1980-88ء کی جنگ کے آغاز کا دن منانے کے لیے ہفتہ 22 ستمبر کو ایران کے تیل سے مالا مال صوبے خوزستان کے دارالحکومت اہواز میں منعقد ہونے والی ایران کی سرکاری ایلیٹ فورس 'پاسداران انقلاب‘ کی فوجی پریڈ پر ہونے والی دہشت گردی میں 29 افراد جاں بحق ہو گئے‘ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ ایران میںکئی سالوں بعد‘ خصوصاً اس کے سب سے مقتدر ایلیٹ فوجی دستے پر ہونے والا سب سے سنگین حملہ تھا۔ فوجی وردیوں میں ملبوس بندوقوں سے لیس چار افراد نے پاسداران انقلاب کے جوانوں اور سامعین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس حملے کی ذمہ داری ایک طرف داعش اور دوسری جانب خوزستان کی علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم 'مقاوت ملی اہواز‘ نے قبول کی ہے۔ اہواز گروپ کے نمائندے یعقوب ہورالتوستاری نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بیان دیا ''اس دن (یہ گروہ) دنیا کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ یہ گروہ مضبوط اور حالات پر قابو رکھتا ہے‘‘۔ یہ تحریک کئی سالوں سے متحرک ہے‘ اور اس کا مقصد ایران کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر رکھنے والے صوبے خوزستان کو ایران سے کاٹنا ہے‘ جو صدام حسین کی بنیادی منصوبہ بندی تھی۔ یہ اپنے آپ کو عرب قوم پرست کہتے ہیں‘ کیونکہ اس صوبے میں عرب اہوازی آبادی ایک بڑی اقلیت ہے۔ ان کے قریبی تعلقات کئی دہائیوں سے سرگرم ایران میں بڑے حملے کروانے والی تنظیم ''مجاہدینِ خلق‘‘ سے ہیں جس کے بانی مسعود رجاوی اور مریم رجاوی ہیں۔ یہ پہلے صدام حسین کی زیر کفالت تحریک تھی جسے بعد میں دیگر ایران دشمن حاکمیتوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی۔ دوسری جانب اہوازی عربوں کی ایک بڑی تعداد آزاد اور خود مختار ریاست خوزستان چاہتی ہے۔ تیل کے بھاری ذخائر کے ساتھ خلیج فارس کے دہانے پر ہونے کی وجہ سے اہواز کی جغرافیائی اور اقتصادی حیثیت کافی اہمیت کی حامل ہے لیکن ایران کے فوجی ترجمان ابوالفضل شکارچی نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ''یہ حملہ نہ تو داعش نے کروایا ہے اور نہ ہی یہ (ایران کے) اسلامی نظام کے خلاف لڑنے والے دوسری گروپوں کی کارروائی ہے‘ بلکہ اس حملے کے تانے بانے امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے جا کر ملتے ہیں۔ حملہ آوروں کو دو خلیجی ریاستوں کی مالیاتی امداد اور تربیت کے ذریعے منظم کیا گیا تھا‘‘۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے ''اس کے مجرم اس خطے میں دہشت گردی کو تقویت دینے اور تربیت کرنے والے ممالک کے حکمران ہیں۔ ہم ان (حملہ آوروں) کے آقا کو بھی شامل جرم سمجھتے ہیں‘‘۔ ایران کے سپریم امام آیت اللہ علی خامنہ ای کے جاری کردہ بیان کے مطابق ''یہ جرم علاقائی ریاستوں کی مسلسل سازشوں کی پیداوار ہے اور یہ ممالک خود امریکی کٹھ پتلیاں ہیں‘‘۔ صدر حسن روحانی نے ایران کی جانب سے ''سخت ترین کچل دینے والی دھمکی دی ہے۔‘‘ ان تمام ایرانی لیڈروں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے کی صورتحال کتنی کشیدہ ہے اور مزید کتنے بڑے خطرات کے بادل خلیج فارس پر منڈلانے لگے ہیں۔ خلیج کی دوسری جانب سے آنے والے ردعمل نے صورتحال کو کہیں زیادہ تشویشناک کردیاہے۔ اس کا اندازہ ایک ٹویٹر سے لگایا جا سکتا ہے ‘ جس میں کہا گیا ہے کہ ایران کے جنوب مغربی شہر اہواز پر حملے میں 10 فوجی مارے گئے ہیں ، حملہ ایک فوجی ہدف پر کیا گیا ہے اس لیے دہشت گردی قطعاً نہیں ہے۔ ( ہم پہلے ہی) اس جنگ کو ایران کے اندر لے جانے کے امکان کا اعلان کرچکے ہیں۔ اگلے مرحلے میں ایسی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگا‘‘۔
جہاں ایرانی حکام نے اس حملے پر مذمتی اور انتقامی بیانات دیئے ہیں‘ وہاں سفارتی محاذ پر ڈنمارک، برطانیہ اور ہالینڈ کے سفیروں کو تہران میں وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ افسر نے بلایا اوران ممالک میں ان دہشت گرد گروپوں کے ممبران اور ان کے سہولت کاروں کو پکڑ کر ایران منتقل کرنے کا مطالبہ کیا‘ لیکن جواب یہ ملا کہ یورپی یونین کے لئے یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے۔ ''ایسے افراد کو بلیک لسٹ نہیں کیا جاسکتا جویورپی سرزمین پر کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔‘‘ ایران میں بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پہلے ہی ایٹمی پروگرام پرکئی سالوں تک اس کو اذیت ناک اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گو ایسی پابندیوںسے بالادست طبقات اور قومی حکمرانوں کو تکلیف نہیں ہوا کرتی کیونکہ سارے ملکی وسائل پر ان کی ملکیت اور حاکمیت ہوتی ہے لیکن ان پابندیوں سے معیشت بدحال ہو جاتی اور درمیانے اور خصوصاً محنت کش طبقات پر اس کے زیادہ خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ کلیہ کسی ایک ملک پر نہیں بلکہ کسی پابندی کا شکار سبھی ممالک پر لاگو ہوتا ہے اور جنیوا میں ہونے والے 2015ء کے معاہدے ( جس میں ایران ،امریکہ ،چین ،روس ،برطانیہ ،جرمنی اور فرانس شامل تھے) اور پابندیاں اٹھنے کے معاشی فائدے بھی عوام کے لیے کم اور حکمرانوں کی دولت میں زیادہ اضافے کا باعث بنے تھے۔ اس سال ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دوبارہ پابندیاں لگانے سے ایک بار پھر معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے او ر عام لوگوں کی زندگیاں مزیداجیرن ہوگئی ہیں۔
میرے خیال میں جہاں اس حملے سے ایرانی اشرافیہ کو داخلی طور پر اپنی حاکمیت کو طول دینے کا جواز حاصل ہو گا‘ وہاں بیرونی طور پر خلیج کے پورے علاقے میں سماجی سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں شدت آئے گی۔ دشمنیوں کے زہر سے منافرتیں پھیلا کر مسائل بڑھانے والوں کے عزائم اور مقاصد ایک ہی ہیں۔ خلیج میں امریکہ، روس اور چین بڑے تصادم کو رکوانے کی بھرپور کوششیں کریں گے‘ لیکن یہ تنائو بڑھ کر پورے خلیج کوایک حالت جنگ میں دھکیل سکتاہے جس کا نتیجہ تیل کی قیمتوں میں تباہ کن اضافے کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے‘ جبکہ اس سمندری راستہ کی بندش سے تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ ممالک بیرونی خطرات، خارجی یا جنگی تصادموں کو ابھار کر اپنے اقتدار کو برقرار رکھتے آئے ہیں اور عوامی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جنوب مغربی ایشیا کے ملک بھی انہی پالیسیوں پر کاربند رہے ہیں۔ لیکن اب ان تمام ملکوں میں سرمایہ دارانہ معیشتیں شدیدبحران کا شکار ہو گئی ہیں کہ ان بیرونی تضادات کو ابھار کر داخلی طبقاتی جدوجہد اور تضادات کو دبانے کی پالیسی ناکامی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف خلیج کے دونوں اطراف کے ممالک میں عوامی بغاوتیں ابھر سکتی ہیں بلکہ تیل کی قیمتوں میں تباہ کن اضافے اور دیگر شعبوں کے معاشی بحران سے سماجی ہلچل پیدا ہو سکتی اور یہ تناؤ پورے خطے میں انقلابی طوفانوں کو جنم دے گا۔ لیکن ایسی انقلابی تحریکوں کو 2011ء جیسے عبرتناک انجام سے بچانے کے لئے ایک سائنسی معاشی سماجی اور سیاسی پروگرام پر انقلابی پارٹی اور قیادت درکار ہوگی جویہاں بربریت کو پاش پاش کرکے ریاستی و غیر ریاستی جبرو تسلط اور اس استحصالی نظام کے خاتمے سے عوام کی نجات کا ذریعہ بن سکے۔
خلیج میں امریکہ، روس اور چین بڑے تصادم کو رکوانے کی بھرپور کوششیں کریں گے‘ لیکن یہ تنائو بڑھ کر پورے خلیج کوایک حالت جنگ میں دھکیل سکتاہے جس کا نتیجہ تیل کی قیمتوں میں تباہ کن اضافے کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے‘ جبکہ اس سمندری راستہ کی بندش سے تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ ممالک بیرونی خطرات، خارجی یا جنگی تصادموں کو ابھار کر اپنے اقتدار کو برقرار رکھتے آئے ہیں اور عوامی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔