تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-09-2018

دل ہی قابو میں نہیں، ہم کیا کریں!

ایک صدی کے دوران انسان نے فطری علوم و فنون کے حوالے سے جو فقید المثال اور حیرت انگیز ترقی کی ہے‘ اس نے تو جیسے جینا حرام کردیا ہے۔ کل کے انسان کو بہت سی بنیادی سہولتیں بھی ڈھنگ سے میسر نہ تھیں‘ مگر وہ بہت اچھی طرح جیتا تھا‘ معیاری زندگی بسر کرتا تھا۔ مجموعی طور پر پُرسکون تھا۔ دکھ اگر لاحق بھی ہوتے تھے تو بلا جواز نہ ہوتے تھے۔ آج کے انسان کو ایسی بہت سی سہولتیں میسر ہیں ‘جو کل بادشاہوں‘ بلکہ شہنشاہوں کو بھی میسر نہ تھیں۔ اس کے باوجود زندگی میں کچھ کمی سی لگتی ہے۔ ؎ 
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے 
پہلے تو کبھی جی کو یہ آزار نہیں تھے! 
اکیسویں صدی قیامت ڈھانے پر تُلی ہوئی ہے۔ کل تک انسان جن سہولتوں اور آسائشات کے بارے میں صرف سوچ سکتا تھا وہ اب سبھی کو میسر ہیں۔ آج کا انسان ہر معاملے میں برق رفتاری یقینی بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کے باوجود زندگی کا معیار بلند ہو رہا ہے‘ نہ قلب و نظر کو سُکون ہی مل پارہا ہے۔ سب کچھ مل جانے پر بھی دل سکون نہیں پارہا‘ ذہن متوازن نہیں۔ بہت کچھ مل جاتا ہے‘ مگر جو نہیں مل پایا‘ اُس کے نہ ملنے کا غم جان نہیں چھوڑتا۔ ؎ 
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے 
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی!
حواس پر قابو پانے کا ہنر بھی خوب ہے۔ دوسروں میں یہ ہنر دیکھتے ہیں تو رشک آتا ہے‘ مگر اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت ہم کم ہی گوارا کرتے ہیں کہ اس ہنر میں مہارت ہمارے لیے بھی اب لازم ہے۔ آج کی دنیا قدم قدم پر حواس کا توازن آزمانے پر تُلی رہتی ہے۔ اعصاب پر دباؤ ہے کہ گھٹنے کا نام نہیں لیتا‘ بلکہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ مسائل اتنے ہیں کہ گننے بیٹھیے تو گنتی کا نظام ختم ہوجائے‘ مسائل ختم ہونے کا نام نہ لیں۔ 
یہ سب کیوں ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جسے ہم نے اب تک پوری طرح درخورِ اعتناء نہیں سمجھا۔ ہم سب جیے جارہے ہیں اور مسائل سے بھی دوچار ہیں۔ مسائل ہیں تو ذہنی الجھنیں بھی ہیں۔ ذہنی الجھنوں کے ہاتھوں ذہنی و قلبی سکون غارت ہوچکا ہے ‘مگر ہم کبھی سوچتے نہیں کہ ہم پر جو کچھ بھی بیت رہی ہے وہ کیوں بیت رہی ہے اور اب نجات کی راہ کس طور نکلے گی۔ جب سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جارہی تو معاملات بہتر کس طور ہوں گے۔ زمانے کا چلن ایسا ہے کہ ہم موجِ ہوس میں بہہ رہے ہیں۔ بات بات پر بے حواس ہو جانا‘ ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ ساری خرابیاں کسی ایک یا چند معاشروں تک محدود نہیں۔ سب کا حال بُرا ہے‘ جس طور ٹیکنالوجی اور رجحانات عالمگیر ہیں اور سبھی کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں‘ بالکل اُسی طور بے صبری بھی عالمگیر ہے‘ کوئی اس کی دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ بے تابی تمام معاشروں پر محیط ہے۔ 
کیوں؟ سبھی کو راتوں رات نتائج درکار ہیں۔ کوئی بھی تحمل سے کام لینے کو تیار نہیں۔ ہم‘ آپ اور باقی دنیا ... یعنی سبھی چاہتے ہیں کہ جو بھی ہونا ہے پلک جھپکتے میں ہو جائے۔ گھریلو زندگی یا کاروباری معاملات‘ تعلیم کا میدان ہو یا ثقافتی محفل ‘ ہر جگہ اور ہر معاملے میں عجلت پسندی دامن گیر رہتی ہے۔ کچھ لوگ معاشی امور یا پیشہ ورانہ معاملات میں حد سے بڑھی ہوئی بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو معاشی سرگرمیوں میں تو پُرسکون رہتے ہیں‘ مگر گھریلو معاملات میں شدید الجھن پیدا بھی کرتے ہیں اور اُس کے ہاتھوں اذیت بھی جھیلتے ہیں۔ 
زندگی شدید عدم توازن سے دوچار ہے۔ ہر معاملہ اعتدال کی راہ سے ہٹ چکا ہے۔ دل پر اختیار ہے نہ ذہن پر۔ انسان نے ایسے اطوار اختیار کیے ہیں کہ اب ہر معاملہ بے طور سا دکھائی دیتا ہے۔ کیوں دکھائی نہ دے‘ جب اس کا اہتمام کیا جاتا رہے! ہم بہت سے مسائل کو دیکھتے ہیں‘ اُن کے اثرات کے بارے میں بھی جانتے ہیں‘ مگر اُن سے بچنے یا اُنہیں حل کرنے کا نہیں سوچتے۔ جب سوچتے نہیں تو ارادے کی منزل تک بھی نہیں پہنچتے اور ارادہ نہ ہو تو عمل کیونکر ممکن بنایا جاسکتا ہے؟ 
آج کے انسان نے بیشتر معاملات میں انتہا پسندی اختیار کر رکھی ہے۔ کبھی کبھی تو اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ کوئی اگر خود کو مظلوم سمجھنے پر آتا ہے تو ایسا محسوس کرتا ہے ‘جیسے دنیا بھر میں جتنے بھی مظالم ہیں وہ اُسی کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں۔ کوئی اگر خود کو اچھا سمجھنے پر تُلتا ہے‘ تو باقی تمام لوگوں کو اسفل السافلین کے درجے میں رکھتا ہے۔ یہ انتہاؤں کا سفر انسان کو اعتدال کی راہ سے بہت دور لے گیا ہے۔ کوئی اگر کچھ اچھا کرنے کا جذبہ محسوس بھی کرتا ہے‘ تو اس یقین کے ساتھ کہ دنیا میں صرف وہی اچھا ہے اور وہی دوسروں کو دکھوں کو نجات دلا سکتا ہے‘ کوئی اور نہیں۔ 
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے نواح میں ٹیلرنگ شاپ چلانے والے آدیش کھامرا کا یہی کیس ہے۔ وہ دن میں درزی ہوتا تھا اور رات کو قصائی۔ خدا جانے کیسے اُس کے ذہن میں خنّاس سماگیا ہے کہ ٹرک ڈرائیورز اور کلینرز انتہائی مصیبت بھری زندگی بسر کرتے ہیں‘ اس لیے اُنہیں نجات دلانی چاہیے۔ آدیش کا طریقِ واردات یہ تھا کہ ڈرائیورز اور کلینرز سے دوستی گانٹھتا تھا‘ اُنہیں کھلاتا پلاتا تھا اور پھر بے ہوش کرکے قتل کردیتا تھا! اس نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر 33 ڈرائیورز اور کلینرز کو قتل کیا اور یہ ''نجات دہندہ‘‘ ڈرائیورز اور کلینرز کو قتل کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کی اُن کی گاڑیوں میں لدا ہوا سامان ڈکار جایا کرتا تھا۔ 
ہمارے خطے میں ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ کسی نے اپنے بگڑتے ہوئے حالات کو سنوارنے کی معقول اور دانش مندانہ کوشش کرنے کی بجائے ادھار کا سہارا لیا اور پھر قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا کہ اس دلدل سے نکلنا ممکن نہ رہا اور ایسے میں موت کو گلے لگانے کے سوا کوئی آپشن بہتر نہ سمجھا گیا۔ 
بہت کچھ ہے ‘جو ہمارے بس میں ہے‘ مگر اُس سے ہٹ کر بہت کچھ ایسا بھی ہے‘ تو جس پر ہمارا ذرا بھی اختیار نہیں۔ کبھی حالات ہمیں اچھا خاصا فائدہ پہنچاتے ہیں اور کبھی بہت سی خرابیوں کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ حالات اچھے ہوں تو اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنا چاہیے اور بُرے حالات میں محض پریشانی سے دوچار رہنے کی بجائے بہتری کی راہ تلاش کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ 
ایک تو ہے کائنات کا نظام ‘جو چند اصولوں کے تابع ہے۔ سب کچھ اُن اصولوں ہی کے تحت ہوتا ہے‘ مگر انسان کا معاملہ ہی عجیب ہے۔ اُس کی طرف آنے والی بیشتر خرابیاں اُسی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کی طرف مائل ہونے کی بجائے وہ مظلومیت کا ڈھونگ رچاکر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتا رہتا ہے۔ کبھی زمانے کو بُرا کہتا ہے‘ کبھی حالات کی دہائی دیتا ہے۔ کبھی نظریۂ سازش کے سَر ہر الزام منڈھ دیتا ہے اور کبھی ''تاریک قوتوں‘‘ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ 
کسی بھی خرابی کیلئے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے اپنے وجود کی طرف ناقدانہ نظر سے دیکھنا اصلاحِ احوال کی طرف لے جاتا ہے‘ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کیلئے اپنے آپ کو ذمہ دار قرار دینا اصلاح کی طرف پہلا قدم ہے۔ ذہن کو لگام دینا اور دل کو قابو میں رکھنا ہے۔ حواس اور اعصاب کو بے ترتیب ہونے سے بچانا ہے۔ یہی اکیسویں صدی کا سب سے بڑا ہُنر ہے۔ جس قدر جلد یہ ہُنر سیکھ لیجیے آپ کے حق میں اُتنا ہی اچھا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved