تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     20-09-2018

ہم بھی کیا لوگ ہیں!

جو مہربان وزیر اعظم ہائوس کی فالتو لگژری گاڑیوں‘ ہیلی کاپٹروں اور بھینسوں کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ان چند کروڑ سے کیا مل جائے گا‘ ان عقل کے اندھوں کو کیا معلوم کہ اصل چیز پیسہ نہیں‘ اعتماد ہوتا ہے۔ اعتماد ہو تو پیسہ خود بخود کھچا چلا آتا ہے اور یہ قدم پیسوں سے زیادہ اعتماد کی بحالی کے لئے اٹھایا گیا۔ ماضی کی حکومتوں نے سرکاری خزانے کے ساتھ ساتھ عوام اور سرمایہ کاروں کا حکمرانوں پر سے اعتماد بھی ختم کر دیا تھا؛ چنانچہ نئی حکومت کے لئے پہلا کام اس اعتماد کی بحالی تھا اور یہ اسی وقت آئے گا جب حکمران پہلے اپنی سطح پر شاہ خرچیاں اور عیاشیاں بند کریں گے اور جب اوپر سے یہ عمل شروع ہو گا تو نیچے سیکرٹری سے ایس ایچ او تک سرکاری پیسوں سے دفتر میں چائے کے ساتھ پیسٹریاں اور سینڈویچ منگواتے ہوئے سو مرتبہ سوچیں گے۔ یہ عمران خان سمیت سبھی جانتے ہیں کہ ان گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں سے چالیس پچاس کروڑ ہی مل پائیں گے لیکن اس عمل کا مقصد دراصل اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں اور عالمی دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ نیا وزیر اعظم اور نئی حکومت دونوں ایک ایک پائی کی قدر کرتے ہیں اور اس کے ضیاع کو حرام سمجھتے ہیں۔ کفایت شعاری کی مہم کے نتیجے میں وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو وہ اعتماد حاصل ہو گا‘ جسے حاصل کرنے کی ماضی میں کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی اور اس لئے نہیں کی گئی کہ ماضی میں ٹیکس کے پیسے کو مالِ غنیمت کا درجہ حاصل تھا۔ آپ کبھی مری کا گورنر ہائوس ملاحظہ کریں جو عرب شہزادوں کی شاہ خرچیوں کو بھی مات دے گیا ہے۔ سابق حکومت میں اس کی تزئین و آرائش پر ساٹھ کروڑ خرچ کئے گئے اور کسی کو ڈوبنے کے لئے چلو بھر پانی بھی نہ ملا۔ دنیا بھر سے قیمتی ترین فانوس اور فرنیچر وہاں سجایا گیا حتیٰ کہ باتھ روم کے کموڈز کے اطراف میں سونے کی پلیٹیں لگا دی گئیں تاکہ رفع حاجت کو بھی شاہانہ بنایا جا سکے۔ آج جو کہہ رہے ہیں کہ نئی حکومت ڈیم کے لئے بھیک نہ مانگے‘ کیا وہ اس وقت بھنگ پی کر سوئے ہوئے تھے‘ جب گورنر ہائوس مری میں عوام کے کروڑوں روپے ضائع کیے جا رہے تھے۔ کیا چند مہینے قبل تک پاکستان کا شمار چین یا امریکہ کے برابر ہوتا تھا جو یہ عیاشیاں جاری تھیں۔ کسی چیز کا ضرورت کے تحت استعمال اور چیز ہے۔ ماضی میں وزرائے اعظم اور ان کی فیملیاں سرکاری املاک‘ سرکاری گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال یوں کرتی تھیں‘ جیسے نیا نیا کوئی ملک فتح کیا ہو۔ کیا لاہور سے سری پائے اور دیگر چیزیں ناشتے کے لئے ہیلی کاپٹروں میں مری نہیں منگوائی جاتی تھیں؟ امریکہ کے دوروں میں سابق وزیر اعظم کیا درجنوں شیف اور اشیائے خورونوش کا قافلہ ساتھ نہیں لے جاتے تھے؟ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ عمران خان نے چونکہ کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا ہے‘ اس لئے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر درویش بن جائیں‘ اور بسوں کی چھتوں پر سفر کرنا شروع کر دیں۔ کفایت شعاری اور اسراف میں بڑا فرق ہے۔ کوئی بھی شخص وزرائے اعظم کے ہیلی کاپٹروں اور خصوصی جہازوں کے استعمال کے خلاف نہیں ہے؛ البتہ بے جا استعمال کے ضرور خلاف ہے۔ وہ جس عہدے پر ہیں‘ یہ ان کی ضرورت ہے۔ وہ کسی ایک یونین کونسل یا محلے کے نہیں بلکہ سات لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ملک اور بائیس کروڑ عوام کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ ہیلی کاپٹر کا استعمال اگر پھجے کے پائے منگوانے کے لئے کریں تو ضرور ان پر تنقید کریں‘ اگر وزیر اعظم کے بچے وزیر اعظم ہائوس میں اپنے دوستوں یاروں کو لا کر وہاں محفلیں سجائیں‘ ماضی کے ایک صدر کی طرح اسے شاہی شادی ہال بنا دیں تو ضرور ان پر تنقید کریں‘ وہ لگژری گاڑیاں اپنے دوستوں رشتہ داروں کے استعمال کے لئے کھلی چھوڑ دیں تو ضرور ان پر تنقید کریں‘ ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن اگر وہ اس ہیلی کاپٹر کو انتہائی محدود اور انتہائی ضرورت کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو پھر تنقید کا کیا جواز؟ فیس بک پر کسی بچے نے کیا خوب لکھا کہ 'عمران خان کی جگہ میں ہوتا تو ایف سولہ استعمال کرتا اور وقت بچا کر اس ملک کو جلدی جلدی آگے بڑھاتا‘۔ عمران خان نے ضرور کہا ہو گا کہ برطانیہ کا وزیر اعظم سائیکل پر جاتا ہے‘ لیکن اس ملک کے حالات عمران خان نے تو اس نہج پر لا کر کھڑے نہیں کئے کہ آج ایک منتخب وزیر اعظم تو کیا ایک سیاستدان کو بھی دہشت گردوں سے جان کا خطرہ ہے۔ عمران خان اس ملک کو برطانیہ اور کینیڈا جیسا بنانا ہی اس لئے چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم سے لے کر عام آدمی تک سب یکساں انداز میں زندگی گزاریں۔ ابھی ان کو آئے چار ہفتے نہیں ہوئے اور ہم ستر برسوں کی صفائی دیکھنے کے لئے بائولے ہوئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی جگہ مہاتیر بھی ہوتے تو سب سے پہلے اس ملک کی سمت درست کرتے۔ کفایت شعاری مہم اسی کا حصہ ہے۔ یہ کہنا سراسر بیوقوفی ہے کہ اس سے کچھ نہیں ہو گا اور خان صاحب پہلے معاشی پروگرام پیش کریں۔ جو کام پہلے کرنے کا ہے وہ پہلے ہی ہو گا۔ اگر خان صاحب پہلے معاشی پروگرام پیش کر دیتے تو انہی لوگوں نے کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہائوس میں تو سو گاڑیاں کھڑی کی ہوئی ہیں‘ خود تو گیارہ سو کنال کے وزیر اعظم ہائوس میں رہتے ہیں اور عوام کو معاشی خواب دکھا رہے ہیں۔ اب جب گھر سے احتساب کا آغاز کیا ہے تو یہ بھی ہضم نہیں ہو پا رہا۔ مجھے پہلے ہی یہ علم تھا کہ وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر پہنچیں گے تو سب سے پہلے ان کے طیارے پر تنقید ہو گی۔ بیمار ذہنیت کے ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس قدر متحرک ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے‘ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان سا متحرک حکمران اب تک کوئی نہیں آیا۔ ایسے لوگوں کو خان صاحب کی مصروفیات کیوں دکھائی نہیں دیتیں‘ جو اب تک کابینہ کے درجنوں اجلاس کر چکے ہیں‘ جو ہر پندرہ روز بعد قومی اسمبلی کے سیشن میں سوالات کے جوابات دیتے ہیں اور جو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس لئے نہیں گئے کہ ان چار دنوں میں ان کا بہت وقت ضائع ہو جاتا جبکہ ماضی میں ہر سال اس نمائشی دورے میں ڈمی صحافیوں سمیت دو دو سو افراد کا بھاری وفد لے جایا جاتا اور کروڑوں بے کار خرچ کر دئیے جاتے۔ وزیر اعظم نے وزرا کے غیر ضروری بیرونی دوروں پر بھی پابندی لگائی جبکہ ماضی میں وزیر اپنی فیملیوں تک کو بھی سرکاری دوروں میں ساتھ لے جاتے جو وہاں سرکاری خزانے سے شاپنگ کرنا کارِ خیر سمجھتیں۔
آج آپ باہر نکل کر دیکھ لیں‘ پورے ملک میں ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے اب کرپشن کرنا مشکل ہے‘ اب کرپٹ لوگ نہیں بچیں گے۔ گزشتہ روز نیب نے لاہور کی ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی میں کروڑوں روپے کے فراڈ پر چھاپا مارا تو میں بھی اس علاقے میں موجود تھا۔ میں نے خود لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ وہ سابق ادوار میں بھی اداروں کو درخواستیں دیتے رہے لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جنہوں نے ساری عمر کی جمع پونجی اور زیور تک بیچ کر پانچ مرلے کے پلاٹ کے پیسے جمع کرائے تھے‘ لیکن انہیں پلاٹ ملا نہ قبضہ۔ یہ لوگ پُر امید تھے کہ عمران خان کے دور میں ان کی سنی جائے گی کیونکہ نیا وزیر اعظم احتساب پر یقین رکھتا ہے‘ اسے عوام کے پیسوں کو اِدھر اُدھر کرنے اور لوٹ کر اثاثے جمع کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ دیگر سیاسی لیڈروں کے برعکس اسے کسی ادارے سے دس فیصد کمیشن درکار ہے نہ ہی اس نے لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں فلیٹس خریدنے ہیں۔ اس کے پاس قناعت کی دولت ہے جس کی قدر کم لوگ ہی جانتے ہیں اور یہ ایسی دولت ہے جس کے پاس آ جائے وہ مالا مال اور اس کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام اپنے لیڈروں کے بڑے کارناموں کی پذیرائی‘ اور چھوٹی موٹی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ہم عجیب قوم ہیں کہ خان صاحب کی کفایت شعاری‘ کرپشن کے خلاف مہم اور کڑے احتساب کے فیصلوں کو نظر انداز کر رہے ہیں‘ اور ان کے ہیلی کاپٹر‘ جرابوں اور شیرو پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved