تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     14-09-2018

علم کے دل میں خنجر کیونکر؟

پاکستان کا دل لاہور ہے‘ میں علمی اعتبار سے دیکھوں تو پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ''پنجاب یونیورسٹی‘‘ لاہور میں ہے۔ پھر ہمیں کہنا چاہئے کہ علمی اعتبار سے پاکستان کا دل پنجاب یونیورسٹی ہے۔ قرآن بتاتا ہے ''اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے لئے اس کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘ (احزاب:4)
جی ہاں! انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہو سکتے‘ مگر ایک شہر میں دو دل ہو سکتے ہیں۔ لاہور میں اب ایک دوسرا دل بننے جا رہا ہے‘ یہ دل ''آئی ٹی یونیورسٹی‘‘ ہے۔ اس کی خوبصورت ترین بلڈنگ ماڈل ٹائون میں ہے۔ چاروں طرف شیشے کی بنی ہوئی یہ عمارت 17منزلوں پر مشتمل ہے۔ میں اس کے گیارہویں فلور پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر عمر سیف کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ برکی روڈ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے رقبے سے کچھ زیادہ رقبے پر آئی ٹی یونیورسٹی کا جدید کیمپس بننے جا رہا ہے۔ وہاں آئی ٹی کے کوئی بیس شعبے ہوں گے۔ ماڈل ٹائون والی مذکورہ اور موجودہ بلڈنگ ان بیس میں سے ایک شعبہ ہو گی۔ میرے ذہن نے سوچنا شروع کر دیا‘ اس کا مطلب یہ بنے گا کہ جس طرح پنجاب یونیورسٹی مال روڈ اب اولڈ کیمپس بن کے رہ گیا اور نہر کے کنارے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس بن گیا‘ اسی طرح آئی ٹی یونیورسٹی مستقبل قریب میں ماڈل ٹائون اولڈ کیمپس ہو گا‘ جبکہ برکی روڈ والا کیمپس جو بی آر بی نہر کے دامن میں ہے‘ نیو کیمپس ہے۔ جس طرح بی آر بی نہر بڑی نہر ہے اسی طرح آئی ٹی یونیورسٹی بھی بڑی یونیورسٹی ہو گی۔ یہ ہے علم کا وہ دوسرا دل‘ جو لاہور میں بننے جا رہا ہے۔ میں اس وقت چونکا اور پریشان ہو گیا ‘جب ڈاکٹر عمر سیف صاحب نے مجھے بتایا‘ حمزہ صاحب! ایک گولی آئی اور گیارہویں فلور پر شیشے کو توڑتے ہوئے میری کرسی کے قریب گری۔ میں نے کہا :اللہ تعالیٰ نے علم کا جو دل ہے‘ اس کے دل کو بچا لیا‘ الحمدللہ!
ڈاکٹر عمر سیف صاحب وائس چانسلر ہیں‘ وہ اس یونیورسٹی کا دل ہیں۔ وہ اس یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر ہیں۔ آئی ٹی ریسرچ کے میدان میں یہ پاکستان کی پہلی یونیورسٹی ہے‘ ڈاکٹر صاحب نے کیمبرج یونیورسٹی سے آئی ٹی میں پی ایچ ڈی کی ہے‘ تو ہارورڈ یونیورسٹی سے انہوں نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہے۔ سات سال انہوں نے لمز یونیورسٹی لاہور میں پڑھایا ہے۔ ان کی خدمات‘ ذہانت‘ تحقیق اور تخلیقی صلاحیت کا عالمی سطح پر اس طرح اعتراف کیا گیا کہ ''ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو‘‘ کی جانب سے انہیں عالمی سطح پر ان 35لوگوں میں نمبرون پر رکھا گیا‘جو دنیا کو تبدیل کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ان کے نام کا شہرہ دیکھ کر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ان کو ملاقات کے لئے بلایا اور یوں ڈاکٹر صاحب آئی ٹی یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر بن گئے۔ ایسی شخصیت جو آئی ٹی کے میدان میں سراپا علم ہے‘ اس علم کو گولی مارنے کی کوشش علم دشمنی کی انتہا ہے۔ آئی ٹی یونیورسٹی میں اس وقت ایک ہزار طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ساری یونیورسٹی ایئرکنڈیشنڈ ہے۔ ریسپشن سے لیکر اوپر تک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ایک ترقی یافتہ ملک کے کسی علمی ادارے میں آ گیا ہوں۔ جی ہاں! ڈاکٹر صاحب ہم سب کا دل ہیں‘ ہم سب کو ڈاکٹر صاحب کے لئے دعا بھی کرنا ہے اور حفاظت بھی کرنا ہے۔ عمران خان صاحب ہمارے ایسے وزیراعظم ہیں‘ جو نمل یونیورسٹی کے بانی ہیں‘ وہ ہمارے علمی دلوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ ہمارے نئے صدر جناب عارف علوی صاحب خود عالمی سطح پر مانے ہوئے علمی دل ہیں۔ وہ اب پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں۔ وہ مذکورہ یونیورسٹی کو مزید چار چاند لگائیں گے۔ (انشاء اللہ)
اسی مذکورہ بلڈنگ میں ''پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ‘‘ کا ادارہ بھی قائم ہے۔ ڈاکٹر عمر سیف صاحب اس ادارے کے بھی چیئرمین ہیں۔ یہ ادارہ پورے پنجاب کو ڈیجیٹل بنانا چاہتا ہے اور اپنی خدمات باقی صوبوں کو بھی پیش کر رہا ہے۔ خوبصورت اتفاق یہ ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہے‘ جو ملک کے ہر شعبے میں انصاف کی علمبردار ہے۔ انصاف کا نمایاں شعبہ ہمارا عدالتی نظام ہے۔ ہماری سپریم کورٹ‘ ہائی کورٹس اور دیگر چھوٹے عدالتی ادارے ہیں۔ ہماری عدلیہ کے نظام میں ایسے سینکڑوں اور ہزاروں مقدمات درج ہو گئے‘ جو فوت شدگان کے نام پر ہیں۔ جائیداد پر قابض لوگوں نے یہ دعویٰ کر کے قبضہ کر رکھا ہے کہ اس نے یہ جائیداد مجھے بیچ دی تھی۔ ڈاکٹر عمر سیف صاحب کا جو ڈیجیٹل نظام ہے ‘اس کے تحت ایسا نہیں ہو سکتا۔ فوت شدہ شخص کا ریکارڈ نادرا کے ساتھ لنک ہو کر بتائے گا کہ مذکورہ شخص تو اتنے سال پہلے فوت ہو چکا‘ جبکہ آئی ٹی کے خودکار نظام کے تحت کیس پچھلی تاریخ میں جا نہ سکے گا‘ یوں انصاف کا بول بولا ہو گا۔ اسی طرح کسی جائیداد پر حکم امتناعی (Stay) لے لیں‘ جوڈیشل برانچ میں رشوت دیں‘ پانچ‘ دس اور بیس سال تک عدالت میں کیس نہ لگنے دیں۔ حقدار روتا روتا مر جائے گا یا بدحال ہو کر بیٹھ جائے گا‘ مگر اب ایسا نہیں ہو گا کہ ڈیجیٹل نظام کے تحت کیس خود بخود لگے گا۔ جوڈیشل برانچ کا کردار ختم ہو کر رہ جائے گا۔ یوں مظلوم کو عدل ملے گا۔
بے انصافی کے اور بھی بہت سارے طریقے ہیں۔ ریڈر یا کسی اور کے ہاتھوں فائل گم کروا دیں۔ ثبوت کا جو اہم صفحہ ہو وہ فائل میں سے غائب کروا دیں۔ کیس کی نوعیت ہی بدل جائے گی ‘مگر ڈاکٹر عمر سیف کا آئی ٹی کا خودکار کمپیوٹرائزڈ نظام اب ایسا نہیں ہونے دے گا۔ کیس کا ریکارڈ کمپیوٹر میں سکین ہو گا ‘پھر وہ آگے بڑھے گا‘ یوں ریکارڈ غائب یا چوری نہیں ہو گا۔ عدل کا بول بالا ہو گا۔ اس وقت پنجاب کی ہائیکورٹ میں 3لاکھ اور ضلعی عدالتوں میں 15لاکھ مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ ان کا کوئی حل نہیں ہے۔ سالہا سال لوگ تاریخ نکلنے کے انتظار میں ہی مر جاتے ہیں۔ رشوتیں دے کر تاریخ حاصل کی جاتی ہے۔ رشوت دے کر مرضی کے جج لگوا لئے جاتے ہیں۔ اب کوئی کام مرضی سے نہیں ہو گا۔ کمپیوٹرائزڈ ہو گا‘ یوں عدل کا بول بالا ہو گا۔ ڈاکٹر عمر سیف صاحب بتلا رہے تھے‘ 2لاکھ کیس سسٹم میں داخل ہو چکے ہیں۔ 70ہزار مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ جی ہاں! قانون تو یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں روپے کے مقدمے میں سٹے دیا بھی جائے اور سماعت کی تاریخ نہ ڈالی جائے‘ یہ غیرقانونی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر سماعت ڈالنا ہو گی۔ اب کیس فراڈ کا ہے‘ مکان پر قبضے کا ہے‘ سماعت تو ہفتے کے اندر کرنا ہو گی۔ اب سسٹم میں یہ سب کچھ یقینی ہو گیا ہے۔ یاد رہے! آئی ٹی بورڈ کا سسٹم عدلیہ میں لانچ کرتے ہوئے انکشاف بھی ہوا کہ ایک جج کے پاس پانچ ہزار کیس ہیں ‘وہ دبا کر بیٹھا ہے‘ دوسرے ججوں کے پاس کیس کم ہیں ‘تو ان کو نہیں دیئے جاتے۔ اب جدید آئی ٹی سسٹم کے تحت ایسا نہیں ہو گا۔ سب ججوں کے پاس برابر کمپیوٹرائزڈ نظام سے کیس جائیں گے۔ عدل کا بول بالا ہو گا۔ یاد رہے! کئی ایسے وکیل ہیں‘ جو وکیل نہیں ہیں‘ کالے کپڑے پہن کر وکیل بنے ہوئے ہیں۔ اب ضروری ہے کہ شناختی کارڈ کی کاپی ہمراہ لگا کر جج کے سامنے مذکورہ کیس میں پیش ہوں گے۔ اس سے دو کام ہو ںگے‘ جعلی وکیل پیش نہیں ہو سکے گا۔ اصلی وکیل کو ٹیکس نیٹ ورک میں آنا ہو گا۔ یوں بنچ اور بار کے بعض لوگ جو مذکورہ سسٹم کی مخالفت کر رہے ہیں‘ محض مفادات کے اسیر ہیں۔ عمر سیف صاحب کہنے لگے: ایک وکیل میرے والد صاحب کو کہنے لگا: اپنے بیٹے کو کہو‘ آئی ٹی کا نظام عدلیہ میں لانے سے باز رہے۔
ایک پٹواری میرے سسر کو کہنے لگا:ڈاکٹر عمر سیف نے ہمارا بیڑا غرق کر دیا ہے‘ اللہ اسے موت دے۔ میرے سسر نے کہا: وہ تو میرا داماد ہے۔ حمزہ صاحب! پٹواری اس لئے ہمارے دشمن بن گئے کہ اب اشٹام بھی کمپیوٹرائزڈ ہے‘ جعلی نہیں بن سکتا۔ جب ہم نے زمینوں اور فرد وغیرہ کو کمپیوٹرائزڈ کیا تو پتا چلا کہ پٹواری کے پیچھے جاگیردار اور ایم پی اے‘ ایم این اے اور وزیر کھڑے ہیں‘ تو حیران رہ گئے۔ اب ہم نے سات سال میں 5کروڑ ستر لاکھ آدمیوں کی دیہی زمین کو سسٹم میں کر دیا ہے۔ 151سنٹر بنا دیئے ہیں‘ وہاں فرد مل جاتی ہے۔ پٹواری کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ آئندہ ہمارا پروگرام یہ ہے کہ سنٹر بھی ختم ہو جائیں۔ ہر شخص اپنے کمپیوٹر پر گھر بیٹھا مکان اور زرعی زمین کی فرد نکال لے گا۔ ہم تھانوں کو کمپیوٹرائزڈ کر رہے ہیں۔ ایف آئی آر کا سسٹم عدل میں آ رہا ہے۔ ہسپتال بھی کمپیوٹرائزڈ کر رہے ہیں۔ وہاں دوائیں غائب نہ ہو سکیں گی۔ کرپشن ختم ہو جائے گی۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو ہم نے بریف کیا‘ تو وہ خوش ہوئیں اور جو ہماری مخالفت کر رہے تھے ‘ان کو منہ کی کھانا پڑی۔ میں نے اٹھتے ہوئے ڈاکٹر عمر سیف کو سلام کیا کہ ریٹائرڈ کرنل کا بیٹا اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے۔ اللہ کرے مافیا کے خلاف تلوار بن کر یہ یونہی ڈٹا رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکمرانی اس کی پشتیبانی کرتی رہے ‘تو پی ٹی آئی کے ایجنڈے کی تکمیل میں ڈاکٹر عمر سیف کا کردار یادگار بنے گا (انشاء اللہ)۔
صرف پنجاب نہیں پورا پاکستان عدل و انصاف کے نور سے جگمگا اٹھے گا۔ میں یہی کہہ کر رخصت چاہوں گا‘ پاک فوج کے سپوت کے ہونہار اور دلیر بیٹے ''تینوں رب دیاں رکھاں‘‘۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved