تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     28-09-2018

بیماری پر مُردہ رویّے کیوں؟

محترمہ کلثوم نوازشریف ہم میں نہیں رہیں۔ ان کا جسم منوں مٹی تلے ہے‘ مگر روح ساتویں آسمان پر ہے۔ جب وہ تندرست تھیں‘ تو ان کے شوہر میاں نوازشریف صاحب بیمار ہو گئے۔ محترمہ ان کی تیماردار تھیں۔ تب میاں صاحب وزیراعظم تھے اور ان کے خلاف جے آئی ٹی کے چرچے تھے۔ پاناما کے غلغلے تھے۔ میاں صاحب لندن پہنچے۔ ان کے دل کا آپریشن ہوا۔ سینہ چاق ہوا اور دل کو درست کیا گیا‘ مگر اس بیماری کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ کوئی کہتا تھا: لندن میں بھاگ جانے کا بہانہ بنایا گیا۔ آپریشن نہیں ہوا‘ وغیرہ وغیرہ۔ محترمہ کلثوم نواز جو تیماردار تھیں‘ یہ سارا کچھ سنتی رہیں‘ مگر وہ ایسی صابرہ شاکرہ تھیں کہ وضاحتی جملہ بھی زبان سے نہ نکالا۔ دن کیسے بدلتے ہیں۔ محترمہ بیمار ہو گئیں‘ وینٹی لیٹر پر دراز ہو گئیں۔ جسم کے ساتھ وقت بھی ایسا دراز ہوا کہ سال گزرنے اور بیت جانے کے قریب ہو گیا۔ اس دوران میاں صاحب پاکستان آ گئے۔ اڈیالہ جیل میں پہنچے‘ وہاں بیمار ہو گئے‘ وہ ہسپتال جانے کو تیار نہ تھے‘ آخرکار بڑی مشکل سے ماننے اور جانے پر تیار ہوئے۔ جب ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں کی طرف سے بیانات آئے کہ میاں صاحب کا سینہ دیکھا تو صاف نظر آیا کہ وہ تو اپنے کھولے جانے کی خبر سنا رہا تھا۔ ٹانکے لگنے کی اطلاع دے رہا تھا‘ یعنی سچ کیسے وقت پر سامنے آیا‘ کوئی شخص سامنے لے کر نہ آیا‘ محض اللہ تعالیٰ کی قدرت سے سامنے آیا۔ اس میں سبق یہ ہے کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ پر ‘مگر اعلیٰ انسانی اقدار کی پامالی نہیں ہونی چاہئے۔ اسی طرح کلثوم نواز محترمہ کی بیماری پر جناب اعتزاز احسن صاحب نے جو جملہ بولا تھا۔ ان کی وفات کے بعد انہوں نے معذرت کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ غلطی کا اعتراف کرنا بڑا پن ہے۔ محترم اعتزاز احسن کو اس بڑے پن پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ جو بھی بیمار ہوتا ہے ‘وہ اس دنیا سے اپنی بیماری میں جا بھی سکتا ہے ‘لہٰذا ہم ہمدردی نہ کر سکیں تو پھبتی بھی نہ کسیں کہ بیماری اور موت پر پھبتی کسنا اک بیمار رویہ ہے۔ اک مُردہ رویّہ ہے۔ کاش ہمارے رویّے دشمن کے بارے میں بھی صحت مند رویّے ہو جائیں۔ زندہ رویّے ہو جائیں‘ کسی مشکل میں گھِرنے والے کے لئے دعائیہ رویّے بن جائیں۔
یہ تبھی ممکن ہو گا‘ جب ہمارے سامنے آخرت کی فکر ہو کہ ہم سب نے آخرکار بیمار بھی ہونا ہے اور مرنا بھی ہے۔ اسی لئے حضورﷺ نے فرمایا ''بیمار کی عیادت کرتے رہا کرو ‘کیونکہ یہ آخرت یاد دلائے گی‘‘ (الادب المفرد بخاری:518صحیح)۔ حضورﷺ کی ایک اور حدیث ہے ''لوگوں میں سے‘ جس آدمی کے جسم کو بھی کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ فرشتے جو انسان کے محافظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو حکم دیتے ہیں کہ میرے بندے کے وہ نیک اعمال دن رات لکھتے رہو جو وہ بیماری سے پہلے کیا کرتا تھا۔ جب تک کہ وہ صحت یاب نہیں ہو جاتا‘‘ (مسند احمد:6482صحیح)۔
قارئین کرام! اس کا مطلب یہ ہوا کہ محترمہ کلثوم نواز ایک سال تک وینٹی لیٹر پر رہیں ‘تو ان کی نمازیں‘ صدقات اور اذکار وغیرہ کی نیکیاں متواتر لکھی جاتی رہیں۔ حضورﷺکی ایک اور حدیث ہے کہ طاعون کے مرض کو اللہ تعالیٰ مومنوں کے لئے رحمت بنا دیتا ہے (بخاری:3474)۔ امام احمدبن حنبل حدیث لائے ہیں کہ طاعون کی موت میری امت کے لئے شہادت کی موت ہے۔
اللہ اللہ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ وبائی امراض سے مرنے والے کے لئے بے پناہ اجر ہے‘ لہٰذا میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایڈز وغیرہ کے مرض سے بھی فوت ہو تو ہمیں اپنی زبانوں کو لگام میں رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ وہ اپنے بندوں کے احوال کو خوب جانتا ہے۔ ہمیں کچھ خبر نہیں ہے۔ ملاحظہ ہوں‘ اللہ کے رسولﷺ کے دیگر فرامین‘ فرمایا: جب بندہ بیمار ہوتا ہے ‘تو اللہ تعالیٰ اس کی جانب دو فرشتے بھیجتے ہیں اور ان کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں کہ دیکھنا یہ جو مریض ہے جب لوگ اس کی عیادت کو آتے ہیں تو یہ ان سے کیا کہتا ہے‘ جب وہ تیماردار اس سے پوچھنا شروع کریں تو اگر تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی‘ شکر ادا کیا اور اللہ تعالیٰ کی شان بیان کر دی تو یہ فرشتے مریض کے منہ سے نکلے جملوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ اللہ کریم سب کچھ جانتے ہیں ‘مگر وہ فرشتوں سے سن کر فرماتے ہیں۔ میرے بندے کا مجھ پر حق ہو گیا ‘تو اگر میں نے اس کو فوت کر لیا‘ تو اسے جنت میں داخل کروں گا اور اگر میں نے اسے شفایاب کر دیا تو میں اس کے گوشت کو بہتر گوشت سے بدل دوں گا۔ اس کے خون کو اچھے خون سے تبدیل کر دوں گا اور اس سے اس کی برائیاں دور ہٹا دوں گا (الصحیحۃ للالبانی:272)۔ ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسولﷺ کا فرمان یوں ہے ''مسلمان بندہ جب بیمار ہوتا ہے ‘تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں‘ میں نے اپنے بندے کو اپنی جیلوں میں سے ایک جیل میں ڈال دیا ہے۔ اب اگر میں نے اسے اپنے پاس (بیماری یعنی جیل کی حالت میں) بلا لیا تو اسے بخشش دوں گا اور اگر میں نے اسے تندرستی سے نواز دیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا‘‘ (الصحیحۃ:1611)۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رات کا ٹائم تھا‘ اللہ کے رسولﷺ بیمار تھے‘ آپ بستر پر لیٹے لیٹے کروٹیں بدل رہے تھے۔ میں نے اس صورتحال پر حضورﷺ سے سوال کر ڈالا تو آپ نے فرمایا ''نیک لوگوں اور مومنوں پر تکالیف آتی ہی رہتی ہیں‘ اسے کوئی درد ستا جائے‘ کانٹا لگ جائے‘ اس سے بھی کوئی ہلکی تکلیف آ جائے ‘تو اس کی وجہ سے ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے اور جنت میں ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے (مسند احمد:25778)۔ قارئین کرام! ہمارے پیارے حضورﷺکو ایک بار بخار ہو گیا اور صحابہؓ نے عیادت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو انتہائی تیز بخار ہے اس پرآپ نے فرمایا ''ہاں! تم لوگوں میں سے دو آدمیوں کو جس شدت کا بخار ہوتا ہے‘ مجھ اکیلے کو اس قدر بخار ہوتا ہے‘‘ (بخاری:5648)۔
الغرض! مومن مرد اور مومن عورت کو جو تکلیف اور بیماری آتی ہے‘ اس پر بے پناہ اجر ہے۔ محترمہ کلثوم نواز گلے کے کینسر میں انتہائی تکلیف میں رہیں۔ بار بار کیموتھراپی کا انتہائی تکلیف دہ عمل جاری رہا۔ اس پر جنت میں ان کے درجے کس قدر بلند ہوئے‘ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ''مومن مرد اور عورت دنیا کی بیماریوں اور مصیبتوں سے (موت کی صورت میں) دنیا سے نجات پاتے ہیں اور اللہ کی رحمت میں جا کر راحت پاتے ہیں‘‘ (مؤطا امام مالک: باب الجنائز:241\\\\1) ۔میں اپنے اس کالم کے ذریعے میاں محمد نوازشریف‘ محترمہ مریم نواز‘ میاں شہباز شریف اور خاندان کے دیگر افراد سے یہ کہہ کر تعزیت کا اظہار کرتا ہوں کہ محترمہ کلثوم نواز کی لمبی اور انتہائی تکلیف دہ بیماری ختم ہو چکی۔ اب وہ ان تکالیف اور اذیت کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت کی صورت میں حاصل کر رہی ہیں۔ (انشاء اللہ) ہم سب نے آخرکار وہیں جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ میرے پاکستان کے معاشرے کے ہر فرد کو اعلیٰ انسانی قدریں عطا فرمائے۔ ہمدردانہ دل عطا فرمائے۔ یا اللہ! اہل پاکستان کے ہر فوت اور شہید ہونے والے کے لواحقین کو صبرجمیل عطا فرما۔ (آمین)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved