وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر سیاست میں آنے سے پہلے پاکستان کے ایک بہت بڑی نجی کمپنی کے سربراہ رہے ۔ انہوں نے اس کمپنی میں جس لیاقت سے کام کیا اس کی گواہی اس بات سے بھی ملتی ہے کہ دوہزار چار میں انہوں نے جب یہ کمپنی سنبھالی تو اس کی کل آمدنی تیرہ ارب روپے سالانہ تھی اور سات سال بعد انہوں نے اسے چھوڑا تو اس کی آمدنی ایک سو چودہ ارب روپے تک پہنچ چکی تھی۔ آج سے چھ برس پہلے جب وہ نوکری چھوڑ کر سیاست میں آئے تو اس وقت شاید وہ پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے شخص تھے۔ انہیں ہر ماہ انسٹھ لاکھ روپے ملتے تھے۔ اس کمپنی کے سب سے بڑے حصہ دار حسین داؤد ہیں‘ جو شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گروپ آف کمپنیز کا سربراہ انہیں چھوڑ کر جائے لیکن اسد کے دل میں کچھ کرگزرنے کا جذبہ اتنا توانا تھا کہ انہوں نے کاروباری دنیا کا نخلستان چھوڑ کر سیاست کے صحرامیں قدم رکھ دیا۔ نوکری کے آخری دنوں میں تحریک انصاف سے ان کا تعلق اتنا گہرا ہو چکا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے حسین داؤد کی کھاد فیکٹری کو گیس کی فراہمی اس وقت تک روکے رکھی جب تک اسد عمر نے نوکری نہیں چھوڑ دی۔ شاید اسی لیے ان کے استعفیٰ دینے کے ساتھ ہی کمپنی کے شیئر کی قیمت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان کی کارگزاری کے گواہ عبدالرزاق داؤد بھی ہیں جو خود بھی ایک کامیاب کاروباری ہیں، رشتے میں حسین داؤد کے کزن ہیں اور اس وقت وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم کے مشیر برائے صنعت و تجارت کے طور پر شامل ہیں۔
اسد عمروہ شخص ہیں کہ جس کاروباری ادارے کی سربراہی انہوں نے طویل عرصے تک کی، کبھی ٹیکس چوری میں ملوث نہیں ہوا۔ شاید اسی وجہ سے ان کا ادارہ قانونی طور پر کمائے ہوئے پیسے کو کھل کر لگاتا رہا اور کماتا رہا حتیٰ کہ اس ادارے نے پاکستانی کمپنی کے طور پر دوسرے ملکوں میں بھی سرمایہ کاری کی اور ملک کی عزت میں اضافے کا باعث بنا۔ خود اسد عمر کے اثاثوں اور آمدنی کی تفصیلات ملک کے تمام متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہیں۔ کابینہ میں ان کے ساتھی عبدالرزاق داؤد بھی معروف کاروباری شخصیت ہیں جن کے دامن پر کم ازکم ٹیکس چوری کا دھبہ کبھی نہیں لگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی موجودگی میں وفاقی کابینہ نے ایسا بجٹ کس طرح منظور کردیا جس میں ٹیکس چوروں پر لگائی گئی تمام پابندیاں ہوا میں اڑا دی گئیں؟ وہ لوگ جنہیں پچھلی حکومت پانچ سال میں گھیر گھار کر ٹیکس ادا کرنے کی طرف لائی تھی، کیا اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف جیسی تازہ دم سیاسی جماعت کو حکومت میں آتے ہی اس قدر مجبور کردیا کہ وہ ٹیکس دہندگان کے گلے میںپڑی رسّی کو تو مزید کھینچ دے اور ٹیکس چوروں کو اپنی حرام کی کمائی سے قیمتی گاڑیاں اور پلاٹ خریدنے کی آزادی دے دے؟ پاکستان کی کاروباری برادری اور تنخواہ دار طبقہ جو اسد عمر صاحب کی صلاحیتوں کے گن گارہے تھے، وہ اب اس سوچ میں ڈوبے ہیں کہ وہ واقعی ملک کے خزانے کے امین بنائے جانے کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔انہوں نے عمران خان کے ساتھ پوری قوم کو پانچ سال تک یہ بتایا کہ ملک میں ان کی حکومت آئی تو ٹیکس دوگنا ہوجائے گا لیکن پنج سالہ وعظ و تلقین کا عملی ثبوت دینے کا وقت آیا تو ٹیکس مشینری میں اصلاحات کی طرف کوئی قدم اٹھانے کی بجائے انہوں نے پہلے سے کی گئی اصلاحات کو بھی تباہ کر دیا۔ کیا معیشت میں مافیاؤں کے سامنے ہار مان جانے کے لیے ملک نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے تھے؟
وزیرخزانہ کے ساتھ وزیر مملکت برائے ریونیو کے طور سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے صاحبزادے بیرسٹر حماد اظہر بھی کام کررہے ہیں۔ ان کے والد ماجد سے تو ہم سب اچھی طرح واقف ہیں لیکن حماد اظہرکتنے لائق ہیں، یہ وقت ہی بتائے گا۔ البتہ عنفوانِ سیاست میں ان سے منسوب جو بیانات سامنے آرہے ہیں ، وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ انہیں کم ازکم اس چیز کے بارے میں کچھ علم نہیں جس کے وہ وزیر ہیں۔ ان سے منقول ہے کہ ، ''ٹیکس نہ دینے والوں پر اگر گاڑیاں اور پلاٹ خریدنے کی پابندی لگائی جائے تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے‘‘۔ اس منطق کے قربان جائیے ۔ یعنی تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس دینے والا اور ٹیکس چور دونوں برابر ہیں۔ اللہ ، اللہ کیا طرزِ فکر ہے کہ اگر آپ باقاعدگی سے ٹیکس دے رہے ہیں تو احمق ہیں کیونکہ ٹیکس چور بیرسٹر حماد اظہر کی عنایت سے آپ جتنا ہی معزز ہے ۔ انصاف کے بنیادی اصولوں کی تباہی کو'' تبدیلی‘‘ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
اسد عمر صاحب کے دیے ہوئے بجٹ کے طرف داروں کا کہنا ہے کہ جب ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری سے روکا گیا تو اس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر بھی پابندی لگ گئی، انہیں اس پابندی سے نجات دلانا ضروری تھا کیونکہ یہ لوگ پاکستان کے ٹیکس نظام میں نہیں آتے۔ ایک منٹ کے لیے اس دلیل کو مان بھی لیا جائے تو اس کا علاج یہ تو ہرگز نہیں تھا کہ مقامی ٹیکس چوروں کو بھی ملک تباہ کرنے کی اجازت دے دی جاتی۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اول تو ٹیکس نمبر لینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے ‘اور اگر وہ ایسا نہ کرنا چاہیں تو اس کا آسان حل ہے کہ وہ بیرونِ ملک قیام کا سرٹیفکیٹ لے آئیں۔ اس طرح کم ازکم ہم ان لوگوں پر ہاتھ تو ڈال سکتے جو ہمارے درمیان رہ کر اس ملک کا حق مار رہے ہیں۔ مسئلہ صرف بیرون ِ ملک پاکستانیوں کا ہوتا تو اس کو سلجھانے کے ہزار طریقے تھے لیکن جس غضبناک انداز میں حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنے بنائے ہوئے فنانس بل کا دفاع کیا ہے، وہ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔ اصل کہانی کا اشارہ سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل دے چکے ہیں کہ کس طرح ٹیکس چوروں کو چھوٹ دینے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جارہا تھا لیکن ن لیگ کی حکومت نے اس دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کہیں تحریک انصاف کی حکومت نے تو یہ فیصلہ کسی دباؤ کے نتیجے میں نہیں کیا؟
ایلڈس ہکسلے نے کہا تھا، ''جب آپ کو سچ کا پتا چلے گا تو آ پ پاگل ہو جائیں گے‘‘۔ یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ٹیکس چوروں کو رعایت اس لیے دی گئی ہے کہ وہ ملکی معیشت کا حصہ بنیں۔ فی الحال حقیقت پوشیدہ ہے لیکن تحریک انصاف کی صفوں میں موجود بڑے بڑے پراپرٹی ڈیلروں کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں، جن کی روز افزوں امارت کی واحد وجہ پاکستان میں ٹیکس چوروں کو حاصل ریاستی تحفظ رہا ہے۔ ٹیکس چوری کے پیسے کے ذریعے زمینوں کے کاروبار نے ملک میں زمین کی قیمت اتنی بڑھا دی ہے کہ اب کوئی سفید پوش اپنا گھر بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔اس مختصر عرصے میں جب ٹیکس چورجائیداد کی مارکیٹ سے باہر تھے ، قیمتیں عام آدمی کی پہنچ میں آنے لگی تھی مگر ''تبدیلی‘‘ کے پہلے جھکڑمیں ہی ٹیکس چوروں کے خلاف ملک کی تاریخ میں کیا گیا پہلا باقاعدہ اقدام واپس ہوگیا تو قیمتیں واپس آسمان کی طرف جانے لگی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسد عمر صاحب نے کیا ہے جن کے بارے میں یقین کی حد تک سمجھا جاتا تھا کہ یہ شخص کسی کا آلہء کار نہیں بن سکتا۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ شخص پاکستان کے لیے اسی طرح کام کرے گا جیسے حسین داؤد کے لیے کرتا تھا، مگر تجربے سے پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ خالی خولی ملک کی خدمت کا جذبہ شاید معجزے برپا نہیں کرسکتا۔