تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-09-2018

کربلا کے پیغام کو سمجھئے!

محرم الحرام‘ یزید کی ابدی ہلاکت اور امام حسین ؓ کی تا قیامت زیست کی یاد تازہ کرتا ہے۔ کربلا کا ذبیحہ عظیم دراصل دین اسلام کی کسوٹی تھا۔ مکہ اور مدینہ میں رسول اکرمﷺ کی نبوت کی گواہی دیتے ہوئے‘ جنہوں نے اسلام قبول کیا‘ تو ان کے ایمان کی پہلی کسوٹی غزوہ بدر میں رکھی گئی‘ جس میں صرف تین 313 مسلمان نبی کریمﷺ کے ساتھ میدان ِجنگ میں ساتھ نکلے۔اس کے بعد ایمان کی کسوٹی دیگرغزوات؛ احد‘خندق‘خیبر‘حنین اور صلح حدیبیہ ‘ فتح مکہ میں رکھی گئی اور ہر مشکل گھڑی میں قرآن پاک کی آیات مبارکہ میں بار بار اﷲ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ کس طرح منافقین جہاد میں شرکت سے بھاگنے کیلئے بہانے اور حیلے سازیاں کرتے ۔ میدان کربلا بھی ایک آزمائش کے ساتھ ساتھ ایمان کی کسوٹی تھا۔ بے شک نبی پاکﷺ کوباطنی طور پر علم تھا کہ سچا امتی کون ہے‘ لیکن دنیا کو حقیقت سے آشنا کروانا بھی ضروری تھا‘ کیونکہ بہت سے لوگ اس وقت تک بھی منا فق تھے‘ جن کے بارے میں قرآن پاک میں متعدد آیات مبارکہ موجود ہیں۔ اﷲ تبارک تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو سزا دینے کیلئے ان پر حجت قائم کرنا تھی ‘تاکہ جھوٹ اور سچ عیاں ہو جائے ۔
کربلا میں اہل بیت پر ظلم و بر بریت کی انتہا کرنے والوں اور آج ان کی حمایت میں دلائل کے انبار لگانے والوں کو قرآن پاک کی مباہلہ والی آیت یاد کیوں نہیں آتی‘جس میں مباہلہ کا چیلنج دینے والوں سے اﷲ نے اپنے محبوبﷺ سے کہا '' ان سے کہہ دو‘ آئو ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں‘ پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ڈالیں‘‘۔( سورہ عمران )
نبی پاک اپنے ساتھ صرف چار پاکیزہ شخصیات کو لے کر گئے اور پانچویں آپﷺخود تھے ۔عیسائیوںنے جب دیکھا کہ محمدﷺکی گود مبا رکہ میں امام حسینؓ‘ دست مبارک میں حضرت امام حسنؓ کا ہاتھ اور حضرت فاطمۃ الزھراؓ اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ‘آپﷺ کے پیچھے ہیں۔ اس وقت نبی پاک ﷺنے اپنے ہمراہ ان چاروں پاکیزہ شخصیات سے فرما یا کہ جب میں دعا کروں گا ‘تو تم سب نے آمین کہنا ہے۔ اس وقت نجران کے سب سے بڑے نصرانی عالم نے جب ان ہستیوں کو دیکھا توپکار اٹھا : اے جماعت نصاریٰ !آج میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ‘ اﷲ سے پہاڑ ہٹا دینے کی دعا کریں گے‘ تو اﷲ پہاڑ کو اس جگہ سے ہٹا دے گا‘ان سے کبھی بھی مباہلہ نہ کرنا‘ ورنہ سب ہلاک ہو جائو گے ۔
کیا آیت مباہلہ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ کہ یہ چار نورانی چہرے‘ اﷲ اور اس کے حبیبﷺ کو کتنے پیارے تھے اور انہی کو اﷲ نے قرآن پاک میں اپنے محبوب نبیﷺ کے بیٹے اور ان کی اولاد کہہ کر پکارا ہے ۔کیا دنیا میں اﷲ اور اس کی کتاب مقدس سے معتبر گواہی کوئی اور ہو سکتی ہے؟ کیا ہم سب قرآن کو ماننے والے نہیں؟کیاجو قرآن کا منکر ہو گا‘اسے مسلمان کہا جا سکتا ہے؟ یاد کیجئے کہ امام عالی مقام نے کربلا کے میدان میں یزیدی ٹولے کو اپنی جانب اشارہ کرتے ہو ئے کہا: دیکھو یہ تلوار کس کی ہے؟ میرے باپ علی مرتضیٰؓ کی ہے‘ یہ کمر بند میرے نانا محمد مصطفیٰﷺ کا ہے‘ سر پر باندھا ہو اکپڑا میری ماں فاطمۃ الزھراؓ کے ہاتھوں کا بنا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ میںاپنی جان بچانے کیلئے نہیں دکھا رہا‘ کیونکہ اگر مجھے موت کا خوف ہوتا ‘تو میں یہاں کربلا کے میدان تک اس طرح نہ آتا !
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بڑے منظم طریقے سے یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ معرکہ کربلا ‘اقتدار کی جنگ تھی‘ ایسے لوگوں سے صرف اتنا ہی کہنا ہو گا؛ اگر اقتدار کی جنگ ہوتی‘ تو مدینہ منورہ میں امام عالی مقام اپنی خلافت کا اعلان کردیتے اور لوگ جوق در جوق آ کر ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے‘ لیکن امام حسین ؓمدینہ کی سلامتی چاہتے تھے ۔کیا سب نے دیکھا نہیں کہ جیسے ہی اہل بیت پر ڈھائے جانے والے مظالم اورامام عالی مقام کی شہا دت کی خبریں مدینہ اور مکہ پہنچیں‘ تو لوگ یزید کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے‘ جس پر یزید کی فوجوںنے مدینہ اور مکہ کی مقدس مقامات اور لوگوں سے وہ سلوک کیا ‘جو اسرائیلی غزہ فلسطین اور بھارتی فوجی کشمیر میں کر رہے ہیں۔یزیدیت اسلام کے نام پر ایک بد نما داغ بن چکا ہے‘ جس سے کسی کو انکار نہیں۔بات وہاں سے بگڑنا شروع ہوئی‘ جب کچھ لاعلم اور مفاد پرستوں نے خلفائے راشدین کو اپنا اپنا مذہبی فرقہ بنا کر امت مسلمہ کی تقسیم کر تے ہوئے ‘تاجدار ختم نبوتﷺ کے دین کو کمزور کرنا شروع کر دیا اور یہ رسول اکرمﷺ سے بہت بڑی غداری ہے‘ جس کی سزا ہر ایک کو روزِ حساب سب کے سامنے ملے گی اور مل کر رہی گی۔ 
کچھ معترضین اور کم عقل لوگ سوال کرتے ہیں کہ امام عالی مقام ‘اگر حق کے امام تھے‘ تو اﷲ نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ایسے لوگ یاد رکھیں کہ معجزے نبیوں کے لیے ہوتے ہیں اور صاحب ولایت جو اولیا ء کا بلند ترین مقام ہیں ‘ان سے کرامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اﷲ ان کو میٹھا کھلائے یا کڑوا ‘یہ اس کی رضا میں خوش رہتے ہیں۔ یہ کڑوا بھی میٹھا سمجھ کر کھاتے ہیں ‘کیونکہ یہ ان کے طبیب کا تجویز کیا ہوتا ہے۔ امام عالی مقام‘ ارادہ خداوندی‘ حکم خداوندی اور فعل خداوندی کے علاوہ چوتھی چیز جانتے ہی نہیں تھے ‘ اسی لیے امام عالی مقام ارادہ خداوندی سے مدینہ منورہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور حکم الہیٰ سے میدان کربلامیں کھڑے رہے اور اپنے خاندان اور بچوں کو شہید ہونے کا یقین ہونے کے با وجود بھاگے نہیںاور اس وقت صرف فعل خداوندی پر آپ کی نظر تھی۔ جانثار صحابی رسول حضرت ابو ذر غفاریؓ کو نبی پاکﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر آگاہ کیا تھا کہ بے شک تم اﷲ کے بہت ہی پیارے بندوں میں سے ہو‘ لیکن افسوس سے بتا رہا ہوںکہ ربزہ کے تپتے صحرا میں تم اکیلے ہوگے اور بڑی کسمپرسی کی موت مروگے‘ اگر نبی پاکﷺ کو حضرت ابو ذر غفاریؓ کی موت کا علم تھا‘ تو کیا اپنے نواسے حسینؓ پر برپا ہونے والی کربلا سے وہ لا علم ہو سکتے تھے ۔
جتنے معجزے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سر زد ہوئے‘ کسی اور نبی سے نہیں ہوئے ‘ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام مردہ شخص کو زندہ کر دیتے تھے۔ پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو ہاتھ لگا کر بالکل ٹھیک کر دیتے تھے‘لیکن ان کا حال دیکھیں کہ جب منافق و مرتدیہودی سرداروں نے انہیں گرفتار کر کے شدید ترین اذیتیں دینا شروع کیں‘ تو یہی یہودی ان سے کہتے: ہم نے سنا ہے کہ تم مردے زندہ کرتے ہو‘اندھوں کو آنکھیں دیتے ہو؛ اگر تم سچے ہو تو ہمیں بھی دکھائو ‘ہم بھی آپ کو تسلیم کر لیں گے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے ان کے سامنے کوئی معجزہ سرزد نہ ہوا؛ حالانکہ آپ سراپا معجزہ تھے۔اس پر یہودیوں نے آپ کے ہاتھوں‘پائوں اور سر مبارک پر لمبے لمبے کیل ٹھونکے‘ لیکن اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے کوئی معجزہ نہ دکھایا۔ اب سوال ہے کہ وہاں معجزہ کیوں نہ ہوا ؟میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ایک لمحے کیلئے کسی معجزے کے متعلق سوچ بھی لیتے‘ تو وہ فوراََ رونما ہو جاتا‘ لیکن اس وقت ان کے ارادوں میں اﷲ کا ارادہ اسی طرح شامل ہو چکا تھا ‘جس طرح میدان کربلا میں امام عالی مقام پر ارادہ خداوندی وارد ہو چکا تھا ۔
الغرض کہنے کا مقصد‘ صرف اتنا ہے کہ کربلا کے پیغام کو سمجھیے کہ یزیدیت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شکست کھا چکی ہے ۔یزید تھا‘جبکہ حسینیت ہے اور رہے گی...!

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved