تناسب کی بھی عجیب ہی کہانی ہے۔ قدرت نے قدم قدم پر ہمیں اس بات کا پابند کیا ہے کہ تناسب کا دھیان رکھیں۔ ایک ذرا سا چُوکے اور غیر متوازن و غیر متناسب ہوگئے‘ پھر خود کو سنبھالتے پھرو۔ یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ چار پانچ سو روپے کی ہانڈی تیار کیجیے اور اس میں محض دو تین چٹکی نمک نہ ہو تو؟ گئی بھینس پانی میں۔ سارا کا سارا سالن بے مزا اور سارا مزا بغیر کنکر کے کِرکِرا ہوکر رہ جاتا ہے‘ اسی لیے اچھے لوگوں کو زمین کا نمک کہا گیا ہے ‘یعنی اُن کے بغیر رُوئے زمین کی پوری ہانڈی بے پھیکی ہے‘ بے مزا ہے۔
قصہ مختصر‘ سارا کھیل تناسب کا یعنی متناسب رہنے کا ہے۔ کہیں کوئی چیز بہت بڑے پیمانے پر درکار ہوا کرتی ہے اور کہیں کوئی چیز بہت چھوٹے پیمانے پر۔ چائے میں پانی بڑی مقدار میں چاہیے۔ دوسرے نمبر پر اہمیت کم مقدار میں دودھ کی ہوتی ہے۔ شکر اور چائے کی پتی خاصے کم تناسب سے درکار اشیاء ہیں۔ شکر ذرا سی زیادہ ہوجائے‘ تو چائے بے مزا ہو جاتی ہے اور اگر شکر کی مقدار بہت زیادہ ہو تو چائے کی ساری شیرینی محض تلخی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہمارے حلقۂ احباب میں ایک صاحب ایسے بھی تھے‘ جو چائے میں شکر قیامت خیز تناسب سے پسند کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چائے میں شکر ہو تو اتنی ہو کہ کپ میں چمچ کھڑا ہوجائے!
جو معاملہ سالن میں نمک اور چائے میں شکر کا ہے‘ وہی دوسرے بہت سے معاملات کی طرح گفتگو میں جوش و جذبے کا بھی ہے۔ کسی بھی نوع کی گفتگو کے دوران؛اگر موقع کی مناسبت سے کوئی تیکھا‘ کٹیلا جملہ آجائے ‘تو مزا دے جاتا ہے۔ کہیں کہیں کڑوا‘ کسیلا جملہ بھی یوں کام کر جاتا ہے کہ صرف سُننے والے حیرت زدہ نہیں ہوتے‘ خود بولنے والا بھی حیران رہ جاتا ہے۔
گفتگو دوستوں کے بیچ ہو رہی ہو یا دشمنوں کے درمیان‘ ہر چیز اپنے محل کے مطابق مزا دیتی ہے۔ جہاں طنز کرنا لازم ہو‘ وہاں محض تفننِ طبع سے کام نہیں چل سکتا اور جہاں جوش دکھانا ہو ‘وہاں سرد مہری معاملے کو بگاڑ دیتی ہے۔ کسی بھی محفل میں اورکسی بھی موقع پر پوری گفتگو کو نہ تو محض جوش و خروش سے کامیاب بنایا جاسکتا ہے ‘نہ محض طنز و تشنیع سے۔
گفتگو کے معاملے میں آج ہمارا معاشرہ قیامت خیز انداز کا حامل ہے۔ لوگ بات بات پر بھڑک اور پھڑک اٹھتے ہیں‘ زبان بے لگام ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ گفتگو کیا ہوتی ہے؟ یہ کہ اپنی بات کہی جائے اور دوسروں کی بات سُنی جائے۔ اپنا موقف بیان کیے بغیر بھی بات نہیں بنتی اور فریقِ ثانی کا موقف سُنے بغیر بھی معاملہ سلجھایا نہیںجاسکتا۔ یہ دو طرفہ عمل ہے‘ یعنی ون وے ٹریفک کی گنجائش نہیں۔ گفتگو اگر تسلیم شدہ حدود میں اصولوں کے مطابق ہو تو دلوں کا غبار باہر آتا ہے‘ طبیعت کا اضمحلال ختم ہوتا ہے اور انسان زیادہ تازہ دم ہوکر سوچنے اور سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
معاشرے کی عمومی روش اب یہ ہے کہ بات بات پر بے لگام ہوجائیے‘ جذبات کی رَو میں بہنا شروع کیجیے اور جو بھی منہ میں آئے وہ بول دیجیے۔ بات کہنے کے اس بھونڈے انداز کو گفتگو کا نام دے دیا گیا ہے۔ فریقِ ثانی کی بات کو سُننے کی زحمت گوارا کیے ‘بغیر محض اپنی بات کہنا کسی بھی طور گفتگو کے زُمرے میں نہیں آتا۔
ماحول پر تھوڑی سنجیدگی کے ساتھ نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ عمومی سطح پر گفتگو کے دوران کسی کی بات سُننے سے زیادہ اپنی بات کو بے ڈھنگے انداز سے بیان کرکے معاملات کو الجھانے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے‘ جو کچھ بھی ذہن میں پیدا ہو اور منہ تک آ جائے‘ اُسے بَک دینے میں کسی بھی طرح کا خوف محسوس نہیں کیا جاتا۔ اس کا وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ جس کی طرف داغؔ دہلوی نے اِس مطلع میں اشارا کیا ہے ؎
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم‘ تم سے تو ہونے لگی
عام مشاہدہ ہے کہ گفتگو کے دوران شائستگی کو خیرباد کہنا چلن کا درجہ حاصل کرگیا ہے۔ سب نے اپنے طور پر طے کرلیا ہے کہ کوئی نہ کوئی بے ڈھنگی بات کرکے فریقِ ثانی کو متاثر کرنا چاہیے اور اس سوچ پر عمل بھی کیا جارہا ہے۔ باقی شہروں کا جو حال ہے ‘وہ وہاں کے رہنے والے جانیں‘ کراچی کا حال یہ ہے کہ گفتگو کے دوران مغلّظات کا تناسب اُسی حد تک بڑھادیا گیا ہے‘ جس حد تک چائے میں شکر کا تناسب کپ میں چمچ کو کھڑا کرنے کا باعث بن سکتا ہے!
کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے‘ یعنی راتوں کوجاگنے والا شہر۔ اس بحث سے قطع نظر کہ کسی بستی یا شہر کا رات بھر جاگنا مستحسن ہے یا نہیں‘ معاملہ یہ ہے کہ کراچی میں لوگ رات بھر ہوٹلوں پر بیٹھتے رہتے ہیں اور گفتگو کے نام پر سراسر فضول اور لایعنی باتوں کے ذریعے ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے کے سوا کچھ نہیں کرتے‘ جن الفاظ کو سُن کر کبھی سر شرم سے یوں جھک جاتے تھے کہ پھر مشکل سے اٹھ پاتے تھے‘ وہی الفاظ نفسی ساخت اور گفتگو کا حصہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ روزانہ ملنے والے بھی ایک دوسرے سے انتہائی غلیظ الفاظ کے ذریعے مخاطب ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ جن الفاظ کے ذریعے پکارے جانے پر قتل ہو جایا کرتے تھے‘ وہی الفاظ یومیہ بنیاد پر بیٹھک جمانے والے یوں استعمال کرتے ہیں کہ کانوں پر یقین نہیں آتا۔
نفسی‘ معاشرتی اور ثقافتی امور کے ماہرین سے بات کیجیے ‘تو اُن کی طرف سے استدلال ملتا ہے کہ جن کی زندگی میں شدید الجھن اور بے حواسی ہوتی ہے ‘وہ مغلّظات کے ذریعے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ ماہرین دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے طریقوں کی توجیہ و توضیح تو خوب کرتے ہیں ‘مگر ایسی باتیں کم ہی کرتے ہیں ‘جن پر عمل سے دل کا بوجھ پیدا ہی نہ ہو یا اتنا کم ہو کہ نوبت گفتگو و دیگر معاملات کو ناشائستہ بنانے تک نہ پہنچے۔
اِس وقت پاکستانی معاشرے کو مختلف معاملات میں غیر معمولی نوعیت کی مشاورت درکار ہے۔ نفسی امور کے ماہرین کو تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کانوٹس لے کر وہ سب کچھ بیان کرنا چاہیے‘ جو چھوٹے بڑے تمام معاملات میں شائستگی اور توازن برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔
گفتگو ہی سے زندگی کا رخ طے ہوتا ہے۔ ہمارے منہ سے نکلنے والے الفاظ ذہن میں پنپنے اور ابھرنے والی سوچ کا مظہر ہوتے ہیں۔ جیسی سوچ ہوگی ویسے ہی الفاظ منہ سے نکلیں گے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی اچھا سوچے اور گندا بولے یا کوئی بہت ہی گندی سوچ رکھتا ہو اور بہت اچھا بول کر لوگوں کا بھلا کرے۔ کسی کو دھوکا دینے کے لیے یہ دُوئی یا منافقت کچھ دیر تو چل سکتی ہے‘ پوری زندگی پر محیط نہیں ہوسکتی۔ نفسی امورکی اصلاح سے متعلق مشاورت کی جتنی ضرورت آج ہے‘ پہلے شاید ہی کبھی رہی ہو۔ سوچ کی کجی گفتگو میں ظاہر ہوکر اعمال کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ آج ہم لایعنی باتوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی توفیق ہی نصیب نہیں ہو رہی۔ بے ڈھنگا سوچنے اور بولنے کو اظہارِ رائے کا فن سمجھ لیا گیا ہے۔ ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ جو کچھ باہر بولتے ہیں‘ وہی کچھ گھر میں بیوی بچوں کے سامنے بھی بول جاتے ہیں اور یوں گھریلو ماحول بھی غلاظت سے محفوظ نہیں رہ پاتا اور پراگندہ‘ بلکہ گندا ہو جاتا ہے۔ کبھی سُکون سے ایک طرف بیٹھ کر دو گھڑی بھی غور نہیں کیا جاتا کہ ہم آخر یہ کس طرز کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ کہ زندگی کو ہم بسر کر رہے ہیں یا زندگی ہمیں گزار رہی ہے! ع
جانے اس قید سے اب کیسے نکلنا ہو گا؟