مظاہرِ فطرت کو دیکھتے ہوئے‘ کئی بار ایسی عجیب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ انسان گم صم ہو جاتاہے ۔ اسے یوں محسوس ہوتاہے ‘ جیسے اس کی زندگی ایک کبھی ختم نہ ہونے والے دھوکے میں گزر رہی ہے ۔ اس کی ایک مثال انڈونیشیاکے جنگلات میں رہنے والا کیڑا Atlas Beetle ہے ۔ اس کے جسم کی لمبائی پانچ انچ تک ہوتی ہے ۔ اس کے سر پر دو لمبے اور مضبوط سینگھ نما ہتھیار ہیں ۔ یہ کالا ‘ چمکدار اور بہت خوبصورت کیڑا ہے ۔ یہ ان جانداروں میں سے ہے ‘ جن میں اپنی سلطنت ‘اپنی ملکیتی جگہ (Territory)کا تصور بہت مضبوط ہوتاہے ۔ ان میں ہر نر کی ایک طے شدہ اور اعلانیہ جگہ(Territory) ہوتی ہے ۔ اس جگہ کے اندر اگر کسی اور نر نے قدم رکھنے کی جرات کی تو اس کے ساتھ ایک ایسی جنگ کا آغاز ہو جائے گا ‘ جس کا انجام دونوں میں سے کسی ایک کی موت ہو سکتاہے ۔ نر اٹلس بیٹل جب اپنی جگہ کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہتاہے‘ تو پھر مادائیں بھی اس مضبوط اور بہادر نر کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں۔ یوں اسے اپنی نسل بڑھانے کا موقع ملتاہے ۔ ہنسی کی بات یہ ہے کہ اس کیڑے کی کل ملکیتی جگہ ایک درخت پہ مشتمل ہوتی ہے ۔ جب انسان اس کیڑے کو ایک درخت کے لیے زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے دیکھتا ہے ‘تو اسے یہ سب کس قدر بے معنی‘ بلکہ مزاحیہ لگتا ہے ۔ انڈونیشیا کے جنگلات میں درختوں کی تعداد کم از کم لاکھوں میں تو ضرور ہوگی ۔ ان درختوں میں اس طرح کے کیڑے اپنی اپنی ''جائیدادوں ‘‘ پہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
دوسری طرف آپ درخت سے نیچے اتریں‘ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ درخت ایسے علاقے میں نصب ہے ‘ جسے ایک شیر نے اپنی ملکیت قرار دیا ہوا ہے ‘یعنی اس جگہ موجود تمام درختوں کا اصل مالک ایک شیر ہے ‘ جبکہ درخت پہ رہنے والے کیڑوں کی دنیا اس قدر چھوٹی ہے کہ انہیں شیر کی ملکیت کا علم ہی نہیں۔ اس شیر نے ایک بڑے گول دائرے کو اپنی سلطنت قرار دے رکھا ہے ۔ باقاعدگی سے وہ اس ریاست کی سرحدوں پر جا کر اپنے پنجوں اور پیشاب سے نشانات لگا دیتاہے۔ یہ نشانات دیکھتے ہی باہر سے آنے والے کسی بھی دوسرے درندے کو بخوبی معلوم ہوجاتاہے کہ یہ علاقہ کسی اور کی ملکیت ہے ۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنے قدم روک نہیں لیتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جارحیت کا مرتکب ہے ۔ وہ اس علاقے کی ملکیت پہ جنگ لڑنا چاہتاہے ۔ جیسے ہی مالک شیر کو یہ نیا درندہ اپنی سلطنت میں قدم رکھتا ہوا نظر آتا ہے ‘تو وہ پوری قوت سے بھاگتا ہوا اس کی طرف لپکتاہے ۔ دونوں میں ایک ایسی جنگ ہوتی ہے ‘جس میں کسی کی بھی جان جا سکتی ہے ۔ جن شیروں کے پاس اپنا علاقہ نہیں ہوتا‘ انہیں کوئی شیرنی منہ لگانا گوارا نہیں کرتی ۔
اب ایک لینڈ کروزر آ کر رکتی ہے ۔ اس میں سے ایک انسان اترتا ہے ۔ اس انسان کا کہنا یہ ہے کہ یہ علاقہ تو میری ملکیت ہے ۔ میں نے اسے خریدا ہے ۔ یہاں میری اجازت کے بغیر کوئی دوسرا قدم نہیں رکھ سکتا۔ جیسے ہی کوئی دوسرا شخص وہاں قدم رکھنے کی کوشش کرتاہے ‘ دونوں میں لڑائی شروع ہوجاتی ہے ۔ ایک طرف غنڈے بدمعاشوں کے ذریعے ایک دوسرے پر فائرنگ ہوتی ہے ۔ دوسری طرف عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگتے ہیں ۔حیرت انگیز طور پر ایک ہی علاقے کے ہر درخت پر رہنے والے کیڑے (Atlas Beetle)کو یقین ہے کہ یہ علاقہ اس کی ملکیت ہے ۔ اسی علاقے پر ایک شیر نے بھی اپنا حق ملکیت جتا رکھا ہے ۔اسے بھی اپنی ملکیت کا یقین ہے ۔ تیسری طرف اسی علاقے کو ایک انسان نے بھی اپنی ملکیت سمجھا ہوا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر کیڑے اور شیر کا دعویٰ باطل ہے تو انسان کا کیوں نہیں ؟
وقت گزرتا چلا جاتاہے ۔ چھ ماہ بعد کیڑا مر جاتاہے ۔ پندرہ سال بعد شیر مر جاتاہے۔ چالیس سال بعد انسان بھی مر جاتاہے ۔ اسی جائیداد کے نئے مالکان سامنے آجاتے ہیں ۔ انسان ایک کیڑے کو ایک علاقہ claimکرتا دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑتاہے ۔ دوسری طرف شک یہ پڑتاہے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ ہمارے اوپر کوئی اور ذات ہمارے claimsپر نہ ہنس رہی ہو۔
حقیقت میں جو ماجرا پیش آرہا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ ایک کیڑا‘ ایک شیر اور ایک انسان ‘ تینوں کرۂ ارض پہ پیدا ہوتے ہیں ۔ تینوں کھاتے پیتے ہیں ‘ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ تینوں بوڑھے اور بیمار ہو کر مر جاتے ہیں ۔اس میں سے میری ملکیت (رزق)صرف اتنی مٹی ہے ‘ جس کی اینٹ سے بنے ہوئے جس کمرے میں ‘ میں رہتا ہوں ۔ یہ ملکیت بھی عارضی ہے اور موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے ۔
زن ‘ زر اور زمین انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے قتل و غارت کی بنیاد بنتے رہے ہیں ۔اس زمین کے ایک ایک انچ پر لاشیں گرتی رہی ہیں ۔ جب کہ قبرستان ان لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں ‘ جن کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین ان کی ملکیت ہے ۔ ان میں اپنے اپنے علاقے کے زمیندار ہی نہیں بلکہ سکندرِ اعظم اور ہٹلر جیسے فاتحین اور سپہ سالار بھی شامل ہیں ‘ جن کا کہنا یہ تھا کہ یہ پورا سیارہ ہی ان کی مِلک ہے ۔ان میں کرنل قذافی جیسے حکمران بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے کئی دہائیوں تک اپنی اپنی سلطنت میں کوس لمن الملک بجایا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ زمین کسی کی بھی مِلک نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہاں ہمارا قیام صرف چند دہائیوں پہ مشتمل ہے ۔ ہم زمین اور اس کے اندر موجود وسائل پہ اپنا حقِ ملکیت ساتھ نہیں لے جا سکتے ۔ وہ ہمیں یہیں چھوڑ کر جانا پڑتا ہے ۔ آپ سر اٹھا کر اوپر دیکھیں ۔ چاند‘ مریخ اور ایک ایک سیارے پر بلین اور ٹرلین مربع کلومیٹرز بے کار پڑے ہیں ۔ بنجر زمینیں ‘ بارش نہ پانی ‘ ہوا نہ دانہ ء گندم ۔
جیسے ہم انسانوں کی نظر میں Atlas Beetle اور ایک شیر کا کسی زمین پر دعویٰ جھوٹ ہے ۔ اسی طرح ہمیں تخلیق کرنے والی ذات کے لیے ہم انسانوں کا زمین اور اس کے اندر یا اوپر موجود وسائل کا مالک ہونا بھی جھوٹ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب خدا نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی میں جس جس پتے‘ جس جس سیب‘ جس جس دانہ ٔ گندم اور پانی کے جس جس قطرے کو استعمال کرنا تھا‘ اس کا بندوبست کیا ۔ مخلوقات کے جسموں میں ایک دوسرے کا رزق رکھا ۔اس کا اندازہ اس طرح سے لگائیں کہ کچھوے ‘ مینڈک اور دوسرے بہت سارے جاندار ایک وقت میں 100 یا اس اسے بھی زیادہ انڈ ے دیتے ہیں ۔ ان میں سے دو چار ہی کو زندہ رہنا ہوتاہے ۔ باقی دوسری مخلوقات کا پیٹ بھرنے کے کام آتے ہیں ۔ انسان اور جو دوسرے جاندار مر جاتے ہیں ‘ وہ خوردبینی جانداروں کی خوراک بنتے ہیں ۔ یوں سب ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں ۔
زندگی کا یہ میلہ اس لیے سجایا گیا ہے کہ سوچنے سمجھنے والاصرف ایک جاندار(انسان ) اپنے اندر اور باہر خدا کی نشانیاں دیکھتی ہوئی اس تک پہنچ سکے ۔ ہمیں زمین پر اپنا یہ وقت ‘ اپنی یہ چھ سات دہائیاں بہتر انداز میں گزارنے کا مشن دیاگیا ہے ۔ باقی حقِ ملکیت تو صرف ایک جھوٹ ہے ۔ یہ صرف ہمارے ذہنوں کے اندر ہے ۔ حقیقت میں تو یہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔