تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     05-04-2013

اب جاگ اٹھنا چاہیے !

خدا نے انسان کو زمین پر اپنا نائب مقرر کرنے کا فیصلہ فرشتوں کو سنایا تو یہ اعتراض انہوںنے جڑ دیا کہ زمین پر آدمی فساد کرے گااور خون بہائے گا۔نجانے یہ ادراک انہیں کیونکر ہوا۔خدا کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہو تا کہ وہ سب سے بڑا عالم اور حکیم ہے ۔ علم کے میدان میں آدمؑ نے فرشتوں کو مات دی اورانہوںنے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ خدا شاید ایسی مخلوق چاہتا تھا ، جو دیکھے بغیر ،علم اور عقل کے ذریعے اس تک رسائی پائے، جو خواہشات اور جبلّتوں سے پیہم لڑتی رہے اور خود سے اس جنگ کے عوض اسے ارب ہا ارب برس کی ، کبھی ختم نہ ہونے والی مدّت کے لیے بے انتہا انعام و اکرام سے نواز دیا جائے۔ ایک لمحے کو سوچیے کہ جنگل میں درندوں سے جان بچاتے اوّلین انسان سے، آج اجرامِ فلکی میں مداخلت کرتے آدمی تک ، کتنے ہیں جو قدرتی آفات اور درندوں کا شکار ہوئے اور کتنے ایک دوسرے کے ہاتھ مارے گئے ۔ وحشت پر تُل جائے تو انسان ہی سب سے بڑا درندہ ہے ۔ جانوروں کے پاس صرف جسمانی قوت ہے اور انسان عقل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے دیر پا تباہی کی تدبیر کرتا ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے اپنی کتاب\"محضرِ تخلیق\" میں قیامت کے دن زمین اور آسمان کی مخلوقات کی ملاقات کے حوالے سے حدیث نقل کی ہے ۔انسان اور جنّات زمین کی تمام مخلوق کے ہمراہ جمع ہو جائیں گے ۔ یکے بعد دیگرے آسمان پھٹتے چلے جائیں گے۔ فرشتے زمین کو گھیر لیں گے اور کرّہ ارض روشنی میں نہا جائے گا ۔ اس قدر رعب طاری ہوگا کہ فرشتوں کو خدا سمجھتے ہوئے، بعض سجدے میں گرنے کی کوشش کریں گے لیکن انہیں بتایا جائے گاکہ ابھی وہ بزرگ وبرتر تشریف نہیں لایا۔تب آٹھ فرشتے عرش تھامے اترتے چلے آئیں گے ، وہ عرش جس پر تمام مخلوقات کا رب تشریف فرما ہوگا۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ! جاہ و جلا ل کے ساتھ وہ پوچھے گا : لمن الملک الیوم ؟بادشاہی آج کس کی ہے ؟ کسی ذی روح میں کلام کا حوصلہ نہ ہوگا۔ خود ہی وہ فرمائے گا : للہ الواحد القہّار۔ بادشاہی اللہ کی ہے جو واحد ہے ، قہر والا ہے ۔ (مفہوم)۔ لگتا یوں ہے کہ خدا کی مداخلت سے قبل انسان قتل و غارت کا بازار گرم ہی رکھے گا ۔ اپنی بادشاہی ، اپنے غلبے کی کوشش وہ کرتا رہے گا اور اپنے جیسوں کوقتل کر ڈالے گا۔ کبھی دوسری قوموں اور ریاستوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ تناظر وسیع ہو۔ تیسرے ایٹمی تجربے کے بعد عالمی پابندیوں کے شکار شمالی کوریا میں معاملات سنگین تر ہو رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ وہ امریکہ کو ایٹمی حملے کی دھمکی دیتا ہے ۔ خیرامریکہ تک ایٹمی حملے کی بساط تو اس کی نہیں لیکن اور بہت کچھ ہو سکتاہے ۔ مسئلے کی جڑیں گہری ہیں ، بہت ہی گہری۔ دوسری جنگِ عظیم تک کوریا پر جاپانی تسلّط قائم تھا۔جنگ کے خاتمے پر بربادی کا شکار جاپان رخصت ہوا لیکن شمال پر اب روس اور جنوب پر امریکہ آ وارد ہوئے اور اس بدقسمت ملک کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی۔ آج بھی جنوبی کوریا امریکی چھتری تلے آسودہ ہے اور شمالی کوریا کے مددگار روس اور چین ہیں ۔ دو عالمی طاقتوں کی کشمکش ایک چھوٹے ملک کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے ۔ جرمنی ، برطانیہ ، روس اور امریکہ۔۔۔۔۔۔عام طور پر ایک عالمی طاقت اپنی تباہی تک بے پناہ خون بہاتی ہے ۔ ذرا غو رکیجئے کہ کوریا کے علاوہ ،امریکہ اس خطے کے کتنے ممالک میں منہ مار چکا ہے ۔روس کی تباہی میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ویت نام میں وہ طویل خون ریزی کر چکا ہے ۔ جاپان کو تو اس نے اجاڑ ہی ڈالا اور اس کی قومی نفسیات میں ایسی توڑ پھوڑ کا باعث بنا کہ شاید کبھی وہ بحال نہ ہو ۔عالمی قوت ہونے کے ناطے اسے یہی زیبا ہے ؛حتیٰ کہ وہ سپر پاورز کے قبرستان میں دفن ہو جائے۔ خدا ایسی طاقت سے محفوظ رکھے ، جس کا تکبّر جھک مارنے پر آمادہ کرے ۔ لاکھوں ، کروڑوں آدمی قتل ہونے کے بعد اپنا تھوکا چاٹنا پڑے۔ اتنا کافی ہے کہ معیشت خود کفیل ہو ، فوج ریاست کی حفاظت کر سکے، جمہوری جدوجہد سے ادارے تشکیل پا جائیں ، رفتہ رفتہ کمتر لوگوں کو عوام سیاست سے رخصت کردیں اور سفارتی اور خارجی سطح پر ملک تنہائی کا شکار نہ ہو۔ یہی کوریا ہے ، جہاں 63برس پہلے اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے امریکہ اور چین، روس اتحاد میں خون آشام جنگ ہو چکی ہے۔ 1953ء کی کورین جنگ میں بیس لاکھ آدمی قتل ہوئے۔ماضی قریب میں شمالی کوریا نے ایٹمی اور میزائل پروگرام تعمیر کیا تو عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے ماتھے ٹھنکے۔موجودہ بحران شمالی کوریا کے نئے ایٹمی تجربے کے بعد شروع ہوا ۔عالمی پابندیاںبڑھا دی گئیں اور امریکہ نے جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں شروع کیں۔ امریکی جنگی بحری بیڑہ کوریا کے سمندر میں داخل ہوگیا۔ شمالی کوریا میں سلیقہ مند سیاسی قیادت ہو تی تو خوامخواہ کی یہ مہم جوئی نہ کرتی۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے وہ منصوبہ بندی کرتی لیکن یہاں بھی وہی مسئلہ ہے ۔۔۔۔۔۔صرف ایک سیاسی جماعت اور خاندانی قیادت۔معیشت کی حالت یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے قریبا ڈھائی لاکھ ملین ڈالر کے مقابلے میں ، شمالی کوریا کا کل بجٹ تین چارہزارملین ڈالر ہے ۔ ایران کی طرح ،وہ عالمی تنہائی کا شکار ہے لیکن بہرحال روس اور چین اس کے دوست ہیں۔ طاقت کے مراکز بدلتے رہتے ہیں ۔ اقتدار کی منتقلی کے بعد چین کے نئے صدر کی طرف سے فوج کو جنگیں جیتنے کے لیے تیاری کی ہدایت ، چین کی نشأۃِ ثانیہ کا عزم ، روس کو اپنا اہم ترین تزویراتی دوست قرار دینا اور خود روس کے بدلتے روّیے پر غور کیجئے۔ ایٹمی چین کی معاشی ترقی میں کوئی کلام نہیں ۔ روس بھی اب معاشی طور پر تیزی سے اُبھر رہا ہے اور وہ انتہائی خطرناک فوجی اورایٹمی قوت ہے۔دونوں اپنے خطّے میں جھک مارتے امریکہ کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ صورتِ حال واضح ہے لیکن بغلیں بجانے کی کوئی وجہ نہیں ۔ اپنے مفادات کا تحفظ ہر قوم خود کیا کرتی ہے اور کمزورقومیں اپنے انجام کو پہنچتی ہیں ۔ ہم ایک مضبوط فوجی اور ایٹمی قوت ہیں ۔ ہماری معیشت مگر برباد ہے ۔ درست قیادت کے انتخاب سے ہم بتدریج اسے تعمیر کر سکتے ہیں۔ زندہ رہنا ہے تو اب جاگ اُٹھنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved