تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     06-04-2013

رابطوں کے محافظ

ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کیا جائے یا اُن کا اعتراف کیا جائے، اِس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک غیر معمولی انسان تھے۔ ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے ؎ مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں اُن کو اِس دُنیا سے رخصت ہوئے34سال بیت گئے۔ یوں معلوم ہوتا ہے وہ آج بھی ہمارے درمیان ہیں۔ ہر روز کیا، ہر لمحے اُن کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی انہیں خراج عقیدت پیش کر رہا ہوتا ہے، تو کوئی اُن کے منفی اثرات بیان کرنے میں مگن ہوتا ہے۔ اُن کی سیاسی، سماجی، دفاعی اور معاشی پالیسیاں آج بھی زیر بحث رہتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ بھٹو صاحب کو پاکستان میں90فیصد تو کیا50فیصد افراد کی حمایت بھی حاصل نہیں تھی… اور اگر اس وقت کے پاکستان کو مدنظر رکھا جائے تو (مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کو ملا کر) وہ15سے20 فیصد ووٹروں کے نمائندہ قرار پائیں گے۔مشرقی پاکستان جو اُن دِنوں غالب آبادی کا صوبہ تھا، اس میں اُن کو ایک ووٹ حاصل ہوا نہ سیٹ۔ اُن کی نوزائیدہ جماعت نے وہاں کوئی امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا تھا۔ اِس کے باوجود انہوں نے اپنے وزن میں بھرپور اضافہ کیا اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہجوم اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔ روٹی، کپڑے اور مکان کی تلاش میں اُن کے ساتھ آمادہ ٔ سفر ہو گئے۔ پنجاب اور سندھ میں یہ بات ہر گھر کیا، ہر دل میں تھی کہ زرعی اصلاحات ہوں گی اور زمینیں بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں سے چھین کر اُن کاشتکاروں میں تقسیم کر دی جائیں گی، جو اِن پر اپنا پسینہ بہاتے اور (اِس سے اناج ) اُگاتے ہیں۔ مزدور کارخانوں کی ملکیت کے تصور سے مالا مال تھے اور نجی شعبوں میں کام کرنے والے ملازمتوں کے تحفظ کا خواب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے آزادی ٔ کشمیر کے نعرے کو بھی نئی توانائی بخش دی تھی، یہ تاثر بہت گہرا تھا کہ وہ بھارت کے جبڑوں سے خطہّ ٔ کشمیر کو چھڑانے میں کامیاب ہوں گے۔ اُن کا ایک گھونسہ دشمن کے جبڑے توڑ دے گا۔1965ء کی جنگ کے دوران انہوں نے ہزار سال جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر کے ایک نئی روح پھونک دی، تو اعلان ِ تاشقند کے بعد یہ یقین دلا دیا کہ ایوب خان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ، میز پر ہار دی ہے۔ وہ زخم خوردہ پاکستانیوں کو یہ اطمینان دِلا گزرے کہ وہ کشمیر کی آزادی تک جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ابو الکلام آزاد یا عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرح کے مقرر نہیں تھے، لیکن اپنی مثال آپ تھے۔ اُن کا انداز اُنہی کی ایجاد تھا۔ وہ لوگوں کے مسائل کا اِس طرح ذکر کرتے، اُن کے جذبات میں اِس طرح اپنے جذبات ملاتے، اُن کی آواز بن کر اس طرح گونجتے کہ سننے والوں کے دل میں اُتر جاتے۔ غربت اور غریب اُن کا خاص موضوع تھے، وہ ان کے ساتھ اپنے آپ کو کھڑا کرتے چلے گئے اور پسے ہوئے طبقات میں یہ احساس پیدا کر دیا کہ پاکستان اُن کی ملکیت ہے اور وہ اس پر اکڑ کر چل سکتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بے نظمی پیدا کر دی، لوگوں کو نعروں کا خوگر بنا دیا، وہ میٹھے پھل کے لئے صبر کرنے کے بجائے اسے فی الفور حاصل کرنے پر تُل گئے، لیکن یہ سکے کا ایک رُخ ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو مغربی حصے میں طاقت بن کر اُبھرے، لیکن قومی اسمبلی میں اکثریت (اکثریتی صوبے کی جماعت) عوامی لیگ کو حاصل ہوئی۔ مارشل لاء کے سائے میں دستور سازی کا مرحلہ درپیش تھا، متحدہ پاکستان کا دستور تیار نہ ہو سکا۔ مجیب اور بھٹو کے راستے الگ ہو گئے، بندوق حرکت میں آئی، پھر جو کچھ ہوا ، اسے دہرانے سے بھی ہَول آتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے باغیوں نے بھارت کی شہ پا کر، اُس کی فوجوں کے ساتھ مل کر اپنا جغرافیہ اور اپنی تاریخ الگ کر لی۔ دل کا داغ ماتھے کے داغ میں تبدیل ہو گیا۔ بھٹو صاحب مغربی پاکستان کو ’ نیا پاکستان‘ بنا کر اس کے حکمران بن گئے۔ مارشل لاء نے اپنا مُنہ شرم سے چھپا لیا۔ اِس صورت حال میں بھٹو صاحب کا کردار کیا تھا، اِس پر دو رائیں موجود ہیں، ان کو نہ بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے، نہ تنہا ذمہ دار۔ بہرحال نئے پاکستان میں نئی سیاست کی بنیاد ڈالی گئی۔ شملہ معاہدہ ہوا، جنگی قیدی واپس آئے، اتفاق رائے سے آئین تیار ہوا، پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد نے بوجھل فضا میں جگنو بکھیرے۔ بنکوں اور بڑی صنعتوں پر حکومت نے قبضہ کر لیا، زرعی اصلاحات ہوئیں، لیکن ادھوری سی۔ کسانوں کی تمنائیں سوکھی رہ گئیں۔ نتیجتاً بڑے بڑے زمیندار دندناتے رہے، لیکن صنعت کاروں کو لوٹ لیا گیا، سرمایہ کاروں کی دُنیا تاریک ہو گئی، وہ بھاگے اور جہاں سینگ سمائے وہاں سمٹ گئے۔ وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد سیاسی مخالفین کی طرف توجہ ہوئی، ان پر زندگی تنگ ہونے لگی۔ دھمکیاں، پابندیاں، گرفتاریاں سیاسی کارکنوں کا مقدر بننے لگیں۔ عدلیہ کا قافیہ تنگ کیا گیا، بلوچستان کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ تلخیاں بڑھتی گئیں، یہاں تک کہ بھٹو صاحب اور اُن کے مخالفین، ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ اول الذکر سب کچھ اپنی مٹھی میں کرنا چاہتے تھے اور ثانی الذکر مٹھی کھولنے پر تیار نہ تھے۔ انتخابات کی نوبت آئی تو دھاندلی کا شور مچا، شکایات کے انبار لگ گئے۔ احتجاجی تحریک چلی، لاٹھی چلی، گولی چلی اور پھر سرکار چلی گئی۔ بھٹو صاحب کا اقتدار ختم ہو چکا تھا۔ اُن کے ایک ساتھی نے اُن پر انہی کے دور اقتدار میں، اپنے والد کے قتل کی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ نشانہ بیٹے کو بنانا مقصود تھا، لیکن گولی باپ کو لگ گئی، بیٹا انتقام لینے کے لئے زندہ رہ گیا۔ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا، پھر سپریم کورٹ پہنچا اور بالآخر بھٹو صاحب کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔ ایک خوب صورت آغاز کا بھیانک انجام سامنے تھا۔ مخالفین میں سے کسی کی زبان پر حرف ِ تعزیت نہیں آیا، جبکہ حامی مارشل لاء کے آہنی پنجرے میں پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی آج بھی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اس کے قائد اب مفاہمت کی سیاست کے علمبردار ہیں، جس محاذ آرائی نے بھٹو صاحب کو تختۂ دار تک پہنچایا اور تنہا بنایا تھا، آج اسے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر کرنے میں کوشاں ہیں۔ اب بھٹو صاحب کے مخالف اُن کا نام سن کر غصے میں نہیں آتے، تو اُن کے حامیوں کے جذبات بھی پہلے جیسے نہیں ہیں۔ دھند چھٹ چکی ہے تو ان کو زیادہ بہتر طور پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے اور یہ بات بھی اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ، سیاسی عمل اور اہل ِ سیاست کسی بھی معاشرے میں پُل کا کردار ادا کرتے ہیں، یہ نہ ہوں تو فاصلے بڑھ جاتے ہیں، اُن کی حفاظت ہونی چاہئے کہ یہ رابطوں کے محافظ ہیں۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved