تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     15-09-2018

افغان مسئلے پہ پاکستان کو عقل آ ہی گئی!

بالآخر اور بہت تلخ تجربات کے بعد پاکستان کی سوچ افغان مسئلے کے بارے میں حقائق سے ہم آہنگ ہو گئی ہے۔ جو رویہ ہم نے اَب امریکہ سے اپنایا ہے بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ امریکی استدلال ہم خندہ پیشانی سے ایک کان سے سُنتے ہیں اور بغیر ماتھے پہ تیور لائے دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ یہی ٹھیک راستہ ہے۔ امریکی تلملاتے ہیں اور پاکستان پہ الزام لگائے جاتے ہیں کہ طالبان کے چند گروہوں کو ہماری طرف سے معاونت حاصل ہے۔ ہماری عسکری کمان سب کچھ سُنتی ہے، سر ہلاتی ہے اور تمام امریکی تاویلات کو درگزر کر دیتی ہے۔
امریکی غصے میں دانت پیستے ہیں۔ ہمیں گھور کے دیکھتے ہیں لیکن اُنہیں اپنی بے بسی کا بھی احساس ہے۔ کیونکہ جتنا ہمارا بازو مروڑنا تھا ہم نے برداشت کر لیا۔ اَب نہ ڈرانے کا سامان رہ گیا ہے نہ امداد بند کرنے کی دھمکی۔ امریکہ نے ہم پہ مہربانی کی ہے کہ بیشتر امداد بند کر چکے ہیں۔ اَب کچھ اور بند کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ ایک زمانہ تھا جب سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا پینٹاگون کا کوئی بیان آتا تو یہاں طوفان مچ جاتا۔ اب واشنگٹن میں مائیک پومپیو یا کوئی اور کچھ کہیں ہم زیادہ نوٹس نہیں لیتے۔ امریکی گیدڑ بھبکیوں کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ 
لیکن امریکہ کا مسئلہ بدستور قائم ہے۔ وہ افغانستان میں پھنسا ہوا ہے‘ اور وہاں جو جنگ جاری ہے امریکی تاریخ میں سب سے لمبی ہے۔ 17واں سال ہو رہا ہے اور امریکہ کو افغان مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ کبھی ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں، کبھی طالبان پہ ہوائی فائرنگ کرتے ہیں کہ اُنہیں امن کارروائی کا حصہ بننا چاہیے۔ لیکن کوئی تدبیر کام نہیں آ رہی۔ نہ امریکن دھمکیوں کی وجہ سے ہمیں بخار چڑھ رہا ہے نہ طالبان مذاکرات کی میز کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ امریکی مخمصہ یہ ہے کہ جب تک کوئی سیاسی حل افغان مسئلے کا نہ نکلے اُن کیلئے مشکل ہے کہ اپنی فوجیں وہاں سے واپس بلا لیں۔ ناک اور عزت کی بات ہے۔ خاطر خواہ سیاسی لیپا پوتی کے بغیر دنیا کا طاقتور ترین ملک افغانستان سے کیسے نکل سکتا ہے؟ عزت بچانے کی خاطر اُسے سیاسی حل درکار ہے۔ بنیادی مسئلہ ہے ہی یہی کہ کوئی حل ہاتھ نہیں آ رہا۔ لہٰذا امریکی پاکستان کی طرف آوازیں کستے ہیں۔ لیکن امریکی رویہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ جو جنگ سترہ سال میں وہ نہیں جیت سکے ہم اُنہیں کیسے جتوا سکتے ہیں؟ جغرافیہ اور تاریخ کی وجہ سے ہمارے روابط طالبان قیادت سے ہوں گے‘ لیکن پاکستان کے پاس ایسی جادو کی چھڑی نہیں کہ طالبان کو اُٹھا کے مذاکرات کی میز پہ لے آئیں اور امریکی پسند کا امن معاہدہ دستخط کرا سکیں۔
اِس منطق کو سمجھنے کی بجائے امریکہ کبھی حقانی نیٹ ورک کا نام لیتا ہے یا پاکستان پہ الزام لگاتا ہے کہ ہماری وجہ سے طالبان میدان جنگ میں برسر پیکار ہیں۔ یہ بھونڈا استدلال ہے۔ طالبان اپنے جوش اور جذبے کے تحت لڑ رہے ہیں۔ ہم کہاں کی سپر پاور بن گئے کہ امریکہ کے سامنے طالبان کو لا کھڑا کریں۔ افغانستان میں امریکی موجودگی نفرت اور حقارت کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ بہت سی افغان نظروں میں طالبان افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ لہٰذا طالبان ایک قومی مزاحمتی طاقت کے طور پہ دیکھے جاتے ہیں۔ اِس میں پاکستان کیا کرے؟
امریکیوں نے تقریباً ایک کھرب ڈالر افغانستان میں صرف کیے ہیں۔ اِس بیش بہا خزانے کے باوجود افغانستان میں نہ ڈھنگ کی حکومت کھڑی ہو سکی نہ ڈھنگ کی فوج بن سکی۔ ہاں ، وسیع پیمانے پہ کرپشن کو ضرور فروغ ملا اور حکومت سے قربت رکھنے والے افراد و طبقات دولت مند ہو گئے۔ حامد کرزئی کی حکومت ہو یا اشرف غنی کی، اِس حکومتی ڈھانچے کی کمزوری ہی کی وجہ سے امریکیوں کو اپنے جہاز اور توپ و تفنگ کے ساتھ افغانستان میں رہنا پڑ رہا ہے۔ امریکیوں کی بنائی ہوئی حکومتیں اتنی مضبوط ہوتیں تو امریکی کب کے افغانستان سے جا چکے ہوتے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو شروع دن سے نہیں چاہتے تھے کہ امریکی افواج افغانستان میں رہیں۔ یہ اُن کے جرنیلوں کا اصرار تھا کہ ہمیں وہاں رہنا چاہیے۔ پاکستان کے پاس کوئی وٹامن کا ٹیکہ نہیں جس کے استعمال سے اشرف غنی کی حکومت اور افغان افواج اپنے پیروں پہ کھڑے ہو سکیں۔ اِس صورتحال کی بہتری کیلئے نہ کچھ امریکی کر سکتے ہیں نہ اشرف غنی اور اُن کی حکومت کے یہ بس کی بات ہے۔ لیکن آسان چیز ہے کہ الزام پاکستان پہ لگایا جائے اور افغانستان کی تمام صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے۔ 
تو پاکستان ٹھیک کر رہا ہے۔ ایک کان سے سننا اور دوسرے سے نکال دینا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بالکل درست کہا کہ پاکستان آئندہ کسی کی جنگ نہیں لڑے گا۔ ہم بہت امریکی جنگیں لڑ چکے۔ اس سے حاصل تو کچھ نہ ہوا ملک کا ستیا ناس ہو گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی امریکی باتیں سُنتے ہیں۔ اُنہوں نے تو اِتنی بار سنی ہوں گی کہ ساری امریکی کہانی اَز بَر ہو جائے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ لڑ چکے اور گو اندرون پاکستان دہشت گردی کی تمام جڑیں ختم نہیں ہوئیں‘ لیکن مجموعی طور پہ اُس جنگ میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔ امریکہ جانے اور اُس کی افغان جنگ۔ یہ دو مختلف جنگیں اور مختلف محاذ ہیں۔ اندرون پاکستان اور قسم کی جنگ تھی۔ افغانستان میں جاری جنگ اور قسم کی ہے۔ یہ امریکی سازش تھی کہ اِن دونوں جنگوں کوگڈمڈ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پالیسی کا نام بھی ایف پاک (AfPak) رکھا گیا۔ جب یہ اصطلاح گھڑی گئی‘ ہمارے پالیسی سازوں کو اِسے فوری رَد کرنا چاہیے تھا۔ ببانگِ دہل کہنا چاہیے تھا کہ یہ دو مختلف جنگیں ہیں۔ خیر، دید آید درست آید۔ بہت سی غلطیوں کے بعد ہم صحیح ٹریک پہ چل پڑے ہیں۔ 
امریکہ کی جنگیں ہم بہت لڑ چکے۔ پہلی جنگ سرد جنگ تھی‘ جب ہم امریکہ کے سب سے وفادار اتحادی ٹھہرے۔ تب پاکستان بغیر سوچے سمجھے امریکی عسکری معاہدوں میں شامل ہو گیا تھا۔ دنیا میں ہماری ساکھ متاثر ہوئی اور کمیونسٹ ملکوں سے دوری ہم نے مول لی۔ اِس کا کچھ ازالہ بعد میں چین سے تعلقات استوار کر کے ہم نے کیا۔ امریکی فوجی امداد ہمیں ضرور ملی لیکن اُس کا یہ خطرناک نتیجہ نکلا کہ امریکی ہوائی جہاز اور ٹینک لے کر ہم سمجھ بیٹھے کہ میدان جنگ میں ہم ہندوستان کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہی سوچ ہمیں 1965ء کی جنگ میں لے گئی۔ اُس سے ہمارا بہت نقصان ہوا۔ اچھے بھلے ترقی کی راہ پہ گامزن تھے لیکن اُس جنگ کی وجہ سے پٹڑی سے اُتر گئے۔ 
دوسری امریکی جنگ جس میں ہم شریک ہوئے نام نہاد افغان جہاد تھا۔ اُس میں لپک کے ہم نے اپنا حلیہ بگاڑ دیا۔ آج کی بہت ساری بیماریاں اُس جہاد میں حصہ داری کی وجہ سے ہیں۔ کچھ تو جنرل ضیاء الحق کی سیاسی مجبوریاں تھیں۔ اُن کو عالمی سٹیج پہ تنہائی کا سامنا تھا۔ افغان ایڈونچر نے موقع فراہم کیا کہ وہ امریکہ کے قریب آ سکیں۔ کچھ جنرل ضیاء الحق واقعی سمجھتے تھے کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور اُن کا فرض بنتا ہے کہ وہ افغانستان میں روسی مداخلت کی مزاحمت کریں۔ جو بھی سوچ کارفرما تھی، نقصان پاکستان کا ہوا۔ 
تیسری امریکی جنگ جس میں پاکستان نے آنکھیں بند کر کے شرکت کی وہ 9-11 کے بعد افغانستان پہ امریکہ کا حملہ تھا۔ ہم نے اپنی فضائیں امریکیوں کیلئے کھول دیں اور کئی ہوائی اڈے بھی اُنہیں دئیے۔ زمینی راستے بھی اُن کی صوابدید پہ چھوڑ دئیے۔ جنرل پرویز مشرف کا ذاتی فائدہ تو ہوا۔ امریکیوں نے وَقتی طور پہ اُنہیں سر پہ اُٹھا لیا۔ لیکن دیرپا نقصان پاکستان کا ہوا۔ امریکی حملے کی وجہ سے القاعدہ اور طالبان قیادت افغانستان چھوڑ کے اِس پار آ گئی۔ فاٹا کے سنگلاخ پہاڑوں اور وادیوں میں القاعدہ اور طالبان قیادت نے اپنے ٹھکانے بنائے۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ پاکستانی افواج امریکہ کی معاونت کر رہی ہیں تو القاعدہ نے فیصلہ جنگ کا پاکستان کے خلاف کر دیا اور پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا۔ پاکستانی افواج نے دہشت گردی کو شکست دی۔ ہم نے اپنے آپ کو تو بچا لیا لیکن پاکستان جو بھی کرے افغانستان میں امریکہ کو نہیں بچا سکتا۔ یہ معجزہ ہماری صلاحیت سے باہر ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved