تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-09-2018

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے!

افغانستان کو تر نوالہ سمجھنے والے ممالک کی کمی کبھی نہیں رہی۔ برطانوی سامراج نے اپنے عہد عروج میں اسے ڈکارنے کی کوشش کی‘ مگر ناکام رہا۔ سابق سوویت یونین کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ اور اب امریکا اچھی خاصی الجھن میں پھنسا ہوا ہے۔ ع 
جو تِری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا 
امریکا نے افغانستان سے بوریا بستر باندھنے کی تیاری کرلی ہے۔ واحد سپر پاور ہے تو ایسے ہی تو نہیں نکل سکتا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں خاصی بھد اڑے گی۔ ایسے میں معاملات مرحلہ وار نمٹائے جاتے ہیں۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو افغان سرزمین سے مکمل طور پر نکلنے کی تیاری کرتا ہوا پاکر جن ممالک کی رال ٹپک رہی ہے اُن میں بھارت بھی شامل ہے‘ بلکہ سرفہرست ہے۔ 
بھارت‘ امریکا اور دیگر ممالک ایک زمانے سے پاکستان پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ افغانستان میں زیادہ سے زیادہ ''اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ (سفارتی تعمّق) یقینی بنانے کے لیے ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان‘ چونکہ ہمسائے ہیں اور دونوں کے درمیان سرحد بھی خاصی طویل ہے اس لیے بھارت یا کسی اور ملک کے اِس نوع کے الزامات کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ دونوں ممالک مذہب‘ زبان‘ ثقافت اور نسل کے اعتبار سے غیر معمولی ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ایک زمانے تک دو طرفہ آمد و رفت عمومی سطح پر ویزا کی محتاج بھی نہیں رہی۔ 
اب ایران اور بھارت مل کر افغانستان میں غیر معمولی وقعت پانے کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں پاکستان کے لیے مشکل حالات دیکھ کر بھارت نے افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی بھی بڑھائی اور افغان معاشرت و معیشت کا حصہ بننے کی اپنی سی کوشش بھی شروع کی۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ بھارت نے اب تک افغانستان میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ افغان معاشرے میں غیر معمولی اثر و نفوذ کے ذریعے بھارت اور بھارتیوں کے لیے بھرپور نرم گوشہ پیدا کیا جائے۔ تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کے لیے بھارتی قیادت نے افغانستان کے طول و عرض میں عوام کو رام کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ خاطر خواہ یا مطلوب نتائج آسانی سے مل سکیں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن مکمل طور پر اب تک بحال نہیں ہوسکا ہے۔ بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت نے ایسے نازک ماحول میں ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں بھرپور انداز سے قدم جمانے کے حوالے سے رختِ سفر باندھا ہے۔ اس حوالے سے حال ہی میں بھارت‘ افغانستان اور ایران کے اعلٰی حکام کے درمیان مذاکرات کابل میں ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات میں بھارت کی نمائندگی سیکریٹری کارجہ وجے گوکھلے نے کی۔ بھارت چونکہ افغانستان میں وسیع تر کردار چاہتا ہے‘ اس لیے اس نے اقدامات بھی غیر معمولی نوعیت کے کیے ہیں۔ معروف اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایک اداریے کے مطابق بھارت نے افغانستان کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد از خود پابندی بھی ختم کردی ہے اور اب اسے گن شپ ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بعد کے افغانستان میں پاکستان زیادہ آسانی سے قدم نہ جماسکے۔ ہندوستان کے مطابق افغانستان میں اسٹریٹجی کے اعتبار سے پاکستان کو بالا دستی کے حصول سے روکنا اس وقت بھارت کی اولین ترجیح ہے۔ اس حوالے سے ایران کو بھی ساتھ ملالیا گیا ہے۔ ایران کی چاہ بہار بندر گاہ بھارتی زری تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ اس بندر گاہ کے ایک
حصے کا کنٹرول بہت جلد بھارت کو دیا جانے والا ہے۔ اس کے بعد بھارت کے لیے افغانستان تک رسائی کی خاطر پاکستان کو بائی پاس کرنا خاصا آسان ہوجائے گا۔ 
سفارتی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ بھارت نے حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے جو مذاکرات کیے ہیں ان کے بعد سیاست و سلامتی سے متعلق امور کے لیے قائم بھارت افغان آپریشنل گروپ کی میٹنگ ہوئی۔ اور اس میٹنگ کے بعد ایران‘ افغانستان اور بھارت کے اعلٰی حکام مل بیٹھے۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ و وزیر دفاع سے مذاکرات میں بھارت نے افغانستان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات ضرور کی ہے۔ بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے ہیں مگر اس حوالے سے متعدد الجھنوں کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کو کس طور منایا جائے۔ پاکستان سے ملحق صوبوں میں غیر معمولی طور پر متحرک سیاسی جماعتیں اور عسکری گروہ اپنی سرزمین پر بھارت کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے کچھ زیادہ راضی نہیں۔ 
افغانستان کے معاملے میں بھارت نے ایسی بے تابی دکھائی ہے کہ حالات و واقعات پر نظر رکھنے والوں کو حیرت ہوتی ہے۔ ایسی ہی کیفیت کے لیے غالبؔ نے کہا ہے ؎ 
عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب 
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک 
افغانستان میں قیادت کی سطح پر تو ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے‘ مگر عوام کبھی بھارت کو ہر اعتبار سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ نئی دہلی کے بزرجمہر‘ یہ نکتہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا اور یورپ کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں اُن کے لیے کوئی رکاوٹ رہے گی ہی نہیں۔ ع 
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا! 
مہا راج اتنی سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں پارہے کہ ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی۔ افغانستان سراب ہے۔ گرم ریت ہے جو دور سے سونے جیسی دکھائی دے رہی ہے۔ اب کون سمجھائے کہ افغانستان کی دلدل میں جو دھنسا وہ پھر نکل نہیں پایا۔ ؎ 
انیسؔ! دم کا بھروسہ نہیں‘ ٹھہر جاؤ 
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے 
امریکا اور یورپ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا اور اب وہ بوریا بستر لپیٹ کر اچھی خاصی ذلت کے ساتھ رخصت ہو رہے ہیں۔ ایسی ہزیمت آمیز صورتِ حال میں بھارت کا افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کرنا حیرت انگیز بھی ہے اور تشویشناک بھی۔ تشویشناک یوں کہ ایسا کرنے سے پاکستان میں بھی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور پاکستان کو افغانستان سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ 
افغانستان اور ایران دونوں کے لیے بھی یہ بہت نازک گھڑی ہے۔ اگر وہ بھارت یا کسی اور ''بیرونی‘‘ ملک کی طرف جھک کر علاقائی زمینی حقائق کو نظر انداز کریں گے‘ تو بین الریاستی تعلقات مزید الجھیں گے۔ سفارتی سطح پر پیدا ہونے والی کشیدگی اور بہت سے معاملات کو بھی لپیٹ میں لے گی۔ ایران اور افغانستان اگر حالات کے جبر کے ہاتھوں بہت کچھ ایسا کر رہے ہیں جس میں اُن کی مرضی شامل نہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت اور اُس کے ہم خیال ممالک کے ہاتھوں میں کھیلنا معاملات کو مزید الجھائے گا۔ علاقائی چوہدری بننے کی کوشش میں بھارت نے پاکستان کو بائی پاس کرکے ایران اور افغانستان کو ہم خیال بنانے کی جو کوشش شروع کی ہے وہ خطے کو سرد جنگ کی کیفیت سے دوچار کرسکتی ہے۔ ڈپلومیٹک اور اسٹریٹجک سطح پر اس طرح کا ایڈونچر اِزم کشیدگی کے شعلوں کو مزید ہوا دے گا۔

٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved