آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پوری فوجی وردی پہنے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا '' پاکستانی فوج اپنے دوست عوامی جمہوریہ چین کو گارنٹی دیتی ہے کہ وہ سی پیک کی مکمل حفاظت کرے گی‘‘۔ اس حفاظت کے لفظ میں صرف سکیورٹی کے فرائض کی بات نہیں تھی ‘بلکہ چین اور دنیا بھر کو واضح پیغام دیا تھا کہ یہ معاہدہ برقرار رہے گا ۔ جو لوگ سوشل میڈیا کے کسی بھی حصے کو استعمال کرتے ہیں ‘وہ باخبر ہوں گے کہ کس طرح قسم قسم کے مضامین اور حوالے دیتے ہوئے پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ چین‘ پاکستان پر اپنا تسلط اور مکمل قبضہ جمانے کیلئے اتنی بڑی رقم بطورِقرض نہیں دینے جا رہا اوراس سلسلے میں سری لنکا کی بندرگاہ کی مثالیں دی جا رہی ہیں‘ یعنی جس طرف دیکھو ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے دیتے ہوئے ‘چین کے خلاف ذہنی طور پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔
چین نے اپنے قانونی حصوں ہانگ کانگ کیلئے لڑائی یا ان پر بزور طاقت قبضہ کرنے کی بجائے ‘جو وہ کر سکتا تھا ستر برسوں سے زائد انتظار کیا ۔تائیوان کی مثال سب کے سامنے ہے کہ امریکہ نے غاصبانہ جارحیت سے چین کے جنوبی حصے کی خشکی اور سمندری حصوں میں ایک فوجی چھائونی کی صورت میں چین کے مقابل ایک دوسرے بھارت کوکھڑا کیا ہوا ہے‘ لیکن وہ اس کے حصول کیلئے عملی لڑائی کی بجائے پر امن قانونی جنگ لڑتا چلا جا رہا ہے۔1960ء میں بھی بھارت کے پنڈت نہرو نے دنیا کو اپنی طاقت دکھانے اور امریکہ سمیت روس اور مغرب سے دولت اور اسلحہ کے پہاڑ کھڑے کرنے کیلئے چین کی سرحدوں پر حملہ کیا تھا ‘جبکہ چین نے کبھی ایسا اقدام نہیں اٹھایا۔امریکہ‘ برطانیہ اور بھارت سمیت چند دوست ممالک ‘اسی دن سے پاکستان کے ساتھ دو دو ہاتھ کرناشروع ہو گئے تھے‘ جب جنرل مشرف کے دور حکومت میں گوادر بندر گاہ کی تعمیر کیلئے چینی حکومت سے معاہدہ کیا گیا ۔سردار اکبر بگٹی‘ ڈاکٹر شازیہ خالد اور تحریک طالبان پاکستان‘ بی ایل اے‘ ایسے ہی یک لخت گولہ بارود کے انبار سنبھالے ہم سب پر حملہ آور نہیں ہو گئے تھے ؟کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کی ہر حکومت میں دوسری ایجنسیوں کے علا وہ امریکی سی آئی اے کے فعال اور سرگرم لوگ موجود ہوتے ہیں اور گوادر بندر گاہ کے بعد سی پیک کا وہ پیغام جو جنرل مشرف کے ساتھ طے پا چکا تھا‘ ان کی حکومت کے اندر موجود لوگوں نے واشنگٹن بھیج دیا تھا اور یہیں سے مشرف کا اقتدار ختم ہو نا شروع ہو گیا تھا۔ عدلیہ آزادی کی تحریک اور بے نظیر بھٹو کا این آر او ایسے ہی نہیں ہوا تھا‘ اسی طرح عمران خان کی آج کی حکومت اور اس کی کیبنٹ میں امریکی تنخواہ دار موجود ہیں( جن میں سے چند ایک کا مجھے علم بھی ہے) جو ایک ایک فیصلے سے اپنے مہربانوں کو با خبر کرتے جا رہے ہوں گے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا تین روزہ دورہ عوامی جمہوریہ چین میںجہاں دوسرے بہت سے علا قائی اور دفاعی معاملات کو سامنے لائے گئے‘ وہیں سی پیک کی افا دیت اور ایک ضامن کی حیثیت سے اس پر مختلف اطراف سے پھیلائے گئے ‘دھویں کو صاف کرنے کی کوشش بھی کی گئی‘ جو انتہائی منا سب اور پاکستان کے بہترین مفادات کی نگہبانی کے مترادف ہے۔میں نے انتخابات میں کامیابی اور حکومت بننے سے پہلے عمران خان کو اپنے ایک کالم میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' بڑے بڑے مشہور اور طاقتور اینکرز‘ جن کے متعلق کسی کو شبہ نہیں کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں؟WHO IS WHOانگریزی کے ان تین الفاظ کے سوا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب کبھی اکیلے میں تو کبھی گروپس کی صورت میں آپ کو دنیا کا سب سے بڑا لیڈر کہتے ہوئے ‘شہ دیں گے‘ غصہ دلائیں گے‘ اس طرح بات کریں گے ‘جیسے وہ جانتے ہیں کہ عمران خان سے زیا دہ طاقتور کوئی نہیں‘ ان میں اکثریت نواز شریف کے ارد گرد رہنے والے سیفما کے لوگوں کی ہو گی‘ جن کا ایک ہی مقصد ہو گا کہ آپ کو فوج کے مخالف کھڑا کیا جائے۔
یہ ففتھ جنریشن کی وار کے لفظ سے انتہائی گھبرائے ہوئے پریشان لوگ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے وزیر اطلاعات کی لاہور فلیٹیز ہوٹل میں کی جانے والی میڈیا ٹاک میں آپ تک سیفما اور نوازشریف کے سب سے اہم مہرے امتیاز عالم کا وہ سوال نہ پہنچا ہو‘ جس میں اس نے فواد چوہدری کو بر انگیختہ کرنے کیلئے کہا '' ہمیں تو ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ کہ وزیر اطلاعات آپ ہیں یا کوئی اور...‘‘۔اس در فطنی کا چوہدری فواد نے بہترین جواب دیتے ہوئے کہا ''ہم دونوں ایک ہیں‘ یعنی فوج اور عوام ایک ہیں‘‘۔ ان الفاظ سے امتیاز عالم کو وہ آگ لگی کہ غصے سے کانپنے لگا ۔میں چونکہ ان کے بالکل ساتھ بائیںہاتھ بیٹھا ہوا تھا‘ اس لئے ان کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو آسانی سے سن رہا تھا اور ان صاحب کی جمہوریت ور قانون کے احترام کا یہ حال تھا کہ سگریٹ پر سگریٹ اس طرح پیئے جا رہے تھے‘ جیسے وہ طلعت اور شاہ زیب کے ساتھ سرکاری خرچے پر لندن کی کسی بار میں بیٹھے ہوں۔
جب یہ مضمون لکھنے کی کوشش کر رہا تھا‘ تو عبد القیوم کنڈی کا انگریزی میں عمران خان کو سی پیک پر لکھا گیاخط ملا اور کہتے ہیں نا کہ '' میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ایک سچے اور پکے پاکستانی کا میرے دل میں اس قدر احترام ہے کہ شاید کوئی اندازہ نہ کر سکے‘ اسی لئے عبد القیوم کنڈی کے عمران خان کو لکھے جانے والے خط کا ایک ایک لفظ میرے دل میں رس بس چکا ہے۔ان کے ابتدائی الفاظ ہی دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہیں‘ جن میں عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا '' آپ اپنی ہر پریس کانفرنس اور ٹی وی ٹاک میں کہتے رہے ہیں کہ مغرب میں رہنے اور امریکہ میں کثرت سے گھومنے پھرنے کی وجہ سے وہ ان کے مزاج کو بخوبی سمجھتے ہیں‘ تو آپ کو یقینی طور پر علم ہو گا کہ امریکہ کالونیل ذہنیت کا مالک ہے‘ جبکہ چین اس ذہنیت سے مبرا ہے اور دونوں طاقتوں ٰ کی اس سلسلے میں اب تک کی تاریخ بھی سب کے سامنے ہے۔امریکیوں نے جب بھی کسی سے کوئی معاہدہ کیا ہے‘ کوئی مشترکہ پریس ٹاک کی ہے ‘تو انہوں نے کبھی دوسرے کو اپنے برا بر یا اپنے جیسا نہیں سمجھا ۔ان کا رویہ اپنے مہمان کے ساتھ تحکمانہ اور حاکمانہ رہتا ہے۔
Pompeo claimed that their cold war satellite PAKISTAN has agreed for a re-set and Fawad confirmed that we are willing to succumb to their wishes.
لیکن شرط یہ ہے کہ اگر امریکہ ‘آئی ایم ایف کو ہماری طرف ہاتھ بڑھانے کا اشارہ کرتا ہے۔ فواد صاحب ‘اگر آپ نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں‘ تو خود ہی سوچئے کہ کیا امریکہ آئی ایم ایف کو یہ اشارہ مفت میں دے گا؟کسی بھی نئی حکومت کی طرح عمران خان کا حق ہے کہ سی پیک کی آڑ میں سستی شہرت اور اربوں روپے ڈبونے والے شریف برادران کے مرکز اور پنجاب میں کئے گئے بے سود اور دکھاوے کے منصوبوں میں اپنے ایجنڈے کے مطابق رد و بدل کرے اور چین نے بھی اس پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے‘ بلکہ چین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ(ایف ٹی اے) فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو بھی ریویو کرنے کو تیار ہے‘ جس سے پاکستانی ایکسپورٹرز کو چین کی وسیع مارکیٹ تک رسائی مل جائے گی۔
آخر میں عرض ہے کہ شکوک و شبہات یہ نہیں کہ عمران خان سی پیک کو رول بیک کرنا چاہتے ہیں‘ بلکہ نا جانے کیوں ایسے الفاظ استعمال ہوئے ‘ جس سے تاثر ابھرا کہ شاید نئی حکومت امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔امریکہ کو خوش کرنے سے پہلے عمران حکومت کو پومپیو اور دہلی مکا‘دو طرفہ اعلامیہ بھی سامنے رکھنا ہو گا‘ جس میں بلند لہجے میں کہا گیا کہ '' امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے سٹریٹیجک پارٹنر ہیں اورپاکستان ہمارا مشترکہ حریف ہے‘‘۔