ارتقا کے بارے میں کچھ دوستوں کا سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں زندہ چیزیں ارتقا کرتی رہیں ۔ وہ پانی سے خشکی پر آئیں ۔ رینگنے اور چلنے سے وہ اڑنے کی طرف گئیں ‘تو آج ارتقا رُک کیوں گیا؟ میرا جواب یہ ہے کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ارتقا رُک چکا ہے؟ارتقا ایک ایسی چیز ہے ‘ جس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے کم از کم ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں ۔
ہم انسانوں کی ساری عمر ہی چالیس پچاس ہزار سال ہے ۔ اس میں بھی پرنٹنگ پریس اور انٹر نیٹ ایجاد ہونے کے بعدحال ہی میں انسانوںنے اپنا علم ایک دوسرے سے شیئر کرنا شروع کیا ہے ؛اگرچہ ناقص اور غلط تصورات صحیح چیزوں سے کہیں زیادہ تعداد میں شیئر ہوتے ہیں ۔ بہرحال ‘ اب یہ ہونے سے رہا کہ ایک مچھلی ہمارے سامنے پانی سے نکلے ‘ پھر وہ سانپ کی طرح زمین پہ رینگنے لگے۔ کچھ دیر بعد یہ سانپ کتا بن کر بھونکے اور پھر پرندہ بن کے اڑ جائے ۔ انٹرنیٹ تو آج ایجاد ہوا ہے ۔ پرنٹنگ پریس ابھی کل کی بات ہے ۔ انسان نے جانداروں کی مختلف سپیشیز کا ریکارڈ اکٹھا کرنے کا کام ابھی دو دن پہلے ہی تو شروع کیا ہے ۔
ماہرین کو ارتقا کے بارے میں اس طرح سے معلوم ہوا کہ زمین کے نیچے ‘ غاروں میں ‘ برف زاروں میں اور پہاڑوں میں انہیں ‘ ہزاروں ‘ لاکھوں اور کروڑوں سال پرانی جانداروں کی باقیات (فاسلز) ملیں ۔یہ بہت قیمتی باقیات ہوتی ہیں ۔ دریافت کرنے والا شخص ان ہڈیوں پر ریسرچ کرتاہے ۔ اپنی تحقیق کے نتائج لکھتا ہے ‘ پھر وہ انہیں سائنسی دنیا کے سامنے پیش کرتاہے ؛اگر تو یہ ہڈیاں اس نے خود بیٹھ کر تیار کی ہوں ۔ اگر کسی قبرستان سے وہ یہ ہڈیاں چوری کر کے لایا ہو‘ اگر لاکھوں سال کی بجائے ان ہڈیوں کی عمر صرف پانچ چھ سال ہو تو سائنسی دنیایہ ہڈیاں اٹھا کر اس''سائنسدان ‘‘ کے منہ پر دے مارتی ہے۔ پوری دنیا میں اس کا مذاق اڑتا ہے۔ دوبارہ کوئی سائنسدان اس کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ حوالے کے طور پر آپ ڈاکٹر عطاالرحمن اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی طرف سے ''انجینئر‘‘ آغا وقار کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ملاحظہ کر سکتے ہیں ‘ جس نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کیا تھا۔ آخر میں انجینئر صاحب کی حالت یہ تھی کہ ماتھے پہ پسینہ بہہ رہا تھا ؛حالانکہ دونو ں ڈاکٹر صاحبان شریف اور نرم مزاج ہیں ۔ سب لوگ اس طرح کے نہیں ہوتے ۔ جھوٹا دعویٰ پیش کرنے والے کی ٹکا کے بے عزتی ہوتی ہے۔ ایک بندہ اپنے دادا کی ہڈیاں اس کی قبر سے نکال کر لے آئے اور یہ کہے کہ میں نے چار لاکھ سال پرانا انسانی ڈھانچہ دریافت کیا ہے‘ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ سب لوگ مان جائیں گے ؟ریڈیو باربن ڈیٹنگ سے کوئی اس کی عمر ماپنے کی کوشش نہیں کرے گا؟ اسی طرح ڈی این اے کی تفصیل میں ایک ایک جین کا نام اور اس کی تفصیلات بتانا پڑتی ہیں ‘ پھر ان ہڈیوں کو سائنسی دنیا کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے ۔ ماہرین ایک ایک جین کا جائزہ لیتے ہیں ‘ پھر اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کا فیصلہ کیا جاتاہے ؛ اگر تو وہ سچا ہے‘ تو پھر اسے اس دریافت پر پوری دنیا میں عزت‘ شہرت اور دولت ملتی ہے‘ ورنہ پھر وہ انجینئر آغا وقار کی طرح باقی زندگی کسی غار میں گزارتا ہے ۔
میڈیا میں بھی اگر کوئی جھوٹی خبر پیش کرتاہے ‘تو اپنی برادری میں اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ عدالت بلا لیتی ہے کہ آپ ثبوت پیش کریں ۔ برسوں پہلے ایک اخبار نویس نے غلط خبر کو صحیح سمجھ کر چھاپ دیا تھا کہ سلمان تاثیر اینڈ کمپنی‘ جسٹس خواجہ شریف کے قتل کی منصوبہ بندی کر چکی ہے ۔ اس پر بعد میں رئوف کلاسرا صاحب نے کتاب لکھی '' ایک قتل جو ہو نہ سکا ‘‘ ۔ سائنسی دنیا میں تو اور زیادہ سختی ہے ۔آپ جس چیز کو لیبارٹری میں ثابت نہیں کر سکتے ‘ جس چیز کے آپ ناقابلِ تردید ثبوت مہیا نہیں کر سکتے ‘ اسے کبھی بھی سچ مانا جا ہی نہیں سکتا۔
ہڈیوں کی ساخت سے ہی بہت ساری باتیں سامنے آجاتی ہیں ۔ ہومو نی اینڈرتھل اور ہومو سیپین کی کھوپڑی میں فرق ہے ۔ ان دونوں کی کولہے کی ہڈی میں فرق ہے ۔ان کے قد میں فرق ہے ۔ نی اینڈرتھل میں کولہے کی ہڈی چوڑی ہے ۔ ہوموسپنرنز میں غالباً کم چوڑی کولہے کی ہڈی ہی کی وجہ سے عورت کو بچہ جننے میں انتہائی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اسی لیے اس کے پیروں تلے جنت بھی رکھی گئی ہے ؛ اگر ایک بندہ ہڈیوں کی ساخت کو سمجھتا ہو ‘تو وہ دونوں کے ڈھانچے دیکھ کر بخوبی ان میں فرق کا اندازہ کر سکتاہے ۔
ایک اخبار نویس ہڈیوں کا ماہر نہیں ہوتا‘ لیکن وہ کسی بھی شعبے کے ماہرین کی مجموعی رائے کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ ہم جنرل نہیں ہیں ‘ پھر بھی دفاعی معاملات پر ایک رائے پیش کرتے ہیں ۔ ہم سیاست دان نہیں ‘ پھر بھی سیاست پر روز کالم لکھتے ہیں ۔ ہم ڈاکٹر نہیں‘ لیکن صحت کے بارے میں لکھتے ہیں ۔اسی طرح فلکیات ‘ فاسلز اور دوسری سائنسز کے بارے میں بھی ماہرین کی مجموعی رائے کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ۔ ویسے بھی کم ہی سائنسدان عام فہم زبان میں بات کر سکتے ہیں ۔ ان کی گفتگو پیچیدہ اصطلاحات سے بھرپور ہوتی ہے ۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک شخص اپنے شعبے کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود گہرائی میں اسے سمجھتا نہیں ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک سال پہلے رونما ہو اتھا‘ جب ایک سو سالہ بڑھیا کی ایک نوزائیدہ بچے کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی تھی ۔ کہا جا رہا تھا کہ ovaryٹرانسپلانٹ کروا کر اس سو سالہ بوڑھی عورت نے ایک بچے کو جنم دیا ہے ۔ یہ خبر سو فیصد جھوٹی تھی ۔ یہ بچی اس کی پوتی یا پڑپوتی تھی ۔
ہمارے جسموںمیں دماغ کے بعد سب سے زیادہ دلچسپ چیز امیون سسٹم ہے ۔اس زمین پر خوردبینی جاندار پیدا کرنے ضروری تھے؛ اگر وہ نہ ہوتے تو مردوں کے جسم کیسے ختم ہوتے ‘لیکن خوردبینی جاندار بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں ۔ ان بیماریوں سے بچانے کے لیے اللہ نے امیون سسٹم کی صورت میں ایک بیش قیمت تحفہ ہر انسان ہی کو نہیں‘ بلکہ ہر جاندار کو دیا۔دو بار میں ایسے لوگوں سے ملا‘ جن کا امیون سسٹم گردہ اور جگر ٹرانسپلانٹ کرانے کی وجہ سے کمزور کر دیا گیا تھا۔ دونوں شخص چلتی پھرتی لاش تھے ۔ ان کا زکام ہی چھ چھ ماہ ٹھیک نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح ہیپاٹائٹس سمیت ہر بیماری آسانی سے انہیں اپنا نشانہ بنا رہی تھی ۔ اسی امیون سسٹم کی وجہ سے کھربوں جانور آلودہ پانی پینے کے باوجود زندہ رہتے ہیں ۔اسی امیون سسٹم کی وجہ سے انسانوں کی اکثریت بھی آلودہ پانی پینے کے باوجود بچ نکلتی ہے ۔
اسی طرح دماغ میں بلڈ برین بیرئیر ایک بہت دلچسپ چیز ہے ‘ جسے پڑھنا چاہئے‘ کان میں ایک خصوصی سسٹم ہوتا ہے ‘ جس کی مدد سے انسان اپنا توازن برقرار رکھتا ہے ؛ اگر یہ سسٹم کام نہ کر رہا ہو‘ تو بندہ قدم رکھتا کہیں ہے‘ لیکن پڑتا کہیں اور ہے ۔
اسی طرح ایک دلچسپ چیز ہے ‘ زمین میں ذخائر کی تقسیم۔ اس پر ایک اور کالم‘ کسی اور دن ۔(انشاء اللہ)