تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     28-09-2018

جنگ اور امن

حکمران طبقے کی سیاست کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں ہر قسم کی بڑھک بازی کو غیر ذمہ داری سے بے خوف و خطر جاری رکھا جاتا ہے‘ چاہے وہ داخلی مسائل ہوں یا خارجہ پالیسی کے نازک ترین ایشوز ہی کیوں نہ ہوں۔ جو جی چاہا کہہ دیا۔ جو منہ میں آیا بول دیا۔ کون پوچھنے والا ہے۔ لیکن پھر یہ اقتدار میں آتے ہیں اور بہت سی ایسی بڑھکوں سے خوفزدہ ہونے لگتے ہیں جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ بے دریغ مارا کرتے تھے۔ ماضی کی بیان بازیاں خوفناک آسیب بن کے حال پر منڈلانے لگتی ہیں۔ شاید خود کو کوستے بھی ہوں گے کہ حکومت میں آنے سے پہلے کیا کیا بولتے رہے ہیں۔ پاکستان میں کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل ہے۔ 
1947ء کے بٹوارے سے چند دہائیاں پہلے تک جناح اور دوسرے کئی مسلم لیگی قائدین کانگریس کے رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے۔ تقریباً چالیس سال تک محمد علی جناح کانگریس کے بڑے بڑے لیڈروں کو پبلک میں مذہبی رسومات کی ادائیگی یا سیاست میں مذہب کے استعمال پر خاصی جھاڑ بھی پلا دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر تقسیم کے بعد کے 71 سالوں میں مذہبی کارڈ بے دریغ استعمال ہوا۔ ان معاملات میں وقتاً فوقتاً شدت پیدا کر کے عوام کی غربت اور محرومی کو سیاسی ایجنڈے اور سماجی موضوعات سے بے دخل ہی کر دیا جاتا ہے۔ یہ اوزار اس پورے خطے کے ہر ملک کے حکمرانوں نے خوب استعمال کیا ہے‘ اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ دونوں جانب ایک دوسرے کے خلاف ابھاری جانے والی دشمنی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
بھارت میں نریندر مودی اور بی جے پی اس مذہبی بنیاد پرستی کا ایک زیادہ انتہا پسندانہ روپ ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی مذہبی بنیاد پرستی میں کچھ کم ظلم نہیں ڈھائے تھے‘ لیکن تھوڑا 'رومانٹک‘ طبع ہونے کی وجہ سے انہوں نے جنرل مشرف، جو تاریخ ساز شخصیت بننے کے اُن جتنے ہی خواہاں تھے، کے ساتھ مل کر کشمیر اور دوسرے مسائل کا حل نکالنے اور برصغیر میں پیہم امن کے قیام کی بھرپور کاوش بھی کی تھی۔ آگرہ کے سربراہی اجلاس میں تو ایسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اب بس امن بحال ہو جائے گا اور دونوں اطراف کے اصلاح پسندوں نے تو باقاعدہ جشن بھی منانے شروع کر دیئے تھے۔ میرے خیال میں دونوں اطراف کے حکمرانوں نے کئی مرتبہ امن کا ڈھونگ رچانے کی ضرورت کے تحت مذاکرات کے ایسے طویل سلسلے شروع کیے‘ لیکن پھر انہی حکمران طبقات اور ریاستی اشرافیہ کے طاقتور حصوں کے مالی اور سیاسی مفادات کے لئے دشمنی بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔ اسی لئے آگرہ معاہدے کو ان پس پردہ فیصلہ کن قوتوں نے عین موقع پر سبوتاژ کروا دیا۔ چونکہ آگرہ بھارت میں ہے اس لئے اس ناکامی کا ''سہرا‘‘ بھارتی ریاست کے سر زیادہ بندھتا ہے۔ 
واجپائی کے بعد من موہن سنگھ کی کانگریسی حکومت کے دور میں بھی جہاں اوپر بھارتی معیشت کی شرح نمو میں تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا تھا‘ وہاں نیچے طبقاتی تضادات میں بھی اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ شدت آ رہی تھی۔ کسی وسیع عوامی تحریک کے فقدان کے باوجود ان تضادات کی شدت اور حدت سے سیاسی اور ریاستی بحرانوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ 2014ء کے عام انتخابات میں مودی نے ایک طرف ہندو بنیاد پرستی کی وحشت کو ابھارا‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ امارت اور غربت کے انتہائوں کو چھوتے ہوئے تضاد کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ امیت شاہ کی مدد سے استعمال کرتے ہوئے 34 سال بعد سب سے بڑی اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پر قبضہ حاصل کیا۔ اس کے بعد سے مودی کی ناٹک گیری زیادہ ہے جبکہ کوئی ٹھوس اقتصادی پالیسی لاگو کرنے میں ناکامی ہی اس کی چار سالہ حکمرانی کا خاصہ رہی ہے۔
پاکستان میں بھی مروجہ سیاست کے تقریباً ہر لیڈر نے اپوزیشن میں بھارت دشمنی کا راگ الاپا ہے‘ لیکن پھر یہی لوگ حکومت میں آ کر سبھی دوستی، امن اور بھائی چارے کی باتیں کرتے ہیں۔ پھر جب ان کے اپنے نظام کا بحران ایک بے قابو انتشار کو جنم دیتا ہے تو انہیں ہر مسئلے میں بیرونی ہاتھ بالخصوص بھارت کی سازش ہی نظر آتی ہے۔ اپنی نا اہلی اور اپنے نظام کی متروکیت کا ادراک کرنے کی کوشش نہیں کرتے‘ جس کو چلانا ہر آنے والی حکومت کے لئے مزید مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر نواز شریف جیسا کوئی سرمایہ دار اپنے نظام کے بحران کو کم کرنے کے لئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت وغیرہ کی بات کرے تو دونوں طرف دشمنی اور جنگ کے منافع بخش کاروباروں سے وابستہ مفادات کو ٹھیس پہنچنے لگتی ہے۔ بہرحال جب اکتوبر اور نومبر کے بجلی اور گیس کے بل آئیں گے تو دشمنی کے جنون کے پرخچے بھی اڑ جائیں گے۔ لیکن اس سے یہ حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت برصغیر میں امن اور دوستی محض ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ نفرت اور دشمنی اس نظام کی معروضی ضروریات ہیں۔ 
عمران خان اور اس کی پی ٹی آئی کا جائزہ لیا جائے تو وہ کانگریس اور بی جے پی جیسا ایک ملغوبہ لگتی ہے۔ ایک طرف کانگریس کی طرح اس میں لبرل ازم کے پھیکے رنگ پائے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب بی جے پی کی طرح نودولتی سرمایہ دار اس کے لیڈر اور فنانسر ہیں۔ لیکن ضرورت پڑنے پر بی جے پی والے مذہبی جنون کا بھی خوب استعمال کر لیتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے مودی اور بھارت کی جانب اپنا لب و لہجہ اچانک بدل لیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مودی سرکاری کے پاس 2019ء کے انتخابات بیچنے کے لئے پاکستان دشمنی کے سوا کچھ خاص ایشو یا موضوع نہیں ہے۔ ایسے میں بھارتی آرمی چیف جو دھمکی آمیز بیانات دے رہا ہے‘ اس سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ بھارتی سیاست اور ریاست میں وہاں کی فوجی اشرافیہ کی کتنی گہری مداخلت ہے۔ ویسے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اب اچھی طرح محسوس کر لیا ہو گا کہ اس سیٹ اَپ میں برسر اقتدار آ کر کوئی ریاست کو نہیں چلاتا‘ بلکہ نظام کے تقاضوں کے تحت ریاستی مشینری اسے چلا رہی ہوتی ہے۔ ایک طرف چین کی طرف سے دبائو ہے کیونکہ ملائیشیا، برما، تھائی لینڈ اور لائوس میں کچھ معاہدوں میں پڑنے والا خلل بڑا تشویشناک ہے۔ اس لئے چینی اب پاکستان میں سی پیک کے لئے زیادہ مستحکم اور پُرامن فضا چاہتے ہیں اور بھارت سے تنائو کو کم کرنے کے حوالے سے دبائو ڈال رہے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مودی کے ساتھ تعلقات پہلے کی نسبت بہتر ہو چکے ہیں۔ پھر یمن میں جنگ اور خلیج میں تنائو کی وجہ سے یہ دوست ممالک پاکستان کی توجہ مشرقی سرحد سے ہٹا کر مغربی سرحد کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ایک بے معنی وزارتی ملاقات جس میں صرف مذاکرات کے امکانات اور زیادہ سے زیادہ مقام و تاریخوں کا تعین ہی ہونا تھا، بھی رکوا دی گئی ہے۔ یہ تنائو جاری رکھنا بے وجہ نہیں ہے۔ یہ ایسے امن کے لئے تڑپانے کے ہتھکنڈے ہیں جو یہ حکمران چاہیں بھی تو قائم نہیں ہو سکتا۔ جنگ اب یہ کھل کے لڑ نہیں سکتے۔ بس حالت جنگ کے جنون میں لوگوں کو مبتلا کر کے ان کا استحصال اور لوٹ کھسوٹ جاری رکھتے ہیں‘ لیکن اس تنائو سے جنگی آلات کو جو جواز ملتا ہے ان پر غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سامراجی اسلحہ ساز کمپنیوں کو مسلسل لٹائی جاتی ہے۔ یوں جس نظام نے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں سے زندگی کی ہر ضرورت ہر آسائش چھین رکھی ہے‘ یہ تنائو اور دشمنیوں کے ناٹک بھی اسی کی ضرورت اور پیداوار ہیں۔ اصل لڑائی ایک ہی ہے جسے یہاں کے ان گنت غریبوں، محنت کشوں، نوجوانوں کو بھوک، محرومی، بیروزگاری اور دہشت گردی کے اِس نظام کے خلاف لڑنا ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved