تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-09-2018

ذہن سازی کا کوہِ گراں

تین چار سال سے ایک لفظ قوم کی نفسی ساخت پر سوار ہے۔ جی ہاں‘ ''تبدیلی‘‘ کے سوا کون سا لفظ ہوسکتا ہے بھلا؟ تواتر سے الاپا جانے والا تبدیلی کا راگ اب ہمارے مزاج کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ وہی کچھ جو باقی پوری دنیا چاہتی ہے۔ کون سی قوم‘ خطہ یا معاشرہ تبدیلی کا خواہاں نہیں؟ دنیا بھر میں لوگ مسائل سے دوچار ہیں اور اُن کے حل کے لیے سرگرداں ہیں۔ مسائل کا حل کیا ہے؟ تبدیلی‘ صرف تبدیلی۔ جو کچھ اِس وقت ہے وہ نہ رہے‘ کچھ اور دکھائی دے جو مثبت رجحان کا حامل ہو یعنی مسائل کے حل کی امید بنے۔ 
تحریکِ انصاف نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جو حکومت بنائی ہے وہ صرف ایک نعرے‘ یعنی تبدیلی کے ستون پر کھڑی ہے۔ پانچ برس کے دوران تحریکِ انصاف اور اس کے ہم خیال سیاست دانوں کا بیانیہ صرف اور صرف تبدیلی سے عبارت رہا ہے۔ عمران خان اور اُن کے رفقاء جو کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے ہیں وہ پلیٹ میں سجاکر پیش کیے جانے والے حلوے کی طرح نہیں کہ کوئی آسانی سے پیش کرے اور آپ اُتنی ہی آسانی سے چٹ کر جائیں۔ یہ راہ جتنی پرکشش دکھائی دیتی ہے اُتنی ہی پیچیدہ بھی ہے کیونکہ ع 
اِس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں 
جن کے عزائم بلند ہوں اور ولولہ بھی قابلِ رشک ہو وہ کچھ نہ کچھ کر دکھاتے ہیں۔ یہ تو ہوئی ایک حقیقت۔ اِس کے مقابل دوسری‘ اور اِسی کی طرح اٹل‘ حقیقت یہ ہے کہ ارادے‘ ولولے اور محنت کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کے ادراک سے مطابقت رکھنے والی دانش اور حکمت کا بھی اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ یہی مطلوب حکمت عمل سے مزیّن ہوکر اُن نتائج کی راہ ہموار کرتی ہے جن کی راہ دیکھتے دیکھتے حالات کی چَکّی میں پسنے والوں کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ 
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان اور اُن کے رفقاء جو دستر خوان سجانا چاہتے ہیں کیا قوم اُس دستر خوان سے مستفید ہونا یعنی کچھ کھانا اور کھائے ہوئے کو ہضم کرنا بھی چاہتی ہے۔ تبدیلی کی خواہش رکھنا اور اِس خواہش کو عملی جامہ پہنانا دو یکسر مختلف کیفیتیں ہیں‘ جن کا فرق سمجھنا لازم ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو تبدیلی نہیں چاہتا؟ پورے معاشرے یا ریاست میں شاید کوئی ایک شخص بھی تبدیلی کی خواہش سے انکار نہ کرے۔ تبدیلی کا خواہش مند ہونا عین انسانی فطرت ہے مگر معاملہ یہ بھی تو ہے کہ ہماری ٹرین محض خواہش کے سٹیشن پر رک جاتی ہے۔ زندگی کی ٹرین کو آگے بڑھنے‘ بلکہ بڑھتے رہنے کے لیے ایسا انجن درکار ہوتا ہے جو ولولے اور عمل سے عبارت ہو۔ بیشتر معاملات اِسی مرحلے میں بے دَم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ 
سرِ دست پاکستان میں تبدیلی کے حوالے سے ایسا شور و غوغا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ہر شخص یہی ایک راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تبدیلی لانے کے بجائے کیا ایسی کیفیت پیدا کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے جس کے تحت عمل کی لگن خود بخود پیدا ہو‘ تبدیلی کو یقینی بنانے کی راہ اپنے آپ ہموار ہو؟ 
ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسلام‘ جمہوریت‘ سوشلزم ... سبھی کچھ لانا چاہتے ہیں۔ انقلاب کہیں سے لاکر نافذ یا مسلّط کرنے‘ تھوپنے کی بات کی جاتی ہے۔ معاشرے میں کوئی بھی جوہری یعنی بنیادی تبدیلی کہیں سے لاکر نافذ یا مسلّط نہیں کی جاسکتی۔ ایسی ہر کوشش جلد یا بدیر صرف ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اِس نوع کا ہر تجربہ بُری طرح ناکام رہا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی بڑی اور جوہری تبدیلی کے لیے معاشرے کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ عمومی ذہن سازی ایک بنیادی اور ناگزیر عمل ہے جو کسی بھی زندہ معاشرے میں ہمہ وقت جاری رہا کرتا ہے۔ معاشرہ صرف اس وقت تبدیل ہوتا ہے جب لوگ اپنے آپ کو اس حوالے سے تیار کرچکے ہوں یا اُنہیں تیار کیا گیا ہو۔ 
زندہ اور متحرّک معاشروں میں کسی بھی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے پہلے خاصی مدت تک ذہن سازی کرنا پڑتی ہے۔ عمومی ذہن کو قبولیت کی منزل تک لایا جاتا ہے۔ اِس کے بعد تبدیلی کو یقینی بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جب ذہن سازی کا مرحلہ کامیابی سے مکمل کرلیا جاتا ہے تب تبدیلی کو قبولیتِ عامہ سے مشرّف کرنا کوئی بہت مشکل مرحلہ نہیں رہ جاتا۔ اگر اِس معیار پر ہم اپنے معاشرے کو پرکھیں تو حیرت ہی ہوگی کہ ذہن سازی کے نام پر کچھ بھی نہیں کیا گیا اور بہت کچھ تبدیل کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ 
جہاں بیشتر معاملات خواہش کی منزل پر پہنچ کر دَم توڑ دیتے ہوں وہاں ذہن سازی لازم ہے۔ عوام کو کسی بھی مثبت تبدیلی کے لیے‘ اصلاح کی خاطر پوری طرح تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ برسوں کی پختہ عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتیں۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں کوئی بھی اصلاح کے حوالے سے متعارف کرائی جانے والی کسی بڑی تبدیلی کو آسانی سے قبول اور ہضم نہیں کر پاتا۔ خرابیاں اپنا راستہ خود بنالیتی ہیں۔ محنت تو خوبی پیدا کرنے میں لگتی ہے۔ 
عشروں کے عمل نے پاکستانیوں میں بہت سی ایسی نفسی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں جنہیں دور کیے بغیر کسی بھی بڑی مثبت تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کی جاسکتی۔ عمومی سطح پر تو خیر چھوٹی سی خوبی پیدا کرنے میں لوگوں کو ایک زمانہ لگانا پڑتا ہے۔ بعض نقصان دہ چیزوں کا استعمال ترک کرنے کے لیے ذہن سازی مشکل مرحلہ ثابت ہوتی ہے۔ ایسے میں پورے معاشرے کا عمومی کلچر اور چلن تبدیل کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ ایسے معاملات میں کچھ زیادہ کیے بغیر غیر معمولی تبدیلی کی توقع رکھنا سادہ لوحی کی انتہا کہلائے گی۔ 
ملک میں سیاسی اور انتظامی سطح پر بہت کچھ بدلنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ مگر یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُن کی نیت کا درست اور ارادوں کا جوان ہونا ایک بنیادی شرط ہے اور دوسری بنیادی شرط ہے عوام کا قبولیت کے لیے تیار ہونا۔ بات سیدھی سی ہے کہ کسی بھی بڑی تبدیلی کا سب پر اثر پڑتا ہے۔ سبھی کو کچھ نہ کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ اگر عوام کو ایثار و قربانی کے لیے واضح طور پر تیار کیے بغیر کوئی بڑا قدم اٹھایا جائے گا تو زیادہ دور چلنا ممکن نہ ہوگا۔ 
پاکستانیوں کی اکثریت نے کئی عشروں کے دوران غیر معمولی الجھنوں کا سامنا کیا ہے۔ عجیب نوعیت کے سیاسی تجربوں نے مسائل کو پیچیدہ تر بنا ڈالا ہے۔ کسی بھی بُرے تجربے کا سارا ملبہ بالاآخر عوام پر آ گرتا ہے۔ اب پھر تبدیلی کے نام پر ایک بڑے سیاسی تجربے کا غلغلہ ہے۔ عوام خوش اور پُرجوش سہی مگر تھوڑے سے الجھے ہوئے اور تذبذب میں مبتلا بھی ہیں۔ معاشرے کا حلیہ اور ڈھانچا تبدیل کرنے سے قبل عوام کو پوری طرح اعتماد میں لینا لازم ہے۔ پی ٹی آئی کو مینڈیٹ ملا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بنیادی تقاضوں کا خیال رکھے بغیر کوئی بھی بڑی تبدیلی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے سے خرابیاں صرف بڑھتی ہیں‘ کم نہیں ہوتیں۔ پی ٹی آئی میں جو لوگ تبدیلیاں یقینی بنانے پر مامور ہیں اُنہیں عوام کی ذہن سازی جیسی انتہائی بنیادی زمینی حقیقت کو ہر وقت ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ یہ محض ایک مرحلہ نہیں‘ کوہِ گراں ہے۔ جس طور کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانا آسان نہیں اُسی طور بڑی مثبت تبدییلوں کے لیے عوام کی ذہن سازی بھی بچوںکا کھیل نہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved