تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-09-2018

قانون کی کسمپرسی

کیا بھلا زمانہ تھا۔ ٹریفک پولیس کا نام و نشان نہیں تھا۔ وہی عام پولیس تھی جو ٹریفک کو بھی دیکھتی تھی۔ کسی کے پاس موبائل فون بھی نہیں ہوتا تھا کہ کسی سپاہی کے روکنے پر فوراً جیب سے موبائل نکال کر کسی ایس پی، بلکہ ڈی پی او یا آر پی او کو فون ملا کر سپاہی سے کہتا کہ ''بات کرو‘‘ اور سپاہی دو چار بار جی سر! جی سر! کہنے کے بعد فون ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے کو واپس پکڑا دیتا اور اس کی روانگی کے بعد اسے زیر لب گالیاں دیتا۔
گاڑیاں تو گنتی کی ہوتی تھیں۔ ہمارے پورے محلے میں الحمدللہ کسی کے پاس بھی کار نہیں تھی۔ چچا رئوف کے پاس ''ٹرانف‘‘ موٹر سائیکل تھا۔ پھوپھا الطاف کے پاس بھی موٹر سائیکل تھی جس کا میک یا ماڈل یاد نہیں۔ ابا جی کے پاس ویسپا سکوٹر تھا۔ 1963ء ماڈل جس کا نمبر MN-4782 تھا اور بس۔ کسی زمانے میں تایا جی کے پاس جیپ ہوتی تھی مگر وہ کافی عرصہ پہلے تایا جی نے بیچ دی تھی۔ پرانے ماڈل کی ''ولز‘‘ جیپ‘ جسے سامنے بمپر کے درمیان والے سورخ میں ہینڈل ڈال کر اور پھر اس ہینڈل کو گھما کر سٹارٹ کیا جاتا تھا۔ یہ کام تب بھائی جان طارق مرحوم اور یوسف بھائی وغیرہ کیا کرتے تھے۔ ایک بار میں نے ہینڈل مارنے کی کوشش کی۔ ابھی صرف آدھا ہینڈل ہی گھما پایا تھا کہ ہینڈل نے ''ریورس‘‘ مار دیا اور اٹھا کر تین چار فٹ پرے پھینکا۔ بچت ہو گئی کہ سر وغیرہ نہیں پھٹا۔ اس کے بعد کبھی اکیلے ہینڈل مارنے کی جرأت نہ ہوئی۔ بتانے کا مطلب یہ تھا کہ اتنی بڑی آبادی میں محض تین موٹر سائیکل تھیں اور کار ایک بھی نہیں تھی۔ باقی سب جگہ بھی اس سے ملتے جلتے حالات تھے۔ سڑکوں پر سب سے زیادہ نظر آنے والی چیزیں تانگہ، گدھا گاڑی اور سائیکل ہوتے تھے۔
بیرون شہر یعنی حسین آگاہی، لوہاری دروازے، بوہڑ دروازے، حرم دروازے، پاک دروازے، دہلی دروازے اور دولت دروازے کے باہر والی ساری سڑکیں تقریباً اسی سائز کی تھیں جتنی کہ اب ہیں۔ انیس بیس کا فرق ہو گیا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا مگر ٹریفک آج کے مقابلے میں چوتھائی بھی نہیں تھی۔ لیکن تب بھی لوگ ٹریفک قوانین کا خیال رکھتے تھے بلکہ پابندی کرتے تھے۔ سائیکلوں پر گھنٹی ہوتی تھی اور آگے لیمپ لگا ہوتا تھا۔ ابا جی کی پرانی سائیکل کے ساتھ ''ڈینمو‘‘ لگا ہوا تھا۔ ریلے کی اس سائیکل کے سامنے ہینڈل کے نیچے فریم پر ایک کلپ سا تھا اور اس پر لائٹ لگی ہوئی تھی۔ رات کو ڈینمو کے باہر والی طرف لگے ہوئے بٹن کو انگوٹھے سے دباتے تو پچھلے پہیے سے تھوڑا سا ہٹا ہوا ڈینمو کا گھومنے والا سرا ٹائر سے جڑ جاتا۔ ٹائر کے گھومنے سے یہ بھی گھومنا شروع ہو جاتا اور ڈینمو بجلی بنانا شروع کر دیتا۔ اس سے سامنے لگا ہوا لیمپ روشن ہو جاتا۔ رات کو بغیر بتی سائیکل چلانے پر چالان ہو جاتا تھا۔
پانی والی ٹینکی سے چوک شہیداں تک ون وے ٹریفک ہوتی تھی۔ یعنی چوک شہیداں سے پانی والی ٹینکی کی طرف ٹریفک آ تو سکتی تھی واپس چوک شہیداں جانے کے لیے پہلے حرم دروازے جانا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے اکبر روڈ پر چوک شہیداں کی طرف واپس آتے۔ ابا جی کو کبھی اس قاعدے کی خلاف ورزی کرتے نہ دیکھا۔ چوک شہیداں پر پولیس کا سپاہی کم و بیش ہی نظر آتا مگر ٹریفک کے قوانین کا نوے فیصد لوگ احترام کرتے تھے۔ قانون اور پولیس کا خوف بھی تھا۔ تانگوں پر گھنٹی، سائیڈ پر مٹی کے تیل والے دو عدد لیمپ لگے ہوتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سڑک کو گھوڑوں کی لید سے ممکنہ حد تک صاف رکھنے کے لئے گھوڑوں کے پیچھے پٹ سن کا جھولا سا باندھا ہوتا تھا۔ 
اب کیا حال ہو گیا ہے؟ بونس روڈ کو ٹریفک کے لیے ''ماڈل روڈ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ دوپہر کو گھنٹوں ٹریفک پھنسی رہتی ہے۔ اکثر ٹریفک وارڈن سائیڈ پر کھڑے موبائل سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ نوجوان اور صرف خالی خولی نوجوان نہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان موٹر سائیکلوں پر یوٹرن کا شارٹ کٹ مارنے کے لیے ٹریفک کے الٹے بہائو میں اپنی ڈرائیونگ کے کارنامے دکھاتے ہیں۔ بلا اجازت اور بلا کسی منصوبے کے بنی ہوئی اکیڈمیوں، بے محابا بننے والے تعلیمی اداروں، دکانوں اور پلازوں کے باہر کھڑی سینکڑوں گاڑیوں نے کم و بیش آدھی سڑک گھیر رکھی ہوتی ہے۔ اوپر سے صابر خان سدوزئی جیسے لائق فائق انجینئر کی مقامی انجینئرنگ کے شاہکار میٹرو سٹیشنز کے مقامات پر ایک تہائی رہ جانے والی سڑک جو تقریباً گلی کے برابر ہو چکی ہے‘ سونے پر سہاگے والی مثال کے مطابق ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ٹریفک میں سب سے بے ہنگم چیز تانگہ اور گدھا گاڑیاں تھیں۔ اب ان کی جگہ چنگ چی اور موٹر سائیکل کے پیچھے جڑی ہوئی لوڈنگ ''ٹرالی‘‘ نے لے لی ہے۔ اللہ جانے یہ عجیب و غریب چیز ایجاد کس نے کی اور اس کو سڑک پر لانے کی اجازت کس نے دی؟ تاہم شاہ جی کا خیال ہے کہ اب ایسی چیزوں کو سڑک پر لانے کے لیے کسی اجازت کی نہیں ہمت کی ضرورت ہے۔ آپ سڑک پر لے آئیں۔ مہینے دو مہینے میں اس قسم کی سینکڑوں خلائی شٹلز سڑک پر آ جائیں گی۔ جب ان کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ جائے گی تب کسی کو ہوش آئے گا۔ مگر تب تک تو پانی سر سے گزر چکا ہو گا۔ انہیں روکیں تو ہر طرف کہرام مچ جائے گا کہ لوگوں کا روزگار چھینا جا رہا ہے۔ سیاسی مصلحتیں قانون پر غالب آ جائیں گی اور یہ ساری غیر قانونی، غیر معیاری اور غیر منظور شدہ چیزیں باقاعدہ قانونی قرار پا جائیں گی۔
ہائی ویز سے سب سے زیادہ مصیبت موٹر سائیکلوں نے ڈال رکھی ہے۔ انتہائی دائیں یعنی فاسٹ لین میں موٹر سائیکلیں ہوتی ہیں اور ہمہ وقت حادثات کا باعث بن رہی ہیں۔ لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شہر میں اب خال ہی کسی موٹر سائیکل پر دو سواریاں ہوتی ہیں۔ اسی فیصد سے زائد موٹر سائیکلوں پر تین یا اس سے بھی زیادہ سواریاں ہوتی ہیں۔ بوسن روڈ پر کل بڑا مزیدار نظارہ دیکھا۔ ایک دودھ والا اپنی موٹر سائیکل کی دونوں طرف باندھے ہوئے دودھ کے ڈبوں پر دو سواریاں اور ایک اپنے پیچھے گدی پر بٹھائے بوسن روڈ یعنی ''ماڈل روڈ‘‘ پر رواں دواں تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ''انڈر ایج‘‘ موٹر سائیکل سوار اس سڑک پر نظر آتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے حکم پر ہیلمٹ کی پابندی پرسوں سے لاگو ہو گئی ہے مگر کسی کم عمر طالب علم نے نہ تو ہیلمٹ پہنا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہوتا ہے۔ اوپر سے ہر موٹر سائیکل پر تین سواریاں ہوتی ہیں۔
عالم یہ ہے کہ اب لوگ جانتے بوجھتے بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لاہور میں ایوان اقبال والے چوک پر سرخ اشارہ تھا۔ ایک موٹر سائیکل والے نوجوان نے جو یونیورسٹی کا طالب علم لگتا تھا (عمر کے لحاظ سے اندازہ ہے) اور اس کے پیچھے دوسرا طالب علم بیٹھا تھا۔ دونوں کی کمر پر شہباز شریف والے لیپ ٹاپ کے بیک پیک لٹکے ہوئے تھے۔ موٹر سائیکل چلانے والے نے سرخ اشارے پر بریک لگا دی۔ اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے لڑکے نے اسے ٹہوکا مار کر کہا کہ رک کیوں گئے ہو؟ وہ کہنے لگا: سامنے سرخ اشارہ ہے۔ (میں یہ ساری گفتگو سن رہا ہوں کہ میری گاڑی ان کے بالکل ساتھ کھڑی تھی) وہ کہنے لگا: تو پھر کیا ہوا؟ گزر جائو۔ آگے بیٹھا ہوا لڑکا کہنے لگا: یار! قانون کا احترام چاہئے۔ پیچھے بیٹھے ہوئے لڑکے نے اسے کمر پر مکا مارتے ہوئے کہا: اوئے! لعنت بھیج اصول پسندی پر اور موٹر سائیکل چلا‘ بڑا آیا قانون کا احترام کرنے والا۔ دونوں نے قہقہہ لگایا اور اشارہ کراس کر لیا۔
صرف بوسن روڈ کا ہی کیا۔ سارے ملک میں، ہر سڑک پر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا شخص کبھی با آواز بلند اور کبھی دل میں یہ کہتا ہے: لعنت بھیج اصول پسندی پر، بڑا آیا قانون کا احترام کرنے والا۔ پاکستان میں قانون کی کسمپرسی کا ذمہ دار سارا معاشرہ ہے۔ وہ والدین جو کم عمر بچوں کو سٹیئرنگ پر بٹھاتے ہیں۔ وہ ٹریفک وارڈن جو سڑک کنارے موبائل سے کھیلتا ہے۔ وہ ڈی پی او جو اپنے دوست کا فون سن کر ٹریفک وارڈن سے کہتا ہے کہ جانے دو۔ اور وہ تعلیمی نظام میں جس میں اچھے شہری بننے کے حوالے سے ہمیں ایک لفظ نہیں سکھایا جاتا ہے۔ سڑک پر ٹریفک قوانین کا بد ترین حال دیکھنا ہو تو اس کے لیے ''ماڈل روڈ‘ بوسن روڈ سب سے مناسب جگہ ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved