تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-09-2018

مودی کی زوال پذیر مقبولیت

نریندر مودی کی حکومتی کارکردگی پر سری نواس تھرووانڈنتھائی نے ایک فکر انگیز تجزیہ کیا ہے ‘جو قارئین کے مطالعے کے لئے پیش خدمت ہے۔''بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے جو فقرہ عام استعمال کرتے ہیں‘ یہ ہے کہ' 'انہوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے معاشی اصلاحات کا سلسلہ ترک کر دیا ہے ‘‘۔ایک معروف تجزیہ کار نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''جب سے مودی نے اگلے سال بھارت میں ہونے والے انتخابات کے لئے تیاریوں کا سلسلہ شروع کیا ہے‘وہ لاطینی امریکہ کے معروف ڈرم بجانے والوں جیسا لگنے لگا ہے ‘‘ اور کاروبار دوست سیاست دان کی طرح نہیں‘ جیسا کہ وہ اپنی مہم میں ظاہر کیا کرتا تھا۔یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ مودی حکومت نے ریاست کی ملکیت انٹرپرائزز کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے سلسلے میں کیا گیا اپنا وعدہ ‘پورا نہیں کیا۔ اس کے برعکس نہ صرف ٹیکسوں میں اضافہ کیا بلکہ بہبودی سکیموں کو وسعت بھی دی۔ لیکن صرف ٹیرفس اور ریاست کی ملکیت کاروباروں کے بارے میں مودی کی سوچ یا رجحان کو پیش نظر رکھ کر کوئی تجزیہ یا فیصلہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ نہ صرف یہ کہ متعلقہ شعبوں میں اصلاحات کا عمل اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اس کا کوئی واضح فائدہ نظر نہیں آ رہا تھا بلکہ یہ صورتحال ان پالیسیوں کو نظر انداز کرنے کا باعث بھی بن رہی تھی‘ جو ایک صحت مند مارکیٹ پر مبنی معیشت کی پرورش کر سکیں۔ پھر ایک ایسے ملک میں جہاں لاتعداد لوگ غریب ہوں ‘ علاوہ ازیں فلاحی پروگرام صرف ناگزیر ضروریات پوری کرنے کے لئے بنائے جاتے ہوں اور حکومت کے تمام تر اخراجات اور خساروں پر چیک رکھا جاتا ہو‘ اسے بمشکل ہی مقبول کہا سکتا ہے۔ 
یہ بات درست ہے کہ 2014ء میں مودی کے منتخب ہونے کے بعد‘ بھارت کے ترقی کرنے کی رفتار بہت زیادہ تیز نہیں رہی‘ لیکن یہ ضرور ہے کہ بتدریج اصلاحات اور فلاحی تحفظ نے اس کی معاشی ترقی کی رفتار تیز کر دی تھی۔ اس طرح پچھلے 40برسوں کی نسبت غربت کی شرح میں کمی واقع ہوئی۔ اس تبدیلی نے معیشت اور سیاست دونوں کو زیادہ لچک دار بنا دیا اور کوئی وجہ نہیں کہ اب اس سے زیادہ کسی چیز کی توقع کی جا سکے۔ نجکاری کے معاملے کو ہی لے لیں‘ جس پر بحث کا آغا سب سے پہلے 1980ء کی دہائی میں ہوا۔ ان دنوں واشنگٹن اس بات کا تقاضا کر رہا تھا کہ کاروباروں پر سے ریاست کے کنٹرول کو ختم کیا جائے‘ تجارتی رکاوٹوں کو کم کیا جائے اور معاشی ڈسپلن کو فروغ دیا جائے۔ اس وقت بھارت کا پبلک سیکٹر بہت بڑا تھا۔ یہ کتنا بڑا تھا؟ اس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ یہ ملک کے غیر زرعی جی ڈی پی کا ایک تہائی تھا۔اس کے علاوہ تجارتی پابندیاں اور رکاوٹیں سخت تھیں اورمالی عیاشی بڑھتی جارہی تھی‘ جبکہ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں مرکزی حکومت کا مالی خسارہ مسلسل جی ڈی پی کے سات فیصد سے زیادہ جا رہا تھا۔
تیس سال بعد بھی بھارت کا پبلک سیکٹر انٹرپرائزز خاصے بڑے ہیں‘ لیکن ان کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس کا حصہ اب غیر زرعی‘ جی ڈی پی کا 14فیصد ہو گیا تھا۔ اب بھی اصلاح کی گنجائش موجود تھی‘ لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ مزید نج کاری پر سیاسی توانائی مرتکز کرنے کا کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں؟ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں‘ بورس یلسن کے زمانے میں روس میں ہونے والی نج کاری ایک نصیحت آمیز کہانی ہے‘ جس سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نج کاری کا وہ سلسلہ ریاستی اثاثوں کی سستے داموں فروخت اور روسی اشرافیہ کی آسودگی میں اضافے کا باعث بنا تھا۔ اگرچہ بعد میں روسی ریاست نے صنعتی شعبے پر اپنا کنٹرول بڑھانے کی کوشش کی‘ لیکن حالات اب تک خراب ہیں۔تجارت کے شعبے کی بات کی جائے تو پچھلی کئی دہائیوں میںبھارت ایک نسبتاً بند معیشت سے دنیا کی کھلی معیشتوں میں سے ایک بن گیا۔ بھارت کی تجارت کا کھلا پن درآمدات اور برآمدات کے جی ڈی پی سے تناسب سے ناپی جائے تو یہ 41فیصد بنتی ہے۔ یہ شرح دوسرے بڑے ترقی پذیر ممالک بشمول چین‘ سے زیادہ ہے۔ 1980ء کی دہائی میں بھارتی تجارت کا جی ڈی پی کے ساتھ تناسب آج کی نسبت بے حد کم تھا۔ یہی کوئی 15فیصد کے لگ بھگ۔
حال ہی میں مودی حکومت نے کچھ درآمدی اشیا پر ٹیرف میں اضافہ کیا ہے۔ کچھ لوگ اس عمل کو رجعت پسندانہ قرار دے رہے ہیں۔ ایسا قرار دینے والوں میں سابق ایڈوائزر ٹو ایڈمنسٹریشن ‘اروند پناگاریا بھی شامل ہیں۔لیکن یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بھارت‘ امریکہ اور برطانیہ کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے ‘جو سب سے زیادہ تجارتی خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔ ٹیرف میں حال ہی میں ہونے والا اضافہ‘ اس بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے ردعمل میں کیا گیا ہو سکتا ہے۔ ماہرین معاشیات تو یہ کہیں گے کہ برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنا‘ نہ کہ درآمدات کو روکنا‘ ہی درست پالیسی ہو سکتی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں پیداوار اور نمو کی سست رفتاری‘ گلوبلائزیشن اور سمندر پار رسائی کے معاملات اب ایک سطح مرتفع پر پہنچ چکے ہیںاور تجارتی تنائو میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں حکومت سے یہ توقع کرنا حقیقت پسندانہ نہیں لگتا کہ وہ برآمدات میں تیزی سے اور فوری طور پر اضافہ 
کرے۔ درآمدات میں اضافے کے رجحان کو بدلنے کے لئے ٹیرف بڑھانے کے علاوہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بھارتی روپے کی قدر میں اتنی کمی کر دی جائے تاکہ درآمدات مہنگی پڑیں اور برآمدات ارزاں۔یہ دونوں راستے سیاسی لحاظ سے بمشکل ہی قابل قبول ہو سکتے ہیں‘ لیکن ٹیرف والا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر عوامی بہبود کا معاملہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ بھارت جیسے جمہوری ملک میں‘ جہاں غریب عوام ووٹ ڈالنے کیلئے بڑی تعداد میں باہر نکلتے ہیں‘ کوئی بھی انتظامیہ‘ ان مسائل کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو عوام کو مشتعل کر دیں۔ دراصل مقبولیت کو اصلاحات کے متضاد سمجھ لینا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اصلاحات قبول نہیں کی جا سکتیں‘ اگر اس کے فائدے عوام تک نہ پہنچیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے عوامی سطح پر مقبول پالیسی جاری نہیں رکھی جا سکتی۔ 1981ء سے بھارت کی مرکزی حکومت نے دونوں راستے اپنائے رکھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے معاشی طور پر ترقی بھی کی اور اس کے ہاں پائی جانے والی غربت کی شرح میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی۔ 1981ء کے بعد کا زمانہ ہی وہ دور تھا‘ جب بھارت میںتیز رفتار ترقی کا آغاز ہوا ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اصلاحات کا عمل ایک طرح سے قبول کر لیا گیا اور جائز قرار پایا اور یوں انقلابی کمیونسٹ تحریکوں کا زور توڑنے میں بھی مدد ملی۔
ایک فلاحی مملکت کا سب سے نازک حصہ ‘ خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک میں‘ نااہلی ہے۔ مودی کی حکومت نے اس خامی پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس مقصد کیلئے ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے‘... یونیورسل بائیومیٹرک کارڈ... اس کے ذریعے حکومت اس قابل ہو جائے گی کہ چوریوں کو روک سکے اور صرف انہی لوگوں کو سبسڈیز دے‘ جو اس کے مستحق ہیں۔اس طرح فلاحی سکیموں کو وسعت دینے کے باوجود و و اس قابل ہو سکی ہے کہ لاگت کو پہلے جیسا رکھا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں پچھلے تین برسوں کے دوران‘ خسارے میں کمی آئی ہے۔ حاصل کئے گئے قرضوں پر واجب الادا سود کو ایک طرف کر دیا جائے تو حکومت کے پاس اب وافر سرپلس موجود ہے‘‘۔
____________

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved