جس دنیا میں ہم اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں ‘ اس کا ایک ابدی اصول یہ ہے کہ تکلیف اٹھائے ‘بغیر عظمت تو دُور کی بات ‘ learning بھی نہیں ہو سکتی ۔ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے آدمی کی زندگی اٹھا کر دیکھ لیجیے ‘ آپ کو بے پناہ تکلیف نظر آئے گی۔ باکسر محمد علی کا کہنا تھا کہ اپنی ٹریننگ کے ایک ایک منٹ سے میں نے نفرت کی‘ لیکن پھر اپنے آپ سے کہا کہ تکلیف برداشت کرو اور باقی زندگی ایک فاتح کی حیثیت سے زندہ رہو ۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی زندگی دیکھ لیجیے ۔ وکالت اور سیاست میں وہ عظیم الشان کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ لیکن ذاتی زندگی دکھوں سے بھرپور ہے ۔ بیوی سے علیحدگی اور پھر اکلوتی بیٹی کا غیر مسلم سے شادی کا فیصلہ۔ ہمیشہ کے لیے اپنی اکلوتی اولاد سے دوری ۔انسان زندگی میں جتنی محنت کرتاہے ‘ اولاد سے بڑی motivationاس میں اور کوئی نہیں ہوتی ۔ محمد علی جناحؒ کی motivation یہ تھی کہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کچھ ایسا کر جائوں ‘ جس پر خدا مجھے کہے کہ "Well done Mr. Jinnah"۔ قائداعظم ؒ کو ٹی بی ہو گئی ۔ بیماری کی شدت میں سوکھ کر کانٹا ہو گئے۔ اپنی اس بیماری کو دنیا سے چھپا کر رکھاکہ پاکستان بننے کی راہ میںرکاوٹ پیدا نہ ہو ۔
ابرہام لنکن نے زندگی میں اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ یہ غم اور پریشانیاں اس کے چہرے پہ درج ہو گئیں ۔ اسے ناکامی پہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی نوجوانی کے دور میں یہ کہنا تو دور کی بات کہ وہ امریکی تاریخ کا ناقابلِ فراموش قائد بنے گا ۔ یہ کہنا بھی آسان نہیں تھا کہ کبھی ناکامیوں سے وہ باہر نکل سکے گا ۔ جیل میں سڑتے ہوئے نیلسن منڈیلا کی کامیابی بھی دیوانے کا خواب ہی لگتی تھی ۔ مرزا غالبؔ اتنا بڑا شاعر تھا کہ اقبالؔ کے علاوہ اس کا کسی کے ساتھ موازنہ ہی نہیں کیا جاتا ۔ آپ اس کے خطوط اٹھا کر پڑھیں ۔ بے پناہ تکلیف ‘ بیماری اور تنگی‘ نظر آئے گی ۔
سول سروس کے اچھے اور ایماندار افسر اپنی سروس کا آدھا عرصہ معطل رہتے ہیں۔خوشامدی اور بوٹ چاٹ گروپ ان کی نسبت بظاہرپھلتا پھولتا ہے‘ لیکن دلوں میں عزت ایماندار اورقابل افسروں ہی کی ہوتی ہے ۔ جنوری 1996ء میں کراچی میں امن قائم ہو چکا ‘تو حاکم علی زرداری نے ڈاکٹر شعیب سڈل کو فون کیا اور کہا کہ ایک اے ایس آئی کا آپ نے تبادلہ کیا ہے ۔ وہ میرے باورچی کا لڑکا ہے ۔ میں نے ہی اسے پولیس میں بھرتی کرایا تھا۔ اس کا تبادلہ منسوخ کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے زرداری صاحب سے کہا: کسی مناسب وجہ کے بغیر یہ تبادلہ منسوخ نہیں ہو سکتا۔ آپ کوئی اور باورچی ڈھونڈلیں ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے ‘ جب ملک میں نہ آزاد میڈیا تھا ‘ نہ بریکنگ نیوز دینے والے ٹی وی چینلز اور نہ طاقتور عدالتیں ۔
ڈاکٹر شعیب سڈل جب پولیس آپریشن کے لیے کراچی گئے‘ تو لیاری کے ایک تھانے میں معلوم ہوا کہ ایس ایچ او صاحب کبھی ڈیوٹی پر تشریف لائے ہی نہیں ۔ اسے معطل کیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ ایس ایچ او صاحب مستقل طور پر مقامی ایم این اے آفاق شاہد کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں ۔ اس معطلی پر پہلے توآئی جی نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک ایس ایچ او کے لیے وزیر اعظم سے تعلقات خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ آخر ایم این اے صاحب نے ذاتی طور پر بے نظیر بھٹو سے رابطہ کیا‘ پھر بھی یہ ایس ایچ او بحال نہ ہو سکا۔
ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کو لیگی حکومت کی طرف سے غیر معمولی دبائوکا سامنا کرنا پڑا ۔ اس وقت بھی ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور جیسے روزانہ گھنٹوں کی بنیادپر جرح کی جا رہی ہے ‘ اس سے سرکاری افسروں کو یہ پیغام ملا ہے کہ اصول پہ کھڑے ہو کر اپنی زندگی جہنم نہ بنائو ۔ کئی گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر ایک طویل عرصے کسی سے بھی جرح کی جائے ‘تو کہیں نہ کہیں انسان کی زبان پھسل ہی جاتی ہے ۔
خیر‘ تکلیف کی بات ہو رہی تھی ۔ بڑے بڑے غیر معمولی لوگ بیماری اور غربت کی زندگی گزارتے ہیں ۔ ان کے عام سے مداح محلات میں زندگی گزارتے ہیں ۔ کسی کی زمین سے تیل نکل آتا ہے ۔ کسی کا دادا کھربوں کی جائیداد چھوڑ کر مرتا ہے ۔
یہ تکالیف کیوں آتی ہیں ؟ آزمائش کے لیے اور دوسری بات یہ ہے کہ تکلیف کے بغیر عظمت کا حصول ممکن ہی نہیں ۔اسی میں انسان کی ٹریننگ ہوتی ہے ۔خدا کی بات سنیں ‘تو وہ تو اپنے پیغمبروں کو آزمائے بغیر نہیں چھوڑتا۔ آپ مسلمان ہیں یا نہیں‘ لیکن اگر ایمانداری سے تجزیہ کریں تو کرۂ ارض کو سب سے زیادہ تبدیل کرنے والی ہستی حضرت محمد ﷺ کی ہے ۔ اس وقت ‘ زوال کے دور میں بھی دنیا میں ڈیڑھ ارب افراد مسلمان ہیں ۔یتیمی میں آنکھ کھولی‘ پھر والدہ بھی خالقِ حقیقی سے جا ملیں ۔ بے انتہا عسرت ‘ پڑھ لکھ نہ سکے ۔ جب نبوت ملی تو اس کے بعد تکلیفوں کا ایسا دور شروع ہوا ‘ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا میں کون سا انسان ایسا ہے ‘ جسے اس کے خاندان والوں کے ہمراہ معاشرہ اپنے اندر سے باہر نکال دے ۔ آپ کو کھلے آسمان تلے رہنا پڑے ۔ خوراک مہیا نہ ہو ۔ بچوں کو درختوں کے پتے چبا نا پڑیں ۔ ایک دو دن نہیں‘ تین سال اپنے اہل و عیال کے ہمراہ پورے معاشرے کے مکمل بائیکاٹ میں صبر ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بازاروںمیں پتھر برساتے لڑکوں کے آگے بھاگنا پڑا اور جسم مبارک لہو لہان ہو گیا ۔ گلیوں میں لوگوںنے مذاق اڑایا ‘ لیکن آپﷺ اپنے مشن پر قائم رہے اور سرخرو ہوئے! ۔
دوسری طرف ہمارے لیڈر ہیں ۔ پرویز مشرف سے لے کر میاں محمد نواز شریف تک ۔ اوّل تو جیل میں رہنا گوارا ہی نہیں ۔ کسی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ۔ کسی کو اپنے ماہر نفسیات تک رسائی درکار ہوتی ہے ۔پچھلے کئی عشروں میں سب سے زیادہ معاشی ترقی جنرل مشرف کے دور میں ہوئی ‘لیکن ہمت اتنی ہی تھی کہ جب ابتلا کا وقت آیا تو ملک سے باہر جا کر بیٹھ گئے ۔ہمارے لیڈر جیل کی صعوبتیں برداشت کریں تو سیاسی قد کاٹھ بڑا ہو ۔ اقتدار تک رسائی ہو۔ اس کے بعد طیب اردوان کی طرح ایسی معاشی کارکردگی کا مظاہرہ ہو کہ عوام اپنے لیڈر کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں ۔ بھرپور عوامی تائید ہی سے فوج کو اس کی آئینی حدود میں واپس بھیجا جا سکتاہے ۔
اللہ ان کی اہلیہ کی مغفرت فرمائے‘ میاں صاحب جب جیل سے باہر نکلے تو برسوں کے مریض لگ رہے تھے۔اڈیالہ جیل سے بار بار انہیں ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔اس جیل میں انہیں وہ طرزِ زندگی مہیا کیا گیا ہے ‘ کروڑوں غریب عوام جس کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ پچھلی دفعہ میاں صاحب دس سالہ معاہدہ کر کے جدہ چلے گئے تھے ۔اس دفعہ بھی چلے جائیں گے ۔
جہاں تک کپتان کا تعلق ہے‘ تو اس وقت وہ بھی ترازو میں ہے ۔ میں نے بہت سوچا‘ لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے لیڈروں کو تکلیف برداشت کرنا کون سکھائے گا ؟ یا پھر تکلیف برداشت کرنے والا ابھی آیا ہی نہیں ؟