تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     16-09-2018

مذہب اور انسان

دیگر عصری معاشروں کی طرح مذہب بیزار عناصر ایک عرصے سے پاکستان میں بھی سر گرم عمل نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں بعض ایسے بلاگرز منظر عام پر آئے ‘جنہوں نے سوشل میڈیا پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے بارے میں توہین آمیز پوسٹوں کو لکھا اور ان کا اس انسانیت سوز جرم پر صحیح طریقے سے مواخذہ بھی نہ ہو سکا اور وہ بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان انتہا ء پسند لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارا پالا بہت سے سیکولر عناصر کے ساتھ بھی پڑتا رہتا ہے اور مذہب کو انسانی زندگی سے نکالنے اور اس کو فرد کی زندگی تک محدود کرنے کی باتیں یورپی سماج کے ساتھ ساتھ پاکستانی سماج میں بھی گاہے بگاہے سننے کو ملتی ہیں۔ چند روز قبل ایک انسانی حقوق کی انجمن کی رہنما نے اسلام آباد میں ایک مظاہرہ کیا اوراقتصادی کونسل کے ایک رکن کو کونسل سے ہٹانے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں کسی کے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے‘ جبکہ اس سے قبل یہی خاتون ایک مذہبی رہنما کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لیے باقاعدہ احتجاج بھی کر چکی ہیں۔ اس قسم کے رویے معاشرے کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ بعض افراد کی مذہبی سوچ کی تو حمایت کی جائے‘ لیکن دیگر افراد کے مذہبی رجحانات کی مخالفت کی جائے۔ چند روز قبل ایک کالم نگار نے اپنے کالم میں بے حیائی اور فحاشی کے خلاف قرآنی احکامات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کو معاشرے میں رائج کرنے کا مطالبہ کیا اور دو بالغ افراد کے باہمی تعلقات کو ہر اعتبار سے جائز قرار دیتے ہوئے یہ ایشو اُٹھایا کہ اس طرح کے معاملات کسی ایک مذہب کی نظر میں گناہ جب کہ د وسرے مذہب کی نظر میں جائز ہو سکتے ہیں اور کسی بھی معاشرے میں قوانین کے نفاذ کی بنیاد گناہ کی بجائے جرائم ہونے چاہئیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوم لوط کومجرم قوم قرار دیا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجر کی آیت نمبر 58 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ''(عذاب کے فرشتوں )بے شک ہم بھیجے گئے ہیں مجرم قوم کی طرف۔‘‘ مذہب کا عمل دخل یورپی معاشروں میں ریاست اور سماج سے کچھ اس انداز میں منقطع ہو چکا ہے کہ وہاں پر فی الواقعی مذہب انسان کا خالصتاً ذاتی معاملہ بن چکا ہے اور انسان کو عقل کل اور مختار کل تصور کرتے ہوئے ہر فعل کی چھوٹ دے دی گئی؛ چنانچہ سائنسی ترقی کے باوجود یورپ آج جس اخلاقی انحطاط کا شکار نظر آتا ہے‘ ہر صاحب نظر انسان کے لیے اس میں عبرت کے بہت سے پہلو موجود ہیں۔ 
اباہیت پسندی ان ممالک میں اپنے پورے عروج پر ہے۔ نہ تو یہاں خنزیر کا گوشت کھانا معیوب ہے اور نہ ہی شراب نوشی عیب ہے۔ جنسی تعلقات کی ہر قسم کو یورپی معاشروں میں قبول کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے کسی شخص کو بھی ان رویوں پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں۔ اقتصادی معاملات میں جوا‘ قمار بازی‘ سودی لین دین جیسے معاملات پر کسی قدغن عائد نہیں کیا جاتا۔ یورپ کے سماجی انصاف کا نظام اور ان کا انفراسٹریکچر دیکھنے والی آنکھوں کو اس حد تک متاثر اور مرعوب کر دیتا ہے کہ یہاں پر وقوع پذیر ہونے والا اخلاقی انحطاط لوگوں کو نظر نہیں آتا۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہب کی افادیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے اور اس کے فوائد سے انکار کرنا کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ممکن نہیں۔ مذہب کی افادیت کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ کسی بھی انسانی سماج نے بحیثیت مجموعی الحاد اور دہریت کو قبول نہیں کیا۔ دہریے اور ملحد ہمیشہ انسانی معاشروں میں انتہائی چھوٹی اقلیت رہے ہیں۔ عقلیت پسندی کی انتہاء کے باوجود انسانی سماج نے معبود برحق کی ذات کے انکار کو کبھی قبول نہیں کیا۔ اگر ہم انسانی زندگی پر مذہب کے اثرات کا جائزہ لیں ‘تو مذہب کے مندرجہ ذیل فوائد لازماً سامنے آتے ہیں: 
1۔ بے چینی اور اضطراب کا حل: مذہب انسان کی پریشانیوں اور اضطراب کا ایک ایسا حل تجویز کرتا ہے ‘جو لامذہبیت کی کسی بھی صورت میں ممکن نہیں؛ چنانچہ بے چین اور بے قرار لوگ جب تمام اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی بے چینیوں پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور مادی اعتبار سے تمام لوازمات اور سہولیات کے پورا ہونے کے باوجود بے چینی اور بے قراری کا شکار ہو جاتے ہیں‘ تو ایسے عالم میں دعا اور مناجات کا راستہ ہی انسان کی تاریکیوں اور مشکلات کو دور کرنے کا واحد سبب بنتا ہے اور انسان اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ گو فقط جسم اور مادے کا مرکب نہیں‘ بلکہ اُس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے روح کو بھی پیدا فرمایاہے اور جب تک مادی محرومیوں کے ازالے کے ساتھ ساتھ روح کی تشنگی کو دور نہیں کیا جائے گا ‘انسان کو امن اور قرار نہیں مل سکے گا۔ 
2۔خاندانی نظام: دنیا میں آج جتنا بھی خاندانی نظام نظر آتا ہے ‘درحقیقت یہ مذہب ہی کا نتیجہ ہے ۔اگر مذہب کو وقتی طور پر فراموش کر دیا جائے‘ تو انسانی معاشروں میں فحاشی اورعریانی کے نتیجے میں اس قدر بد امنی نظر آئے کہ انسان شرف انسانیت سے گر کر درندہ بن جائے۔ آج معاشرے میں جتنے بھی خاندان موجود ہیں ‘وہ نکاح ہی کی برکت سے موجود ہیں۔ اگر نکاح نہ ہوتا تو بیٹے بیٹیاں خالہ ‘ ماموں‘ پھوپھو‘ چچا جیسے خوبصورت اور پیارے رشتے دار معاشرے میں بالکل ہی نا پید ہو چکے ہوتے۔ 
3۔حقوق کا تحفظ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار: مذہب انسان کو دوسروں کے حقوق سے آگاہ کر کے اُن میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بھی اُجاگر کرتا ہے‘ چنانچہ والدین او ر بزرگوں کے حقوق کے حوالے سے مذہب کی ترغیب کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ آج یورپ تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود بوڑھوں کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہو چکا ہے اور معاشی طور پر خود مختار بوڑھوں کے علاوہ بوڑھوں کی اکثریت معاشرے میں اولڈ ہاؤسزز کی زینت بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یورپی معاشروں میں اولادیں اپنی نجی زندگی میں کسی بھی طور پر والدین کی مداخلت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ جوان ہونے کے بعد وہ والدین سے گاہے بگاہے ملاقات تو کر سکتی ہیں‘ لیکن ان کی جملہ ضروریات کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتیں؛ چنانچہ انہیں جوان ہونے کے بعدانہیں اولڈ ہاؤسزز میں روانہ کر دیا جاتا ہے۔ 
حقوق وفرائض کے اعتبار سے اگر مذہب کی تعلیمات کو اختیار کر لیا جائے ‘تو معاشرے کے مجبورو مقہور طبقات کے دکھوں کا بہترین انداز میں ازالہ ہو سکتا ہے۔ 
4۔ رزق حلال کی کوشش: مذہب انسان کو رزق حلال کے لیے کوشاں رہنے کا درس دیتا ہے؛ چنانچہ جہاں پر مذہب کا صحیح پیروکار حرام کردہ اشیاء سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ‘وہیں پر دوسروں کا حق کھانے سے بھی مکمل طور پر احتراز کرتا ہے ۔ اگر مذہب کو انسانی زندگی سے نکال دیا جائے ‘تو انسانی معاشرہ ایک جنگل کی شکل اختیار کر جائے۔ جہاں پر ہر قسم کی چیز کو حلال سمجھ کر اس کو کھانے کا کوئی نہ کوئی جواز پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مثالی انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں توازن رکھتا ہے اور اس توازن کو برقر ار رکھنے کے پیچھے خشیت الٰہی اور یوم جزا کا ایک مضبوط تصور موجود ہوتا ہے۔ اگر اس تصور سے کنارہ کشی کو اختیار کر لیاجائے ‘تو انسان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر کما حقہ آمادہ وتیار نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے لوگ مذہب کے نقاد ہیں‘ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ مذہب کی برکات اور انسانی زندگی پر نظر انداز ہونے والے اس کے مثبت اثرات کا انکار کرنا کسی بھی طور پر ممکن نہیں اور وہ معاشرے جنہوں نے لامذہبیت کی روش کو اختیار کیا ‘انہیں اس کے نتیجے میں بہت سے صدمات‘ تکالیف اور محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زندگی کے تمام معاملات میں کتاب وسنت سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved