تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     26-09-2018

چور نکلا تو دل

جو تھوڑی بہت زیادتی زندگی میں کی‘ وہ جگر سے ہوئی۔ جب فوج میں گئے تو تب کا کلچر ہی ایسا تھا۔ پہلی پوسٹنگ ملیر کراچی میں ہوئی۔ وہاں کچھ اور کرنے کو تو تھا نہیں بس ملیر کلب کی طرف چل دیتے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا کلب تھا اور بہت ہی خوبصورت۔ وسیع لان کے ایک کونے میں بیٹھ جاتے، گانوں کی فرمائش کرتے... کلب میں ایک گرامو فون تھا جس پہ ریکارڈ چلتے... اور پھر شب کی جو سلامی شرفاء اور گنہگاروں دونوں پہ لازم ہے‘ وہ فرض ہم بھی نبھاتے۔ 
یہ 1971ء کی جنگ سے پہلے کی بات ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس زمانۂ قدیم کی بات ہو رہی ہے۔ تب اسلوبِ شب صحیح طریقے سے معلوم بھی نہ تھے۔ کم علمی میں یا یوں کہیے کم تجربے میں اپنے پہ زیادتی بھی ہو جاتی۔ ایسے میں ظاہر ہے برداشت سب کچھ جگر کو ہی کرنا پڑتا۔ لیکن ستمِ حالات دیکھیے کہ اِس عمر میں دھوکہ جگر نہیں دل دے رہا ہے ۔ جگر قائم ہے‘ دل تھوڑا سا لڑکھڑا گیا ہے ۔ کئی سال پہلے دل نے لغزش دکھائی تو AFIC راولپنڈی جانا پڑا ۔ میجر جنرل اظہر کیانی نے معائنہ کیا ۔ ٹیسٹ ہوئے، دوا تجویز کی گئی اور چونکہ جنرل صاحب جہاندیدہ آدمی ہیں‘ اُنہوں نے یہ پابندی لگائی کہ اسلوبِ شب ہفتے میں تین بار سے زائد نہ ہوں ۔
جنرل صاحب کی تجویز کردہ دوا باقاعدگی سے لی ۔ یہ بھی احساس دل میں بٹھایا کہ اَب احتیاط لازم ہے ۔ کچھ دیر تو یہی صورتحال روا رکھی۔ لیکن کہاں نصیحت اورکہاں ہم فقیر ۔ وہ تین بار کی پابندی ٹوٹتی گئی۔ کبیر داس کی وہ بات یاد آئی ''رِندی، حُسن پرستی، مَستی، شُغل یہی ہے برسوں سے... پیر کبیر ہوئے تو کیا ہے چھوٹے ہے معمول کبھی ‘‘۔ پھر اسلوب ایسے ہوئے جیسے کبھی کوئی بیماری لاحق ہوئی نہ تھی ۔ لیکن حساب چکانے کی دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں ۔ ایسا ہی ہوا اور حالیہ دنوں میں دل کی بے وفائی کے کچھ آثار سامنے آنے لگے ۔ جنابِ علامہ صدیق اظہر سے رجوع کیا کیونکہ وہ دل کی کمزوریوں سے عرصۂ دراز سے آشنا ہیں ۔ وہ سیدھا پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے گئے ۔ اَب ایک آدھ ٹیسٹ ہوا ہے ، مزید ہونے ہیں ۔ لیکن بات واضح ہو چکی کہ جس دل پہ اِتنا گمان تھا وہ ایسا نہیں رہا۔ یونہی مسئلہ چل جائے گا یا کچھ پیوند کاری کرنے کی ضرورت پڑے گی؟ وہ تو تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ البتہ یہ واضح ہو چکا کہ جہاں فکر جگر کی تھی کمزوری دل نے دکھا دی ۔ اردو میں اسے پتہ نہیں کیا کہتے ہیں لیکن انگریزی کا لفظ موجود ہے... irony۔ جس کیفیت سے گزرنا پڑ رہا ہے اِس سے بڑی irony کیا ہو سکتی ہے؟
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے آشنائی کچھ دن پہلے ہی ہوئی تھی جب چکوال کے ہمارے دوست شاہد عباسی وہاں داخل تھے۔ آئی سی یو میں تھے اور مدہوش۔ سارا منظر ہی وہاں کا ایسا تھا کہ قیامت یاد آ گئی۔ سارے کے سارے مریض بے بس و لاچار۔ میں کچھ دیر بستر کے سامنے کھڑا رہا اور بے اختیار یہ خیال آیا کہ زندگی کتنے نازک دھاگے سے بندھی ہوتی ہے۔ توانا ہو تو انسان سمجھتا ہے کہ وہ لافانی ہے۔ کچھ ہو جائے تو بے بسی کے پیکر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ صرف آئی سی یو کا حال نہیں ہے ۔ اِس ہسپتال میں پورے لاہور اور دیگر علاقوں سے بھی مریض آتے ہیں ۔ اَب تو میرا شام کو بھی وہاں جانا ہوا ہے ۔ کتنا بوجھ اس ہسپتال پہ ہے۔ مریضوں سے کھچا کھچ بھرا رہتا ہے۔ میں سوچنے پہ مجبور ہوا کہ یہ ادارہ نہ ہوتا تو مریض کہاں جاتے؟ جس کسی کی کاوشوں سے یہ ادارہ بنا ہے اور جو ڈاکٹر صاحبان ، نرسیں اور دیگر‘ اِسے چلا رہے ہیں وہ سب جنت کے حقدار ہیں ۔ اِن سب کیلئے بغیر کسی سوال و جواب کے بہشت کے دروازے کھل جائیں گے۔ دُکھی انسانیت تو ایک محاورہ بن کے رہ گیا ہے۔ لیکن دُکھی انسانیت کا نظارہ دیکھنا ہو تو شام کے وقت PIC کا دورہ کرنا چاہیے۔ یہی دنیا اور وجود کا نرالا پن ہے ۔ شام ہر جگہ ایک ہی ہوتی ہے‘ لیکن یہ قسمت اور حالات کا کھیل ہے کہ کہیں شام ملیر کلب کے خوبصورت لان میں ڈھلتی ہے اور کہیں PIC کے وارڈوں میں۔ 
زیادہ عمر کے لوگوں کی تو الگ بات ہے۔ جب زندگی کے تماشے سے گزر چکے تو یہ پھر اتفاق ہوتا ہے کہ انسان کسی ہسپتال میں پہنچے یا کسی اور حادثے کا شکار ہو جائے۔ لیکن جوانی کی اور بات ہے۔ چونکہ اب وہاں ایک دو دفعہ جانے کا اتفاق ہوا ہے تو کئی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی دیکھا‘ جن کے چہروں پہ اُداسی چھائی ہوئی تھی۔ ہم جیسوں نے تو گویا دل کی بیماری خریدی ہے ۔ یعنی جو کچھ بویا اُس کا کچھ نہ کچھ صلہ تو حاصل کرنا ہی تھا ۔ لیکن جنہوں نے زندگی کی دہلیز پہ قدم رکھا ہی ہو اور وہ بے بسی کا شکار ہو جائیں تو اُسے المیہ یا ٹریجڈی (tragedy) ہی کہا جا سکتا ہے ۔ 
اِ س سے بھی کوئی بڑی ٹریجڈی ہے تو یہ کہ جو ملک اپنے آپ کو مملکتِ خداداد کہے وہ دُکھی اور لاچار انسانیت کی صحیح دیکھ بھال نہ کر سکے۔ پورے پنجاب میں PIC جیسے کتنے ادارے ہیں؟ راولپنڈی میں دل کے مریضوں کا ایک انسٹیٹیوٹ بنا ہے جس کی سربراہی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل اظہر کیانی ہی کر رہے ہیں ۔ افواج کا اپنا AFIC ہے ۔ شاید ملتان میں کوئی ادارہ ہو۔ لیکن جس پیمانے پہ علاج معالجے کی سہولیات ہونی چاہئیں وہ یہاں نہیں۔ میں تو کہوں گا کہ جو لوگ PIC یا راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچ پاتے ہیں وہ خوش قسمت ہیں ۔ نہیں تو لاکھوں انسانوں کو یہ بیماریاں ہوتی ہیں اور وہ کسی علاج کی صحیح جگہ جا نہیں سکتے ۔ غربت کی مار کہیے یا وسائل کی کمی ۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ دیہاتوں میں لوگوں کو ایسی بیماریاں ہوتی ہیں تو اُن کی پہنچ صرف چکوال جیسے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تک ہوتی ہے ۔ آگے کہیں جا نہیں سکتے ۔ اور کئی جو ڈاکٹر صاحبان ہوتے ہیں‘ خدا کی پناہ ، اُن کے رویوں سے تو یوں لگتا ہے کہ وہ فارغ التحصیل کسی میڈیکل درسگاہ سے نہیں بلکہ کسی قصاب خانے سے ہوئے ہیں ۔ 
کیوبا جیسا ملک ہماری نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ بیشتر لوگ اُس کی تاریخ اور اُس کے قومی تجربات سے ناواقف ہیں ۔ لیکن وہ ایک ایسا ملک ہے جہاں پہ کمیٔ وسائل کے باوجود تعلیم اور صحت کا نظام بہت سے امیر ملکوں سے بہتر ہے ۔ پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہے ۔ صحت کا نظام بہت ترقی یافتہ ہے اور وہ بھی مفت۔ بڑے سے بڑے علاج کیلئے ایک دھیلا نہیں دینا پڑتا ۔ اسلامی ملک کا لقب دینا چاہیے تو کیوبا کو ۔ ہم نے تو ہر شعبۂ زندگی کو تقسیم کر دیا ہے ، تعلیم سے لے کر نظام صحت تک ۔ ایک طرف مہنگے ترین پرائیویٹ سکول و کالج اور ہسپتال ۔ دوسری طرف سرکاری پیسوں پہ چلنے والی درس گاہیں اور ہسپتال، جن کی حالت وہ نہیںجو ہونی چاہیے۔ PIC جیسا ادارہ تو غنیمت ہے ۔ ہر کوئی وہاں جا سکتا ہے ۔ پیسے ہیں تو پیسے بھی دیں لیکن نادار لوگوں کیلئے مطلوبہ سہولیات بھی ہیں۔ قومی دولت کہاں جا رہی ہے؟ شادی ہالوں کی تعمیر پہ یا رئیل اسٹیٹ میں۔ آئے دن اخبارات نت نئی ہاؤسنگ سکیموں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں ۔ لگتا یوں ہے کہ اِس ملک میں یہی دو کاروبار ہو رہے ہیں۔ 
کون اِن حالات کو بدلے گا یہ تو رونا رہے گا ۔ فی الحال ملال کی بجائے دل پہ تھوڑا سا افسوس ہو رہا ہے ۔ کچھ تو ہمت دِکھائی ہوتی کہ ہم بھی مشہور گائیکہ ثریا کی طرح یہ کہہ سکتے ''دل پہ تو ناز تھا ہمیں، گھونٹ لہو کے پی گیا‘‘۔ ہمارا دل کچھ زیادہ نہ سہہ سکا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved