تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     29-09-2018

اپنی بلا سے بادِ صبا اَب کبھی چلے

ہم نے جو دیکھنا تھا دیکھ چکے ۔ کمزوریوں اور ناکامیوں کا احساس تو بہت پہلے ہو چکا اور اِس سے بڑھ کے بیوقوفیوں کا بھی۔ کئی چیزیں ہمارے قومی بس میں نہیں ہیں ۔ بحیثیت مجموعی ہم بڑبولے ہیں اور فضول باتیں کرنے کا خاصا ہنر رکھتے ہیں ۔ خیر اِن روشوں سے جو نقصان اُٹھانا تھا، اُٹھا چکے ۔ بڑے مواقع تھے۔ اُن کو خواہ مخواہ ضائع و برباد کر دیا۔ اپنے اوپر مختلف قسم کے جنون سوار کیے۔ ایسی کیفیت کا علاج کیا ہے؟
بی بی سی کا ہیڈکوارٹر بُش ہاؤس لندن ہے۔ جہاں موجود ہے وہ قیمتی محل وقوع ہے۔ لیکن وہاں کوئی سوچ بھی سکتا کہ اُس بلڈنگ یا اُس جگہ کو بیچا جائے یا کرایہ پہ چڑھا دیا جائے؟ یہ ہمارے ہاں ہی ممکن ہے کہ ایک نئی حکومت آئے‘ اُس کے نئے وزیر اطلاعات ہوں جو اپنا استحقاق سمجھتے ہوں کہ سورج اور آسمان تلے اُنہوں نے ہر موضوعِ سُخن پہ بیان دینا ہے۔ وہ اعلان فرماتے ہیں کہ اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کو ہم کرایہ پہ دے رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان میں کام کرنے والے احتجاج نہ کرتے تو وزیر موصوف کو کون روکتا؟ حیرانی کی بات البتہ وزیر صاحب کا اعلان نہیں‘ وزیر اعظم صاحب کی خاموشی ہے۔ اُنہیں اِس مجوزہ اقدام کے مضمرات کا ادراک نہ ہوا؟ کچھ خیال ہوتا تو خبر سنتے ہی وزیر کو ایسی ڈانٹ پلاتے کہ وہ پھر ایسے اقدام کا کبھی نہ سوچتے۔ لیکن میڈیا میں یہ بات اُچھلتی رہی اور وزیر اعظم صاحب خاموش رہے ۔ ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ جو حکمران ایسی چیزوں کو سمجھ نہ سکیں اُنہوں نے اور کون سے تیر چلانے ہیں؟
یہ کیسا ملک ہے جس میں یہ برداشت کیا جائے کہ راولپنڈی کا تمام گند لیاقت باغ کے پڑوس میں ڈَمپ ہو؟ کسی اور ملک میں ایسی حرکت ناممکن ہے ۔ نون لیگی دور میں یہی ہوتا رہا اور اَب بھی یہ پریکٹس جاری ہے ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ یہ کسی دُور دراز علاقے کی بات نہیں ، اسلام آباد کے جڑواں شہر کا مسئلہ ہے۔ کیا وزیر اعظم اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتے ؟ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اِس کا علم نہیں؟ اور وہ جو فرزندِ راولپنڈی کہلاتے ہیں اُن کی اس بارے میں کوئی سوچ نہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ لیاقت باغ میں کھڑی تمام سرکاری عمارات مسمار کی جائیں اور باغ کی کھوئی ہوئی خوبصورتی واپس لائی جائے چہ جائیکہ باغ کے ایک کونے میں تمام شہر کے گند کا ڈھیر لگایا جائے۔ 
پچاس لاکھ گھروں کی بات ہو رہی ہے، کروڑوں کی نوکریوں کا ذکر۔ سعودی عرب سے سرمایہ کاری کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں ۔ یہ سب معجزات ہو جائیں گے ۔ پہلے نسبتاً معمولی چیزوں کا تو خیال کر لیں ۔ جو ملک اپنے شہروں کی صفائی خود کرنے سے قاصر ہو اور صفائی کیلئے چینی اور ترکی کمپنیوں کو ٹھیکے دے رہا ہو اُس نے اور کیا کرنا ہے؟ یہ عیاشیاں تو ہمارے عرب دوست کر سکتے ہیں جن کے پاس تیل کا پیسہ بہت ہے جس کے بَل بوتے پہ وہ صفائی وغیرہ کا نظام غیروں کو دے دیتے ہیں ۔ ہمارا کشکول بھرتا نہیں نہ کشکول اُٹھائے بازو تھکتے ہیں ۔ ہمارے پاس آسمان سے دولت آئی کہ ہم نے راولپنڈی ، لاہور اور کراچی کی صفائی غیر ملکیوں کو دے دی؟
گندگی کا مارا جو ملک پلاسٹک شاپروں کو ختم نہ کر سکے اُس نے اور کیا کرنا ہے؟ نئے پاکستان کا محاورہ تو اَب مذاق بنتا جا رہا ہے ۔ کچھ نئے پن کا آغاز کرنا ہی ہے تو پلاسٹک شاپروں سے کیوں نہیں ؟ لیکن وہی پرانا مسئلہ ، دعوے اور نعرے بے بہا ، قوتِ عمل ذرا کمزور۔ دیگر باتیں تو چھوڑئیے ہمارے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہاں پہ درخت کون سے لگانے ہیں ۔ اللہ بھلا کرے جنگلات والوں کا جو آنکھوں میں دھول ڈالنے کے ماہر ہیں۔ یوکلپٹس (eucalyptus) لگا دیتے ہیں یا ایک نئی بیماری جو کہ کونوکارپس (conocarpus) کی جھاڑی ہے۔ یوکلپٹس کا درخت پانی بہت پیتا ہے ۔ سوائے سیم والی زمین کے ہماری باقی زمینوں کیلئے بالکل ناموزوں ہے۔ لیکن چونکہ جلدی اُگتا ہے اور دیکھ بھال بھی اتنی نہیں کرنی پڑتی‘ اس لئے جنگلات والوں کا پسندیدہ پودا ہے ۔ کونوکارپس کراچی کے سمندری علاقوں کی جھاڑی ہے ۔ الرجی پھیلانے کا باعث بنتی ہے ۔ لیکن اِس کی بڑھوتری تیز ہوتی ہے لہٰذا جنگلات اور دیگر محکمے آج کل اس فضول پودے کو ہر جگہ لگا رہے ہیں۔
انگریز کہاں سے آئے؟ ہزاروں میل دور سے ۔ لیکن یہاں بنائی سڑکوں کے کنارے اُنہوں نے دیسی پودوں کو ترجیح دی ۔ اِسی لئے لاہور مال جو کہ پورے شمالی ہندوستان کی سب سے خوبصورت سڑک مانی جاتی تھی اُس کے دونوں اطراف اِن غیر ملکی حکمرانوں نے پیپل اور اِس قسم کے درختوں کا انتخاب کیا ۔ ہندوستان کے طول و عرض میں جہاں ممکن ہوتا‘ سڑکوں کے دونوں اطراف شیشم کے درخت لگائے جاتے ۔ ہم نے بہت ساری دشمنیاں پال رکھی ہیں اور اِن میں سے ایک درختوں سے بیر ہے ۔ نئی سڑک بنانی ہو تو پہلا کام درختوں کی کٹائی ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے مزاج میں کون سی چیز ہے جو ہمیں ایسا کرنے پہ مجبور کرتی ہے۔ 
دیگر چیزوں کے علاوہ حکمرانی کا مطلب قوم کو دَرس دینا ہے۔ جب بہت سارے معاملات میں قوم بے حس ہو تو روشن خیال حاکم کا فرض بنتا ہے کہ قوم کو صحیح راستہ دکھائے ۔ پچھلے تیس سال میں کسی حاکم نے قوم کو بتایا ہے کہ پلاسٹک کے شاپر کا استعمال خطرناک ہے؟ کسی نے جنگلات والوں کو یہ تنبیہ کی کہ صحیح پودے لگاؤ اور ہر چیز میں ڈنڈی نہ مارا کرو؟ کئی لوگ ایوب خان کی بڑی تعریف کرتے ہیں کہ اُن کے دور میں ملک کی بڑی ترقی ہوئی ۔ 1965ء کی جنگ کو تو ایک طرف رکھیے جس نے ملک کو پٹڑی سے اُتار دیا۔ اسلام آباد کو لے لیجئے... ایسے شہر کی ایوب خان نے بنیاد رکھی جس کی نہ ضرورت تھی نہ کوئی مصرف ہے ۔ اِس کے بننے پر قوم کا پیسہ برباد ہوا ۔ جو اِس کے پہاڑوں اور ندیوں کا قدرتی حسن تھا وہ کافی حد تک ہم نے برباد کر دیا اور جو کچھ بچا ہے وہ بھی ہماری ترقی کی نذر ہو جائے گا ۔ اسلام آباد کا ایک اور پہلو غور طلب ہے ۔ ایوب خان کے زمانے میں جب یہ آرزو پیدا ہوئی کہ اسلام آباد جلد سبز و شاداب ہو جائے تو معلوم نہیں کس کمبخت نے یہ تجویز دی کہ جنگلی شہتوت اُگایا جائے ۔ اِس مکروہ اور خطرناک پودے کے بیج شاید چین سے منگوائے گئے اور پھر جہازوں سے سپر ے کئے گئے۔ اَب اِس سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن جب وسیع پیمانے پہ جنگلی شہتوت اُگ جائیں تو اِنہیں ختم کرنا آسان نہیں رہتا۔ 
یہ سب دیکھ کے طبیعت کچھ اُکتا سی گئی ہے ۔ اَب یہ احساس ہو چلا ہے کہ ہمارے جیتے جی کچھ نہیں ہونا۔ یہی چال بے ڈھنگی رہے گی اور جن افلاطونوں کے ہاتھوں فیصلہ سازی کی ذمہ داری ہے وہ یوکلپٹس ہی اُگاتے رہیں گے ۔ کوئی سابقہ شیر شاہ سوریوں سے پوچھے، خدا کے بندو لاہور میں اِس اورنج لائن ٹرین کی ضرورت کیا تھی ؟ لاہور کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں لیکن سیر کرنے نکلیں میٹرو بسوں اور اورنج لائن ٹرینو ں پر۔ سو بھاڑ میں جائیں ترقی کی سب تدبیریں ۔ بس شام ٹھیک گزر جائے ۔ کچھ ہنسنے ہنسانے اور دل بہلانے کا سامان ہو۔ شیکسپیئرکا لافانی کردار سر جان فالسٹف (Sir John Falstaff) یاد آتا ہے کہ کیسے ڈکیتیاں اور دیگر بدمعاشیاں کر کے اپنے محبوب میکدے لوٹتا ہے اور اُدھار کی پیتا ہے۔ میکدے کی مالکہ مسٹریس کویکلی (Mistress Quickly) ہیں اور اُسے سر جان شادی کے بہانے ٹرخاتا رہتا ہے ۔ یہ ہوئی ناں زندگی۔
لہٰذا جو بکواس کسی نے کرنی ہے کرے ‘ ہماری بلا سے ۔ لیکن کوئی تو مکانِ راحت ہو جہاں پریشانیاں باہر رکھ کے آدمی اندر جا سکے ۔ نام نہاد متقی دیکھیں تو ہنسی آتی ہے ‘ زاہد ایسے کہ دور رہنے کو دل کرتا ہے ۔ لیکن گناہگار بھی ایسے جو ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔ اچھا بھلا ملک تھا ہم نے کیا بنا دیا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved