مائیکل ایچ فوچس‘دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں خاص کر مشرقی ایشیا پر۔میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے ان کاتجزیہ پیش خدمت ہے۔ ''2017ء میں میانمار کی فوج نے ‘روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایک بے رحمانہ مہم شروع کی ‘ جس کے تحت ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا‘ جبکہ سات لاکھ سے زیادہ بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہو ئے۔ اس بہیمانہ قتل عام کے ایک سال بعد‘ اقوام متحدہ کے میانمار کے اس معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ مشن نے یہ جانا کہ میانمار کے مغربی حصے میں واقع راخائن صوبے میں جو '' جرائم کئے گئے اور جس طریقے سے ان جرائم کا ارتکاب کیا گیا ‘ وہ اپنی نوعیت‘ شدت اور سکوپ کے لحاظ سے‘ ان واقعات کی مانند ہی ہیں‘ جن میں ان سے الگ سیا ق و سبا ق میں نسل کشی کے ارادوں اور عزائم کو پنپنے کی اجازت دی گئی۔ میانمار کی فوج کے سربراہ‘ مِن آنگ ہلائنگ نے فوج کے ارادوں کو ان الفاظ میں واضح کیا ''بنگالی مسئلہ طویل عرصے سے حل طلب ہے اور گزشتہ حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کے باوجود یہ حل نہیں ہو پا رہا تھا۔ موجودہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں بے حد احتیاط سے کام لے رہی ہے ‘‘۔ روہنگیا کی یہ نسل کشی میانمار میں حال ہی میں جمہوریت کی بحالی کے عمل کے پس منظر میں ہوئی۔ کئی دہائیوں کی فوجی ڈکٹیٹر شپ کے بعد میانمار میں حال ہی میں مسلح فورسز نے سیاسی لیڈدروں کو آزاد کرنا شروع کر دیا گیا ہے ‘ جن میں اپوزیشن لیڈر‘ آنگ سان سوچی بھی شامل ہیں او ر ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ 2015ء میں میانمار میں حقیقی الیکشن بھی کرائے گئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں آنگ سان سوچی کی پارٹی‘ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘ نے سویلین حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور محسوس یہ ہو رہا تھا کہ میانمار میں حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ لیکن جمہوریت کے ثمرات سب تک نہ پہنچ سکے۔
اقوام متحدہ‘ میانمار میں جموریت کے فروغ کی حامی رہی ہے تاکہ اس ملک میں وسیع البنیاد ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ میانمار پر دہائیوں تک پابندیاں عائد رہیںاور یہ ملک تنہائی کا شکار بھی رہا۔ لیکن اوباما کے دور میں امریکہ نے فیصلہ کیا کہ میانمار حکومت کی جانب سے مثبت اقدامات کے ردعمل میں اس کی مدد کی جائے گی۔ میانمار حکومت جتنے اقدامات کرے گی‘ اتنی ہی اس کی مدد کا اہتمام کیا جائے گا۔ اوباما انتظامیہ نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ جب تک میانمار حکومت ٹھیک راستے پر چلتی رہے گی‘ اس کی مدد جاری رکھی جائے گی۔ آج یہ واضح ہو چکا کہ میانمار حکومت اس ٹھیک راستے پر قائم نہیں رہی۔ سیاسی اصلاحات کے نتیجے میں جو بہتری آئی تھی‘ روہنگیاز کی نسل کشی کے طور پر اس کی قیمت ادا نہیں کی جانی چاہئے۔ دنیا کو میانمار حکومت کے اس طرز عمل پر ردعمل ظاہر کرنا چاہئے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی اقدام میانمار کی پالیسیوں میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کا باعث بنے گی‘ پھر بھی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ یہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا‘ کیونکہ سینکڑوں ہزار روہنگیاز پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور ہزاروں مزید میانمار میں حکومت کے رحم وکرم پر ہیں۔ دنیا نے ایک سال تک اس بحران کا جائزہ لے لیا۔ اب اسے عدل اور انصاف کا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔ اس سلسلے میں امریکہ کو پہل کرنا ہو گی۔ اسے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جانا چاہئے اور اس کے ذریعے میانمار پر اسلحے کے حصول پر پابندی عائد کر دینی چاہئے جبکہ میانمار کے فوجی حکام کو اپنے ہاں آنے سے روک دینا چاہئے‘ روہنگیا کی دوسرے باشندوں کی ہی طرح قانونی حفاظت کا تقاضا کرنا چاہئے ‘اور میانمار حکومت سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ دوسرے ممالک میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کو واپس آنے اور اپنے علاقوں میں بسنے کی اجازت دے اورانہیںتحفظ فراہم کرے۔
امریکہ کو فوری طور پر یہ واضح کر دینا چاہئے کہ اگر میانمار میں روہنگیاز کی صورتحال جلد از جلد اطمینا ن بخش بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو اس کیلئے میانمار کی سول حکومت بشمول آنگ سان سوچی کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا اور اس کا احتساب کیا جائے گا‘ کیونکہ میانمار کی فوج اس ظلم و استبداد کے سلسلے کو شروع کرنے والی ہے‘ لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سول حکومت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ نومبر میں جب امریکہ اور ایسوسی ایشن آف سائوتھ ایسٹ ایشین نیشنز کا سیمی اینول سمٹ میٹنگ کے موقع پر اکٹھ ہو گا تو اس وقت میانمار کے معاملات اس اجلاس کے ایجنڈے میں سر فہرست ہونا چاہئے۔ امریکہ اور آسیان کے پچھلے تین سال کے معاملات سب کے سامنے ہیں؛ چنانچہ یہ کام آسان نہ ہو گا۔ آسیان کے رکن ممالک میانمار کو اس سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کریں گے‘ جو ان کے خیال میں بیرونی تنقید ہے۔ لیکن روہنگیا پر ہونے والے مظالم ایسے نہیں کہ ان کو جھاڑو کے ذریعے قالین کے نیچے دبا دیا جائے۔ انڈونیشیا نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے قدم اٹھایا ہے۔ ملائیشیا میں ایک لاکھ سے زیادہ پناہ گزین موجود ہیں‘ نیز امریکہ کو میانمار کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور یہ سوچ کر خاموش نہیں ہو جانا چاہئے کہ میانمار کی فوج یا حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کچھ کر رہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ‘ ایشیا میں ہونے والی ہر پیش رفت کو چین کے ساتھ امریکہ کی مسابقت کے معاملات کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ اس سلسلے میں تیز قدم نہ اٹھائے تو پھر امریکی کانگرس کو چاہئے کہ وہ امریکی انتظامیہ کو اس سلسلے میں تیزی سے اقدامات کرنے پر مجبور کرے۔
امریکہ کی جانب سے میانمار میں جمہوریت کی بحالی کے معاملات کو قبول کرنا‘ اس لئے ہے کہ اس سے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں بہتری آنے کی توقع بڑھ جائے گی۔ اگرچہ امریکہ کی جانب سے میانمار کی حکومت کو روہنگیاز کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا علی الاعلان اور مختلف نوعیت کے اجلاسوں میں تقاضا کیا جاتا رہا ہے‘ لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ اسے 2017ء سے پہلے‘ اس بحران کو ٹالنے کے سلسلے میں زیادہ‘ بہتر اوربھرپور اقدامات کرنے چاہئیں تھے‘ جو اس نے نہیں کئے۔ امریکہ کی جانب سے پالیسی تبدیل کرنے کے کچھ مثبت اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں اور حالات میں کچھ بہتری آئے گی یا نہیں‘ اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو اس سلسلے میں اپنا راستہ تبدیل کرنے کی ا شد ضرور ت ہے۔ میں کئی مرتبہ میانمار جا چکا ہوں اور وہاں جن حکام سے میری ملاقاتیں ہوتی رہیں‘ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے حوالے سے زیادہ کھلے پن‘ زیادہ اصلاحات اور زیادہ مواقع پیدا کرنے کے خواہش مند نظر آئے‘لیکن میانمار کی حکومت صرف روہنگیا افراد کو ہی نہیں‘ بلکہ اپنی پوری آبادی کوکچھ بھی فراہم کرنے میں ناکا م رہی ہے‘ تاہم مستقبل میں اس کی کامیابی کے امکانات موجود ہیںلیکن اس کیلئے پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ جب تک روہنگیا اور میانمار کے عوام کو انصاف مل نہیں جاتا‘ دنیا کو آرام سے نہیں بیٹھنا چاہئے‘‘۔