وہ اجارہ دارانہ منافع خوری میں احتیاط سے کام لیں‘ ورنہ مارکس کی پیش بینی درست ثابت ہو جائے گی۔ روسو اور نطشے (Neitzche) مروجہ اقدار کے باغی فلسفی سمجھے جاتے ہیں‘ لیکن ہر باغی انقلابی نہیں ہوتا۔ جبکہ ہر انقلابی باغی ضرور ہوتا ہے۔ روسو، نطشے اور مارکس کے بارے میں اکانومسٹ لکھتا ہے، ''یہ تمام فلسفی ترقی کے لبرل نقطہ نظر کو مسترد کرتے تھے۔‘‘ لیکن مارکس صرف مروجہ اقدار کا باغی اور انقلابی ہی نہیں تھا بلکہ اس نے سماجی ارتقا کے کردار اور سرمائے کے استحصال کی وضاحت کے ساتھ ساتھ جدلیاتی مادیت کا فلسفہ بھی پیش کیا تھا۔ مارکسزم کے نظریات ایسی سائنسی سچائی پر مبنی ہیں کہ صدیاں گزرنے کے بعد آج کے جدید دور میں بھی اپنے تجزئیے و تناظر کے اعتبار سے بالعموم درست ثابت ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت، آزاد منڈی کی معیشت اور انفرادیت وغیرہ پر مبنی لبرلزم کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے اکانومسٹ لکھتا ہے ''لبرل اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چیزیں اور حالات بہتری کی جانب بڑھتے ہیں۔ دولت میں اضافہ ہوتا ہے، سائنس سمجھ بوجھ کو مزید گہرا کرتی ہے، دانش پھیلتی ہے اور سماج سنورتا ہے۔ لیکن لبرل ضرورت سے زیادہ رجائیت پسند نہیں ہوتے۔ انہوں نے نشاۃ ثانیہ کی روشن خیالی سے ابھرنے والے فرانسیسی انقلاب اور اسے کھا جانے والی خونیں دہشت کو بھی دیکھا ہے۔ ترقی کو ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔‘‘
جہاں تک سرمایہ داری کے تحت ہونے والی ترقی کا تعلق ہے تو کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے 'کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میں سرمایہ دارانہ نظام کے صنعتی انقلاب، ایجادوں اور دریافتوں کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں ایسے معجزات سے تشبیہ دی جو انسان نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ یوں وہ اس نظام کے تمام تر جبر و استحصال کے باوجود اس کی تکنیکی ترقی کے نہ صرف معترف تھے بلکہ اس کا خیر مقدم بھی کرتے تھے۔ انہوں نے واضح کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی ان حاصلات کے نتیجے میں پیداواری قوتوں کی ترقی کے بغیر سوشلزم کی تعمیر ممکن ہی نہیں۔ لیکن انہوں نے بکھرے ہوئے واقعات کے مجموعے، چند بڑے افراد کے کارنامے یا کسی اخلاقی معاملے کے طور پر تاریخ کے تصور کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس کے ارتقا کی مادی بنیادوں کی تشریح کی اور سماجی سائنس کو ٹھوس بنیادیں فراہم کیں۔ جدلیاتی مادیت کا فلسفہ مارکسزم کا کلیدی ستون ہے‘ جو مظاہر کو اُن کے ارتقا میں دیکھنا سکھاتا ہے اور ان کے پیچھے کارفرما عوامل کی وضاحت کرتا ہے۔ مارکس نے اپنے فلسفے کے ذریعے تمام اشیا کے مسلسل ارتقا، تغیر اور تبدیلی کی سوچ پیش کی۔ اس نے واضح کیا کہ انسانی سوچ حالات کا تعین نہیں کرتی بلکہ حالات و واقعات ہی انسانی شعور کا تعین کرتے ہیں۔ روسو نے تو ارتقا پر ہی شک کا اظہار کر دیا تھا لیکن مارکس نے وضاحت کی ایک نہج پر پہنچ کر ارتقا کے آگے بڑھنے کے لئے بڑی تبدیلیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سماجوں کا جمود طبقاتی جدوجہد اور انقلابات سے ٹوٹتا ہے اور نئے نظام قائم ہوتے ہیں۔ یوں ارتقا ایک سیدھی لکیر میں مسلسل جاری نہیں رہتا بلکہ ایک وقت پر مروجہ نظام کے تحت ذرائع پیداوار کی ترقی رک جانے سے سماجی بد حالی، زوال اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ترین نظام بھی ایک مخصوص مرحلے پر ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے لگتے ہیں۔ ایسے میں وہ معاشرے کو مزید ترقی دینے کی بجائے اس کی پستی کا باعث بننے لگتے ہیں۔ اور یہ محض تکنیکی یا معاشی معاملہ نہیں ہوتا بلکہ سماجی رشتے، اخلاقیات، اقدار، سیاست، ریاست، فن، ادب سمیت ہر ادارہ اور شعبہ بحران کا شکار ہونے لگتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں معاشرہ ایک جمود کا شکار ہو کر گلنے سڑنے لگتا ہے۔ یہ کیفیت آج اِس خطے سمیت دنیا بھر میں مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ ان حالات میں انقلابات ہی پرانے نظام کو اکھاڑ کر سماج کو نکھار دے سکتے ہیں اور آگے لے جا سکتے ہیں۔ اسی نظریاتی بنیاد پر مارکس نے سوشلزم کی ضرورت اجاگر کی تھی۔ لیکن مارکس نے اپنی تحریروں میں اس بات پر بھی زور دیا کہ انقلاب کا یہ فریضہ کوئی دیومالائی ہیرو یا نجات دہندے نہیں بلکہ استحصال زدہ طبقات کو خود ادا کرنا پڑتا ہے۔
اکانومسٹ لبرلزم کے خیالات پر زور دیتے ہوئے لکھتا ہے ''لبرل یہ سمجھتے ہیں کہ افراد کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہیں اور رحم دلی و خدا ترسی سے بہتر دنیا بنائی جا سکتی ہے‘‘ اور پھر اس کا جواب کم و بیش درست طور پر مارکس کی جانب سے بھی پیش کرتا ہے کہ ''یہ نقطہ نظر اپنی بہترین شکل میں ایک مغالطہ ہے اور بد ترین شکل میں محنت کشوں کو ٹھنڈا اور بے عمل کرنے کی خبیث واردات ہے۔‘‘ مارکس نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بہتری کی جانب سے ''بتدریج‘‘ تبدیلی کی بات بھی ایک جال اور پھندا ہے جس میں محنت کشوں کو جکڑا جاتا ہے۔
مارکس نے اپنی زندگی میں بہت سے انقلابات کو ابھرتے اور خون میں ڈوبتے دیکھا تھا۔ ان واقعات سے اُس نے بہت گہرے نتائج اخذ کیے جو آج تک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ اس نے بالخصوص 1871ء کے پیرس کمیون کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے حکمران طبقے کی چالوں اور محنت کشوں کی قیادت کی نظریاتی کمزوریوں اور غلطیوں کی نشاندہی کی۔ فریڈرک اینگلز نے شاید مارکس کے مشورے پر ہی 'برطانیہ کی لبرل اشرفیہ‘ پر ایک پوری کتاب لکھ ڈالی تھی۔ یوں مارکس اصلاح پسندی اور مصالحت پرستی جیسی ان چالوں سے کسی طور بے خبر نہیں تھا جن کے ذریعے سرمایہ داری کے پالیسی ساز انقلابات کو ٹالتے یا زائل کرواتے ہیں۔ ایسے میں اکانومسٹ کا یہ دعویٰ سراسر بچگانہ اور بے بنیاد ہے کہ ''مارکس نے سرمایہ داری کے قائم رہنے کی طاقت کا اندازہ غلط لگایا تھا۔‘‘ لیکن سرمایہ داری کے اِن گھاگ ترین دانشوروں کی ایسی باتیں پڑھ کے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں جبر و استحصال، لوٹ مار اور جنگوں کا بازار گرم کرنے والے سامراجی اجارہ داریوں کے منیجر اور مالکان ''رحم دلی‘‘ اور ''خدا ترسی‘‘ کا مظاہرہ کر کے معاشرے کو بہتر بنائیں گے۔ اسے خود فریبی کہا جائے یا دانستہ مکاری؟ یہ سرمایہ دار جہاں کروڑوں اربوں انسانوں کو لوٹتے ہیں وہاں چند سکے خیرات کے دکھا کر مخیر اور پرہیز گار بھی بن جاتے ہیں۔ اس دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ حکمران طبقات کس قدر ظالم، جابر اور درندہ صفت ہو سکتے ہیں۔ ظالم کی حقیقت کو ظلم سہنے والے سے بہتر بھلا کون جان سکتا ہے۔
لیکن مذکورہ مضمون میں سب سے دلچسپ وہ تنبیہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے ناخدائوں کو کی گئی ہے: ''... لیکن اس سب کے باوجود مارکس آج بھی لبرل خوش فہمی کے لئے ایک انتباہ ہے۔ آج نفرت اور بغاوت‘ بحث اور دلائل کی جگہ لے رہی ہے۔ کارپوریٹ مفادات سیاست پر قبضہ جما رہے ہیں اور عدم مساوات پیدا کر رہے ہیں۔ اگر یہ قوتیں ترقی کے لبرل حالات کا راستہ روکتی رہیں تو دبائو پھر سے بڑھنے لگے گا۔‘‘
اکانومسٹ جیسے جرائد میں مارکس پر ایسے تنقیدی مضامین، جو حالیہ عرصے میں تواتر سے شائع ہو رہے ہیں، اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ مارکس کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی مارکسزم کے دشمن اس کے نظریات کو رد کرنے کی سعیٔ ناکام کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے اندر کا خوف بخوبی واقف ہے کہ استحصال کے نظام کو سب سے بڑا خطرہ آج بھی انقلابی مارکسزم سے ہے۔