تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-09-2018

گلستاں

اس گلستاں کو ہم نے جنگل بنا دیا۔ پھر سے گلستاں بنانا ہے تو بھولا ہوا سبق یاد کرنا ہوگا۔ صرف حکومت نہیں پورے معاشرے کو۔ 
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
لاہور کی سڑکوں پہ دن بھر تماشا تھا۔ سرگودھا یونیورسٹی کا کیمپس بند کرنے پہ طالب علم مشتعل تھے۔ کوئی دن پہلے نوجوان ڈاکٹروں نے ہنگامہ اٹھا رکھا تھا۔ وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ احتجاج رحیم یار خان کے افسوسناک واقعے پر ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ مطالبہ پہلے ہی مانا جا چکا تھا۔ پھر وہ ہڑتال پر کیوں تھے؟ لاچار مریض تو سب سے زیادہ ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیا اپنی قوّت کا مظاہرہ کرنے کے لیے؟ واحد اعتراض یہ تھا کہ مذاکرات کے لیے ڈاکٹر صاحبہ خود کیوں تشریف نہیں لائیں۔ خیریت گزری کہ بالآخر معاملہ طے پا گیا۔ 
سرگودھا یونیورسٹی والا معاملہ بھی سلجھایا جا سکتا ہے۔ کوئی راہ تو نکالنی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ قصوروار طلبہ نہیں‘ یونیورسٹی کی انتظامیہ ہے۔ اسی نے ان کو داخلے کے لیے مدعو کیا‘ پھر خود ہی ایک دن بساط لپیٹنے کا فیصلہ کیا۔ بدنظمی کا زیادہ ذمہ دار ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہے۔ ملک بھر کی سرکاری اور غیرسرکاری یونیورسٹیاں دوردراز کے شہروں میں اپنے کیمپس کھولتی رہتی ہیں۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل غیرقانونی ہے۔ تب قانون حرکت میں آتا ہے‘ پکڑدھکڑ شروع ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے پر کیوں نہیں۔ تمام اداروں‘ سارے ملک کا عالم یہی ہے۔ طاقتور ہمیشہ بچ نکلتے ہیں اور کمزور دھر لیے جاتے ہیں۔ جیل خانوں کا جائزہ لینے والے یہ کہتے ہیں کہ قیدیوں میں سے تقریباً آدھے بے گناہ ہیں۔ وہ اس لیے ابتلا میں ہیں کہ پولیس کو رشوت یا وکیل کو فیس نہ دے سکے۔ 
کئی دنوں سے ایک بزرگ پشتون شہری کا چرچا ہے‘ بیس سال سے جو زنداں میں پڑا ہے۔ معلوم ہی نہیں کہ اس کا جرم کیا ہے۔ پشتو کے سوا بیچارہ کوئی زبان نہیں جانتا۔ ترس کھا کر کسی نے اس کی فلم بنائی تو خلقِ خدا کو پتہ چلا۔ خدا جانے ایسے کتنے ہی بے گناہ عذاب میں مبتلا ہیں۔ کوئی ان کی سننے والا نہیں۔ کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں۔ ایک ایسا معاشرہ استحکام اور قرار کیسے پکڑ سکتا ہے جس میں کسی بھی وقت کوئی بھی عتاب کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: اللہ اس بستی کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں‘ جس میں کوئی بھوکا سو رہا۔ عالی جنابؐ کے اس قول کا اطلاق غالباً ان بے گناہوں پر بھی ہوگا۔
ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ زندگی آزادی میں پھلتی پھولتی ہے۔ انسانی صلاحیتوں کی کوئی حد نہیں۔ آدمی ہمیشہ نئے آفاق دریافت کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ مگر میدانِ ہمواربھی ہو‘ عام آدمی کے لیے راستے اگر تاریک ہوں اور خوف کارفرما رہے تو وہ سمٹ جاتے ہیں۔ محدود سے ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو تاریخ کے اس نادر حکمران فاروق اعظمؓ نے جنابِ سعد بن ابی وقاصؓ سے کہی تھی ''لوگوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا۔ کب سے تم انہیں غلام بنانے لگے‘‘۔
ابھی کچھ دیر پہلے برادرم حبیب اکرم نے Candles in the Dark نامی کتاب کے بارے میں بتایا۔ ایک دلچسپ سوال سے مصنف نے بحث کی ہے۔ اس معاشرے میں جہاں ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت ہے‘ کچھ مثالی ادارے وجود میں آئے ہیں اورپھل پھول رہے ہیں۔ مثال کے طور پہ‘ موٹروے پولیس‘ کراچی کا انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن اور لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز‘ معلوم نہیں بہت سے دوسرے اداروں کا مصنف نے ذکر کیا ہے یا نہیں۔ ''اخوت‘‘ ان میں شاید سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہے۔ پیر کی شام ورلڈ اکنامک فورم میں‘ جس کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کو سالِ رواں کا شواب (Schwab) ایوارڈ پیش کیا گیا۔ دنیا بھر سے 600 وفود اس موقع پر جمع ہوئے۔پاکستان‘ ''اخوت‘‘ اور اس کے بانی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریز سمیت‘ حیرت سے لوگ پوچھتے رہے کہ یہ کارنامہ آپ نے کس طرح انجام دیا۔ سود کے بغیر اربوں روپے کے قرض کیسے جاری ہوئے‘ کیسے واپس ملتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ آکسفرڈ یونیورسٹی سمیت‘ ایک کے بعد دوسرے ادارے کی طرف سے انہیں دعوت مل رہی ہے۔ وہی سوال کہ صدیوں سے سودی کاروبار کی خوگر دنیا میں یہ معجزہ کس طرح رونما ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سے میں نے کہا: ڈنڈی مارنے پہ وہ تلے نہ رہے تو انشاء اللہ نوبل پرائز بھی آپ کو مل جائے گا۔ اس پر وہ ہمیشہ کی شرمیلی ہنسی ہنسے اور کہا: اللہ کی رضا حاصل ہو جائے تو اور کیا چاہیے۔ 
لطیفہ یہ ہے کہ ٹھیک اس وقت جب ششدر کھڑی ساری دنیا خراج تحسین پیش کر رہی ہے‘ پنجاب حکومت سے کہا گیا ہے کہ ''اخوت‘‘ سے تعاون ختم کردیا جائے۔ جاری قرضے واپس طلب کیے جائیں۔ میاں محمد شہبازشریف نے اس کا ڈول ڈالا تھا اور بلاشبہ یہ ان کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ اسی سے رہنمائی پا کر وفاقی حکومت‘ آزاد کشمیر حکومت اور قبائلی پٹی کے لیے‘ گورنر پختونخوا نے بھی ایسے ہی پروگرام آغاز کیے۔ ایک قدم آگے بڑھ کر گلگت بلتستان کی حکومت نے امدادی رقم تیس ہزار سے بڑھا کر پچاس ہزار کردی۔ مدتوں سے مقامی آبادی کے لیے آغا خان فائونڈیشن کے امدادی پروگرام کا چرچا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ آغا خاں فائونڈیشن سے ان کے پروگرام کا تناسب کیا ہے۔ ایک ذرا سے اظہار فخر کے بغیر‘ منکسر مزاج آدمی نے کہا: کوئی تناسب نہیں۔ ''اخوت‘‘ سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ پنجاب حکومت یہ سلسلہ منقطع کیسے کر سکتی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مقابلے میں یہ کہیں ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس میں خیرات دی جاتی ہے۔ انحصار کرنے والے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی قوّت عمل کو حرکت نہیں دی جاتی۔ ''اخوت‘‘ کے قرض سے روزگار کے مواقع ارزاں ہوتے ہیں۔ روپیہ سب کا سب واپس آتا ہے۔ یقین ہی نہیں آیا کہ ایسی حرکت کا ارتکاب ممکن ہے۔ کاروبارِ سرکار میں لیکن آئے دن حادثے ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور کابینہ کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اگر ایسا ہوا تو فیصلہ واپس لینا پڑے گا۔ قومی صحافت اور فعال طبقات کبھی یہ گوارا نہ کریں گے۔ 
نکتہ یہ ہے کہ آزادی اور ڈسپلن ایک ساتھ بروئے کار آتے ہیں۔ بے مہار آزادی جنگلوں میں ہوتی ہے‘ بستیوں میں نہیں۔ قانون کی عمل داری کارفرما نہ ہو تو آزادی طوائف الملوکی کو جنم دیتی ہے۔ طبیعتوں میں انتشار اور من مانی کو۔ ازل سے آدمی اس راز سے آشنا ہے۔ ریاست کا ادارہ اسی لئے وجود میں آیا تھا۔ آدمی نے ڈسپلن کی اہمیت کا ادراک کر لیا تھا۔ ریاست کے حق میں فرد کتنے ہی حقوق سے دستبردار ہوا کہ اسے تحفظ عطا ہو۔ اس نے ظلم سہے‘ زخم کھائے لیکن ریاست کے تصور سے دستبردار نہیں ہوا۔ خود اسلام میں ریاست اس قدر مقدس ہے کہ تمام فقہا اس پر متفق ہیں۔ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے۔ ادھر سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ چھوٹے سر والا ایک حبشی بھی تمہارا حکمران ہو تو اس کی اطاعت کرو۔ ظاہر ہے کہ یہ ریاست کی اطاعت ہے ایک فرد کی نہیں۔ ظاہر ہے کہ مراد اس حکمران سے ہے‘ جائز طریق سے جو چنا جائے اور جسے رائے عامہ کی تائید حاصل ہو۔
پاکستان اس بے مثال سیاسی مدبّر کی قیادت میں قائم ہوا جو ڈسپلن کا علمبردار تھا۔ جس نے'' ایمان‘ اتحاد اور ڈسپلن‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ قائداعظمؒ کی زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ وعدہ انہوں نے وفا نہ کیا ہو۔ ایسی سختی سے ڈسپلن کی وہ پابندی کرتے کہ گورنر جنرل ہائوس کے اخراجات کا ہر ماہ خود جائزہ لیتے۔ کابینہ کا اجلاس ہوتا تو تاخیر سے آنے والوں کی کرسیاں اٹھا دی جاتیں۔ کسی نے چائے پیش کرنے کی تجویز دی تو ارشاد کیا: وہ اپنے گھر سے چائے پی کر کیوں نہیں آتے۔ 
اس گلستاں کو ہم نے جنگل بنا دیا۔ پھر سے گلستاں بنانا ہے تو بھولا ہوا سبق یاد کرنا ہوگا۔ صرف حکومت نہیں پورے معاشرے کو۔ 
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved