تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     16-09-2018

آخری اکاؤنٹ

ایک سال 25دن کا دورانیہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی اہلیہ کا سفر زیست تمام ہوا۔لندن کے بہترین ہسپتال میں بہترین علاج معالجے کے باوجود وہ کینسر کی بیماری سے صحت یاب نہ ہوسکیں۔ڈاکٹراشارہ کرتے تو شریف فیملی دنیا جہان کے ذرائع حاضر کردیتی۔ضرورت پڑتی تو صحت یابی کے عوض دولت کے انبار لگا دئیے جاتے ‘لیکن وقت آنے پر سب کچھ دھرا رہ گیا۔مطلب یہ کہ ہم چاہے جتنے بھی مضبوط کیوں نہ ہوں‘ ہمارے پاس کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو‘ ہم کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں‘خالق حقیقی کے سامنے ہماری حیثیت ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے‘ بے شک وہی شفادینے والا ہے‘ تاہم جب ساتھ لے جانے والا آجاتا ہے‘ تو پھر اُس کے ساتھ جائے بغیر کوئی دوسرا راستہ ہوتا ہی نہیں۔سو‘ بیگم کلثوم نواز شریف کا بلاوا آگیا‘ تو چہرے پر ماؤں جیسی شفقت لیے ‘ہرکسی کے ساتھ مشفق رویہ روا رکھنے والی مہربان خاتون ایک سال 25دنوں تک کینسر کی بیماری سے لڑنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملیں۔اُن کی وفات کا غم ملک بھر میں ہرسطح پر محسوس کیا گیا؛حالانکہ دیکھا جائے تو وہ ایک مختصر عرصے کے علاوہ کبھی بھی سیاسی میدان میں زیادہ فعال نہیں رہیں۔ اُن کا کوئی کردار رہا تو وہ نواز شریف کی سب سے مخلص مشیر کا سا تھا۔متعدد اہم فیصلوں میں اُن کی مشاورت شامل رہی۔ ہر مشکل میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی رہیں۔
یہی وجہ رہی کہ نواز شریف تین مرتبہ اقتدار سے علیحدہ کیے گئے‘جلاوطنی کاٹی لیکن اُن کے چہرے پر ایسی پریشانی شاید ہی دکھائی دی ہو‘ جو کلثوم نواز کی بیماری کے دوران دکھائی دیتی رہی۔اپنی اہلیہ کے سرہانے کھڑے ہوکر اُنہیں واپس آنے کے لیے آوازیں دیتے ‘ اُن کی صحت یابی کے لیے بے چین رہتے ۔اسی بے چینی میں وہ اپنے خلاف مقدمات بھگتنے کے لیے پاکستان واپس آئے اور عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعدا پنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ جیل چلے گئے۔جیل میں ہی اپنی اہلیہ کے انتقال کی خبر سنی اور پیرول پر رہا ہوکر اُن کی آخری رسومات میں شرکت کی‘ جس دوران اُن کے چہرے پر دکھائی دینے والا غم ‘ اُن کی اندرونی کیفیات کو بخوبی بیان کررہا تھا۔شاید وہ وقت بھی ذہن میں کہیں گھوم رہا ہوگا‘ جب 2000ء میں اُن کی اہلیہ کی بدولت ہی مسلم لیگ کی سیاسی قوت مجتمع رہی۔
1999ء میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا جاچکا تھا‘ جس کے بعد اٹک قلعہ ‘شریف برادران کا مقدرٹھہرا تھا۔رواج کے مطابق رہنماؤں کے جیل میں جاتے ہی مسلم لیگ کا شیرازہ بکھر نے لگا تھا۔وجہ بہت صاف تھی کہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کے ساتھ ہی سرگرم رہنماؤں کی گرفتاریوں نے سب کو خوفزدہ کردیا تھا ‘ یوں بھی ہمارے ہاں کی روایت بھی چڑھتے سورج کر سلام کرنا ہی ہے‘ جس سے روگردانی بعض صورتوں میں بغاوت سمجھی جاتی ہے۔اس روایت کے عین مطابق‘ دن رات شریف برادران کا دم بھرنے والے دوردور تک نظر نہیں آرہے تھے۔قریب تھا کہ مسلم لیگ کا شیرازہ بکھرنے کی رفتار میں تیزی آجاتی‘ جسے بھانپ کر بیگم کلثوم نواز شریف نے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا۔
1971ء میں شریف خاندان کی بہو بننے والی‘مشہور زمانہ گاماں پہلوان کی نواسی کلثوم نواز نے شاید کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ اُنہیں میدان سیاست و مزاحمت میں اُترنا ہوگا۔اُنہیں ادراک ہوگیا تھا کہ اگر وہ میدان میں نہ اُتریں‘ تو پارٹی متحد نہیں رہ سکے گی۔پارٹی متحد نہ رہی تو پھر مشرف حکومت کی مزاحمت نہیں ہوسکے گی‘ مزاحمت نہ ہوئی تو پھر شریف برادران کی رہائی بھی ممکن نہیں ہوسکے گی۔اپنے میاں کی رہائی کے لیے اُنہوں نے 8جون 2000ء کواسلام آبادکے لیے مارچ کا پروگرام بنایا۔آمر اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر یہ مارچ شروع ہوگیا ‘تو اُس کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوسکتی ہے؛ چنانچہ مارچ کو کسی بھی قیمت پر روکنے کا پروگرام بنایا گیا۔
بیگم کلثوم اپنی گاڑی پر ماڈل ٹاؤن سے نکلیں‘ تو اُن کی گاڑی کو کینال روڈ پر روک لیا گیا۔اتفاق سے یہ منظر دیکھنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔ کلثوم نوا ز‘ایل ایکس جے 1991نمبر کی سفیدرنگ کی گاڑی میں محبوس تھیں‘ جنہیں باہر نکالنے کی تمام کوششیں رائیگاں ہوتی نظرآرہی تھیں۔ہرطرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان ہی نظرآرہے تھے۔اُنہیں گاڑی سے باہر نکالنے کے لیے سات گھنٹوں تک چلنے والا مذاکرات کا سلسلہ ناکامی سے دوچار ہوا تو بالآخر کرین منگوائی گئی اور گاڑی کو کلثوم نواز سمیت اُٹھا کر تھانہ ریس کورس میں پہنچا دیا گیا۔یہی وہ سات گھنٹے تھے جب وہ ‘ چاہے اپنے خاندان کے لیے ہی سہی‘ لیکن ایک آمر کے خلاف جدوجہد کی علامت بن کر سامنے آئیں۔اُن کی گاڑی کو کرین سے اُٹھانے کی تصاویر نے عالمی میڈیا میں بھی کافی جگہ پائی‘ جس کے باعث شریف برادران کی گرفتاری کا مسئلہ اُجاگر ہوا۔حکومت تک بھی ایک مضبوط پیغام گیا‘ جس کے بعد سعودی دوستوں کی مداخلت سے شریف برادران اور پرویز حکومت کے درمیان معاہدہ طے پاگیا اور شریف فیملی دس سالوں کے لیے سعودی عرب چلی گئی۔کہا تو یہی جاتا ہے کہ اگر مشرف حکومت تک یہ مضبوط پیغام نہ جاتا تو شاید شریف برادران کی رہائی ممکن نہ ہوتی۔اس سے پہلے مشرف حکومت کے خلاف پہلا باقاعدہ احتجاج ‘ اُس وقت کے مسلم لیگ لاہور کے صدر حاجی امدادحسین نے کیا تھا۔اس شخص نے ریگل چوک پر اپنے بال بچوں سمیت صدائے احتجاج بلند کی تو ایک زمانہ اس کی جرأت پر دنگ رہ گیا ۔ پرویز مشرف کے خلاف دوچار نعرے ہی لگائے ہوں گے‘ اسے گرفتار کرلیا گیا۔کچھ سزا تو موقع پر ہی ملی اور باقی کسر تھانے میں جاکرپوری کردی گئی ۔اس احتجاج نے ملکی میڈیا میں تو نہیں البتہ غیرملکی ذرائع ابلاغ میں کافی جگہ پائی تھی۔ 
اب وقت کا پہیہ گھومتے گھومتے 2018ء تک پہنچ گیا ہے۔ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔نواز شریف ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بننے کے بعد جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں ۔ ذرا دیکھئے تو وقت کی گھومتی ہوئی میز کے ساتھ شریف خاندان کیسی کیسی مشکلات میں گھر چکا ہے ۔بیگم کلثوم نواز شریف انتقال کرگئیں ‘لیکن اُن کے دونوں بیٹے اپنی والدہ کی میت کے ساتھ پاکستان نہیں آسکے۔شدید خواہش کے باوجود نواز شریف اور مریم نواز شریف آخری وقت میں کلثوم نواز صاحبہ کے ساتھ نہیں تھے۔ تمام وسائل موجود تھے ‘اگر کچھ نہیں تھا‘ تو وقت کا ساتھ نہیں تھا۔کون گمان کرسکتا تھا کہ ملک کے طاقتور ترین خاندان کو یہ وقت بھی دیکھنا پڑے گا؟ مشکلات کا یہ دور ابھی بھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا‘ لیکن شاید نواز شریف کے لیے دوسری تمام تکلیفوں میں سے سب سے بڑی تکلیف کلثوم نواز کی رحلت ہے‘ جو سیاست میں براہ راست نہ ہونے کے باوجود ملکی سیاست پر اثر انداز ہوتی رہیں۔کہا تو یہاں تک بھی جاتا ہے کہ نواز شریف کے خیالات میں نظریات کے حوالے سے جو تبدیلی دیکھنے میں آئی ‘ اُس کے پس پردہ بھی بیگم صاحبہ کی مشاورت شامل تھی۔یہ سب کچھ اب قصہ پارینہ بن گیا ہے۔
نواز شریف جیل میں ہیں ‘تو کلثوم نواز شریف اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہوچکی ہیں۔اس تمام صورت حال میں ہم سب کے لیے بھی سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔دولت ‘ اختیار‘ قوت ‘ سب کچھ وقتی ہوتا ہے۔کچھ دائمی ہوتا ہے‘ تو وہی کچھ جو کچھ ہم دنیا میں کرتے ہیں؛ ہم نے کتنے لوگوں کو مدد کی ‘ کتنوں کو زندگی کی مشکلات سے نمٹنے میں مدد فراہم کی۔ہم چاہے شریف گروپ آف کمپینز کے مالک ہوں‘ ایون فیلڈ پراپرٹی ہماری ملکیت ہو‘ العزیزیہ سٹیل مل ہمارے پاس ہویا پھر ہم ایک ایٹمی ملک کے تین بار وزیراعظم ہوں‘کچھ بھی تودائمی نہیں ۔یہ جانیں اور سمجھے بغیر کہ ہمارا آخری اکاؤنٹ کھلنے میں بھی اب زیادہ وقت باقی نہیں بچا۔ٹک حرص وہوس کو چھوڑ کر میاں‘ مت دیس بدیس پھرے مارا۔قزاق اجل کا لوٹے ہے ‘دن رات بجا کرنقارہ۔

 

 

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved