تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-09-2018

ایڈجسٹمنٹ

جب تک ہم دنیا میں ہیں تب زندگی ہے اور جب تک زندگی ہے تب تک سو طرح کے تقاضے ہیں۔ چند ایک تقاضوں کو نبھانے کا معاملہ کچھ دیر کے لیے مؤخر کیا جاسکتا ہے‘ تاہم بیشتر ایسے ہیں کہ جنہیں نبھائے اور نمٹائے بغیر چارہ نہیں۔ اگر آپ بھی محسوس کرتے ہیں کہ کچھ تقاضے نبھانے ہیں تو خود کو مظلوم یا مجبور محسوس نہ کریں‘ یہ قصہ تو سب کا ہے۔ آپ انوکھے ہیں ‘نہ مجبور و مظلوم‘ جو کچھ دوسروں کے حصے میں آیا ہے‘ وہی آپ کے مقدر میں بھی لکھا گیا ہے۔ 
دنیا کے ماحول اور انفرادی و اجتماعی سطح پر زندگی پر کا سب سے بڑا تقاضا ہے‘ ایڈجسٹمنٹ۔ کیا ہم یہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ دنیا میں قدم قدم پر تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور ہمیں بھی قدم قدم پر تبدیل ہوتے رہنا ہے؟ یہ ایسی حقیقت ہے ‘جو تقریباً ہر انسان جانتا ہے‘ مگر بیشتر ایسے ہیں‘ جنہیں اس کا احساس یا شعور نہیں۔ 
قدم قدم پر تبدیلی درکار ہے۔ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ہمیں کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہے کہ خود کو صورتِ حال سے ہم آہنگ رکھ سکیں۔ جو کچھ بھی تبدیل ہو رہا ہے‘ وہ ہمارے لیے عجیب ہوتا ہے۔ اور اگر ہم ایڈجسٹمنٹ نہ کریں تو ہر تبدیلی اپنی اصل سے زیادہ عجیب دکھائی دیتی ہے۔ ہر صبح طلوع ہونے والا سورج وہی ہوتا ہے‘ مگر ہم وہ نہیں رہتے۔ ہر روز دنیا بہت بدل چکی ہوتی ہے۔ بہت سی ایسی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہوتی ہیں جو ہم سے تبدیلی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ہمیں بدلتی ہوئی دنیا کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ اگر ہم تبدیل نہ ہوں‘ ایڈجسٹمنٹ نہ کریں‘ تو چند ایک معاملات میں پیچھے رہ جانے کا احتمال رہتا ہے۔ 
مگر جناب‘ ایڈجسٹمنٹ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ ہر تبدیلی دانش کے ساتھ ساتھ ایثار بھی طالب رہتی ہے۔ ہر تبدیلی کے لیے کسی نہ کسی سطح پر‘ کچھ نہ کچھ ترک کرنا ہی پڑتا ہے۔ اگر کچھ ترک نہ کرنا پڑے‘ تو تبدیلی کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہو؟ زندگی کا انتہائی بنیادی تقاضا ہے کہ ہم یومیہ اور طویل المیعاد دونوں ہی بنیادوں پر ایڈجسٹمنٹ کریں۔ ہمیں یومیہ بنیاد پر بہت کچھ اپنانا اور بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ ''پڑتا ہے‘‘ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ سب کچھ جبر کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسا سوچنا غلط نہیں۔ کچھ ہی لوگ ہیں جو اچھی خاصی مشق کے بعد اِس قابل ہو پاتے ہیں کہ ہر تبدیلی کو کھلے دل سے اور خوشی خوشی قبول کریں۔ اِسی مشق میں زندگی بسر کرنے کا فن مضمر ہے۔ سوال چاہنے یا نہ چاہنے کا نہیں ہے‘ جو بوجھ سر پر آن پڑا ہے‘ اُسے تو اٹھانا ہی پڑے گا۔ 
وقت کے ساتھ بدلنے اور ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی معقول راستہ ہے نہیں۔ وقت کا کام گزرنا ہے ‘سو گزر جاتا ہے۔ اگر ہم ایڈجسٹمنٹ کی راہ پر گامزن نہ ہوں تب بھی وقت گزر ہی جائے گا‘ مگر ایسی صورت میں خود ہمارے لیے کئی الجھنیں پیدا ہوں گی۔ ہمارے ایڈجسٹمنٹ کرنے یا نہ کرنے سے کوئی بھی زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ دنیا کی اصلیت پر ہماری سوچ کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوال ہمارے بدلنے کا ہے‘ دنیا کے بدلنے کا نہیں۔ 
بہت سے ذہنوں میں ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ایسی سوچ پائی جاتی ہے‘ جس میں تحفظات کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ ایڈجسٹمنٹ کا مطلب اصولوں پر سودے بازی ہرگز نہیں۔ ہمیں کسی بھی تبدیل شدہ صورت حال میں اپنے لیے کچھ نہ کچھ گنجائش پیدا کرنا ہوتی ہے۔ ایڈجسٹمنٹ کا مطلب ہے ‘میانہ روی سے قبولیت کی گنجائش پیدا کرنا۔ مگر یہ کام اس طور ہونا چاہیے کہ ہمارے بنیادی معاملات متاثر نہ ہوں۔ کسی بھی بدلی ہوئی صورت حال کے مطابق ‘ہمیں صرف اس قدر تبدیل ہونا ہوتا ہے کہ ہمارے بنیادی مفادات پر کوئی زد نہ پڑے۔ 
ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں جی رہے ہیں۔ اس صدی کی نمایاں ترین خصوصیت بیان کرنی ہے ‘تو صرف ایک لفظ کافی ہے۔ یہ ہے‘ ایڈجسٹمنٹ۔ آج معاملہ یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں انسان کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ آنکھیں اور کان کھلے رکھے۔ جو کچھ دیکھے اور سُنے اُسے سمجھے بھی‘ تاکہ اُس کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے معاملات کو درست کرنے کی طرف بھی مائل ہو۔ مختلف شعبوں کی انتہائی حیران کن ترقی نے چند معاملات کو انتہائی آسان اور چند کو انتہائی پیچیدہ بنادیا ہے‘ جسے معیاری زندگی بسر کرنی ہے اُسے اپنے ماحول میں تمام متعلقہ امور پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ ایسا کیے بغیر خود کو بدلتی ہوئی صورت حال کے شدید منفی اثرات سے بچانا ممکن نہیں ہوتا۔ 
ہمارے ہاں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایڈجسٹمنٹ سے ہمیشہ گریز کیا گیا ہے۔ عام آدمی ہو یا کوئی کامیاب انسان‘ چھوٹے موٹے ادارے ہوں یا حکومتیں ... سبھی نے حقائق سے یوں چشم پوشی اختیار کی ہے‘ جیسے صورتِ حال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا کوئی گناہِ کبیرہ ہو۔ 
جتنے بھی متعلقہ معیارات ہیں اُن کی روشنی میں جائزہ لیجیے‘ تو اندازہ ہوگا کہ آج کا پاکستان میں قدم قدم پر ایڈجسٹمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔ سوال اصولوں پر سمجھوتوں کا نہیں‘ بلکہ خود کو بدلتی ہوئی صورتِ حال میں زیادہ سے زیادہ relevant رکھنے کا ہے۔ دنیا جتنی تیزی سے بدل رہی ہے‘ ہم اُتنی تیزی سے نہیں بدل رہے۔ کم تبدیل ہونے سے ہماری زندگی کے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے! اس خسارے کا گراف نیچے لانے کا ایک ہی موثر طریقہ ہے ... تبدیلی‘ یعنی ایڈجسٹمنٹ۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم جدید ترین علوم و فنون میں زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کریں۔ اس کے لیے علم کے حصول کی لگن پیدا کرنا لازم ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ ہم علم سے یوں دور بھاگتے ہیں‘ گویا یہ کوئی ناقابلِ قبول یا ناپسندیدہ چیز ہو۔ اور عمل کے معاملے میں تو اس سے بھی ایک قدم آگے ہیں۔ ایسے میں کسی بڑی مثبت تبدیلی کی راہ ہموار ہو تو کیونکر ہو؟ 
اکیسویں کے دوسرے عشرے کے اختتامی مرحلے کا پاکستان آگے کیسے بڑھ سکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنا ہم سب کے لیے لازم ہے۔ پاکستان آگے اُسی وقت جاسکتا ہے جب ہم تبدیل ہوں‘ ایڈجسٹ کرنا سیکھیں اور جب ملک تبدیل ہوگا‘ آگے جائے گا تو ہم بھی اُس کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ہم وطن سے ہیں اور وطن ہم سے ہے۔ ایک طرف تو ہمیں ایڈجسٹمنٹ کا ہنر سیکھنا ہے اور دوسری طرف ریاستی مشینری کو عالمی برادری میں وقعت بنائے رکھنے کے لیے ایڈجسٹمنٹ کو حرزِ جاں بنانا ہے۔ کوئی بھی چھوٹی یا بڑی تبدیلی محض نعرے لگانے سے نہیں آتی۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم سمیت کوئی بھی پس ماندہ قوم پائی ہی نہ جاتی۔ بات گلی کی ہو‘ علاقے کی‘ شہر کی‘ ملک کی یا پھر عالمی برادری ... ایڈجسٹمنٹ نہ کرنے سے کوئی مر نہیں جاتا‘ ختم نہیں ہو جاتا۔ مگر ہاں‘ یہ ہنر نہ سیکھنے سے زندگی کا معیار اس قدر گر جاتا ہے کہ محض ذلت باقی رہ جاتی ہے۔ اپنی اصلاح پر صفر توجہ دینے والی قوم بھی زندہ تو رہتی ہے‘ مگر یہ زندگی موت سے بدتر ہوتی ہے۔ یہی کچھ انفرادی سطح پر بھی درست ہے۔ ایڈجسٹمنٹ کا ہنر سیکھے اور اُس کا اطلاق کیے بغیر ہم بہتر زندگی کی طرف تو کیا بڑھیں گے‘ اپنی بقاء بھی ڈھنگ سے یقینی نہیں بنا پائیں گے۔ 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved