مدتوں بعد اخبارات دیکھ کر طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ ہر اخبارکی ہر سرخی بہت ہی سریلی تھی مثلًا… ’’نیب اور سٹیٹ بینک نے نادہندگان کی فہرست الیکشن کمیشن کو دیدی۔ نواز، شہباز، احمد مختار سمیت درجنوں نام شامل۔ ’’نواز اور شہباز ڈیفالٹر اور سزا یافتہ ہیں۔ نیب نے الیکشن کمیشن کو اعتراض بھیج دیا‘‘۔’’شریف برادران 3.48 ارب روپے کے نادہندہ ہیں‘‘ نیب کی رپورٹ ’’نادہندگی کا الزام: نیب سیاست کرے نہ فریق بنے ۔ن لیگ کا انتباہ‘‘ ’’بے رحم سکروٹنی: سیاست پر کئی دہائیوں سے چھائے اہم نام مٹنے کا امکان‘‘ ’’نواز شریف صادق و امین نہیں۔ شہباز نادہندہ ہیں‘‘ مخالف امیدواروں اور نیب کے اعتراضات‘‘ \"NAB OBJECTS TO SHARIF BROTHERS CANDIDACY\" \"NAB TELLS ECP ABOUT SHARIF\'S RS 3.48 BILLION DEFAULT\" کیوں قارئین! ہیں ناں سریلی سرخیاں !خصوصاً جب انہیں جنرل کیانی کے اس بیان کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے کہ ’’شفاف الیکشن اور امن و امان کیلئے ہرممکن تعاون کرینگے‘‘۔ شاید…شاید…شاید قبولیت کی کوئی گھڑی تھی جب میں نے گزشتہ کالم سپردقلم کیا جس کا عنوان تھا ’’انتخابی سرکس‘‘ پلیز مجھے اجازت دیں کہ میں 5 اپریل بروز جمعہ شائع ہونے والے اس کالم کے کچھ حصے ری پروڈیوس کرسکوں۔ عرض کیا تھا: ’’الیکشن کمیشن نے سچ مچ کی خیرخواہی کرنی ہے تو ننھی منی رنگین آرائشی مچھلیوں کا شکار چھوڑ کر مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالے کہ اگر اصغرخان کیس کے کردار بھی دندناتے پھرے تو کونسی ’’بے رحمی‘‘ اور ’’سکروٹنی‘‘؟ کیونکہ کمزوروں پر غصہ تو ہر کوئی افورڈ کر سکتا ہے۔ جعلی ڈگری والوں کی تو صرف ڈگریاں جعلی ہیں جبکہ کچھ لوگ تو پیداوار ہی جعل سازی کی ہیں جسے ثابت کرنا بھی چنداں مشکل نہیں سو ’’انتخابی لانڈری‘‘ کو چاہیے کہ سینکڑوں ، ہزاروں ، لاکھوں کی ریکوریوںکے ساتھ اربوںروپے کی منی لانڈرنگ پر بھی غور کرے‘‘ مزید عرض کیا تھا: ’’یہ محاورہ بھی ناقابل فراموش ہے کہ……… \"THE ARM OF THE LAW NEEDS A LITTLE MORE MUSCLE\" پاکستان میں اس’’LITTLE MORE‘‘کو ’’MUCH MORE‘‘کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔ آرمی چیف کے بیان کے بعد ’’مسل‘‘ کے ’’MUCH MORE‘‘ ہونے میں قطعاً کوئی کسر نہ رہ جائے گی اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پاکستان اک نئے مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔ ’’NOW OR NEVER‘‘ والی سچوئشن ہے اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگرتمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر انصاف کیا گیا تو دہائیوں سے پھیلاہوا دہائیوں پر محیط گند صاف ہو سکتا ہے اور یہ قوم رہتی دنیا تک چیف آف دی آرمی سٹاف، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کو اپنے عظیم ترین محسنوں کے طور پر یاد رکھے گی۔ یہ تاریخ بنانے اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہنے اور 18کروڑ پاکستانیوں کو خون آشام عفریتوں سے نجات دلانے کا نادر ہی نہیں… آخری موقع ہے ؎ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی یہ موقع بھی مس کر گئے تو تاریخ ہی نہیں قدرت بھی ہمیں مکمل طور پر رائٹ آف کرکے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے گی۔ ملک کو ایک ہزار ایک طریقہ سے لوٹنے، نوچنے، کھانے، بھنبھوڑنے، نچوڑنے والے جس عفریت کی دم پر بھی پائوں رکھا گیا وہ بھرپور مزاحمت کرے گا۔ انصاف اور احتساب کو انتقام کہا جائے گا، سازش قرار دیا جائے گا۔ سیاست کا شاخسانہ بتایا جائے گا لیکن یہ کرنا ہوگا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اب…پاکستان بچالو یا یہ چند خاندان بچالو جنہوں نے اس ملک کو مختلف راجواڑوں میں بانٹ رکھا ہے۔ کیا کوئی ایک غیر ت مند پاکستانی بھی ایسا ہے جس کا یہ پڑھ کر خون نہ کھولے اور تن بدن میں آگ نہ لگے کہ… ’’شریف برادران کی سرکاری سکیورٹی پر ماہانہ دو کروڑ کے اخراجات، پنجاب پولیس کی چار شاخوں کے 761 اہلکار سکیورٹی خدمات انجام دے رہے ہیں‘‘۔ الامان و الحفیظ الامان والحفیظ الامان والحفیظ یہ پاکستان ہے یا حلوائی کی دکان، اوپر سے دعوے پارسائی کے کہ اس سے بڑا ظلم عوام پر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایکڑوں کے حساب سے سرکاری زمین پر سرعام قبضہ اور اس قبضہ کی حفاظت بذریعہ پولیس جس پر اس ملک میں دو کروڑ ماہانہ خرچ ہو رہاہے۔ جہاں کی 50 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے حشرات الارض کی طرح رینگ رہی ہے اور لوگوں کو دو وقت کی روکھی سوکھی بھی میسر نہیں… میں حیران ہوں کہ پنجاب کے ’’نگرانئیے‘‘ کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ یہ اندھے ہیں یا بے خبر؟ انہیں سابق حکمرانوں کے گھروں پر پولیس کے لشکر، گاڑیاں اور دیگر اللے تللے دکھائی نہیں دے رہے یا یہ دیکھنا نہیں چاہتے کہ کہیں ان کی آنکھوں میں ککرے نہ پڑ جائیں۔ کسی مہذب معاشرہ میں یہ بھیانک تضاد دکھائی دے تو لوگ دھجیاں اڑا دیں، چیتھڑے بکھیر دیں کہ ایک طرف بھوک سے بلکتے بچے اور دوسری طرف چند لوگوں کی سکیورٹی کیلئے 2 کروڑ ماہانہ کا خرچ؟ اگر 5000 روپے ماہانہ غربت الائونس دیا جائے تو دو کروڑ میں چار سو خاندانوں کو روٹی ملتی ہے اور اگر 2500 روپے ماہانہ دیا جائے تو 800 خاندان پیٹ بھر کر کھا سکتے ہیں۔ علی ہٰذالقیاس… یہی اللے تللے باقی جگہوں پر تو میں سچ کہتا ہوں کہ کچھ اور نہیں تو اس ملک میں بھوک ہی برابر بانٹ دو تو خدا کی قسم بھوکا کوئی نہ سوئے۔ اس ملک میں ہر کسی کی NEED کیلئے وافر ہے۔ لیکن چند خاندانوں کی GREED کیلئے پورا ملک بھی کھا جائیں تو کم ہے۔ ہر مگر مچھ کوجال میں اور ہر بدمست اونٹ کو پہاڑ کے نیچے لانا ہوگا ورنہ بچے کھچے پاکستان کے آگے سوالیہ نشان مزیدگہرا اور نمایاں ہو جائے گا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved