تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-09-2018

لائن آف کنٹرول۔۔۔۔ نیوز الرٹ

انتہائی ذمہ دار اطلاعات کے مطا بق انڈین آرمی لائن آف کنٹرول پر نوشہرہ سیکٹر سے کچھ فاصلے پر جنگلات کے اندر جنگی سامان پہنچاتے دیکھی جا رہی ہے۔ نوشہرہ سیکٹر کے دوسری جانب پاکستان کا مشہور کیل سیکٹر ہے ‘اس پوسٹ سے تقریباََ 800 سے ایک ہزار میٹر کے فاصلے پر بھارتی فوج کا بھاری توپ خانہ دیکھے جانے کی معتبر اطلاعات ہیں اور نوشہرہ سیکٹر میں بھارتی فوج کے کچھ ہیلی کاپٹر بھی آتے جاتے اور وہاں پر اترتے دیکھے گئے ہیں‘ جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شایدیہ گن شپ ہیلی کاپٹر ہیں ۔ بہت ہی مشہور سامبا سیکٹر جہاں1965 ء کی جنگ سے کچھ دن پہلے بھارتی فوج نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل چوہدری کی مشہور زمانہ آرمرڈ کور کو چھپایا ہوا تھا اور جس کی پاکستان کو ابتدا میں خبر ہی نہ مل سکی‘ اسی سامبا سیکٹر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ بھارت کی آرٹلری یہاں پر اپنی پوزیشنیں سنبھال چکی ہے۔ 
بھارت کی دھمکیوں اور مقبوضہ کشمیر کے مختلف حصوں سے ملنے والی اطلاعات پر انتہائی با خبر سفارتی او ر عسکری حلقوں کی جانب سے ایسے خدشات یا اندازے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ بھارت 28 ستمبر سے2 اکتوبر کے درمیان کسی بھی وقت پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کی فاش غلطی کر سکتا ہے‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کے سعودی وفد کے دورہ پاکستان کے بعد کسی بھی قسم کی جارحیت میں کود پڑے‘ کیونکہ نریندر مودی کواپنے اگلے الیکشن کے لیے تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت اور کرپشن پر داغدار ہونے والی ساکھ کو ایک بار پھر پروان چڑھانے اور اپنے دوست کی ان تمام شکایات کا ازالہ کرنے کا بھوت سوار ہو چکا ہے ۔اگر مختلف ذرائع سے اب تک بھارتی فوج اور ان کی کمانڈو یونٹس کی لائن آف کنٹرول کی جانب بڑھنے کی ترتیب اور ریگولر فوج کی ڈیپلائمنٹ دیکھیں تو ممکن ہے کہ کسی بھی لمحے نریندر مودی سرجیکل سٹرائیک کے نام سے جارحیت کے ارتکاب کا حکم دے دے‘ کیونکہ اس کے دوست کا نریندر مودی سے شکوہ بڑھتا جا رہا ہے کہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے‘ یہ سب تمہاری دوستی کی وجہ ہے ‘اگر میں کلبھوشن پر آواز اٹھا لیتا تو شاید آج بھی پاکستان کا حکمران ہوتا؟مجھے جو بھی سزا ملی ہے وہ آپ کی دوستی کی وجہ سے ہے۔ 
میں اپنے اس کالم کے عنوان کے لیے بریکنگ نیوز کے الفاظ بھی استعمال کرسکتا تھا‘ لیکن اسے نیوز الرٹ اس لئے لکھا ہے تاکہ اپنی اطلاعات کو سامنے رکھتے ہوئے آنے والے خطرے یا بھارت کے آرمی چیف کی سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیوں کے لیے کسی بھی محاذ یا کسی بھی وقت کے تعین کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر ہم سب تیار رہیں۔23 ستمبر سے اس وقت اٹھائیس ستمبر کی صبح تک جب میں یہ بریکنگ نیوز پر مبنی کالم لکھ رہا ہوں‘ بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر نیلم جہلم وادی کی جانب بڑی تعداد میں ہلکے اور بھاری اسلحے سمیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اور بھارتی فوج کی ایسی گاڑیاں جن پر لکھے گئے کوراور رجمنٹ کے نشانات کو مٹی سے ڈھانپا گیا ہے‘ توپ خانے سے متعلق اسلحہ PHIKIAN اورDOMARI کے سیکٹرز کے مختلف حصوں کی جانب لے جاتی ہوئی دیکھی گئی ہیں۔4 ہلکے ہیلی کاپٹر اور2TPS carrier ہیلی کاپٹر PENZGAM کے فوجی کیمپ پر ا ترے اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد بھارتی فوج کا ایک ہلکا ہیلی کاپٹر لائن آف کنٹرول کے اوپر ریکی کرنے کے لیے چکر لگاتا رہا اور پھر واپسPENZGAM جا اترا۔ لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کی جانب ہیلی کاپٹر کے انٹیلی جنس سروے کرنے والا یہ ہیلی کاپٹر پنذگام میں واقع کیمپ میں بھارتی فوج کے سینئر افسران کو رپورٹ دینے کے لیے جا پہنچا۔ کچھ با خبر حلقے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ برہان الدین وانی کی پچیس ٹکٹوں اور نا معلوم بھارتی فوجی کا سر کاٹنے کے جھوٹ کی آڑ میں در اصل نریندر مودی فرانس سے36 طیاروں کی خریداری میں امبانی ریلائنس کے نام سے اپنا حصہ پتی رکھنے کے جرم کو چھپانے اور ساتھ ہی نریندر مودی اپنے دوست کی مدد کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف آخری حد تک جانے کی تیاریوں کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ27 ستمبر کو امریکی قونصلیٹ جنرل کی آرمی چیف سے کی جانے والی ملاقات دو طرفہ تعلقات تک کی گفتگو تھی تو یہ غلط ہے‘ بلکہ آرمی چیف نے بھارت کی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل وحمل بارے لازمی بریف کیا ہوگا۔
بھارت اپنی فوجوں کو کس طرح لائن آف کنٹرول پر ڈیپلائے کر رہا ہے‘ تو اس کے لیے 27 ستمبر کو دیکھا گیا کہ 60 کے قریب بھارتی فوج کے بڑے بڑے ٹرک اور کچھ جیپیںبانڈی پورہ اورGURAZE کیمپ سے نکلے اور ٹرکوں اور جیپوں پر مشتمل یہ کانوائے چار چار کی پیکٹ میں رات گئے حرکت کرتے رہے ۔یہ فوجی کانوائے جو چار چار پیکٹ میں حرکت کر رہا تھا ‘اوپر لکھے گئے مقامات پر پہنچالیکن اگلی صبح جو چیز مشاہدہ میں آئی اس کے مطا بق ان میں سے ایک مکمل خالی پیکٹ وہاں سے واپس جاتا دکھائی دیا۔ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ تین بٹالینSTR تانگ دھر اور جوڑا سیکٹرز برائے CASOلائن آف کنٹرول کے قریب کے جنگلات میں ڈیرے ڈالتے دیکھی گئی۔کافی عرصے تک بھارتی فوج کی یہ بٹالینز اس حصے کے مختلف مقامات کی چھان بین کرتی رہیں اور اس وقت ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لائن آف کنٹرول کے بہت ہی قریب ڈیپلائے ہو چکی ہیں۔
25 ستمبر کو علی الصبح 80 کے قریب بھارتی فوج کے وہیکلز جن پر اسلحہ‘ راشن اور مکمل جنگی وردی پہنے بھارتی فوجی بارہ مولا پہنچے تھے‘ انہیں مختلف اطراف میں ڈیپلائے کیا جا رہا ہے۔اگر ہم لائن آف کنٹرول اور مقبوضہ کشمیر کے فوجی نقشوں کو سامنے رکھیں تو باہ مولا کا یہ علا قہ پاکستان کی مشہور لیپا وادی کے قریب ہے اور اس کا کچھ حصہ چھمب سے بھی جا ملتا ہے۔پاکستان کے کیل سیکٹر سے کوئی تین کلو میٹر دوسری جانب واقع بھارت کے کالا روس سیکٹر میں ہیوی توپ خانوں کی کیمو فلاجنگ دیکھی گئی ہے اور پاکستان کے لیے یہ انتہائی الرٹ حصہ ہے۔80 کے قریب قلی یا سامان لے جانے میں مہارت رکھنے والے مزدورTANGDHAR سیکٹر سے لائن آف کنٹرول کی طرف لے جائے گئے‘ جو فارورڈ مورچوں اور بھارتی فوج کی پوسٹوں تک فوجی ساز و سامان کی ترسیل اور ڈمپنگ کے لیے بلائے گئے تھے۔24/25 کی درمیانی شب15 IA وہیکلز سری نگر سے ہنڈوارہ‘ کپواڑہ ‘ ماچھل روٹ کی جانب چلتے دیکھے گئے ‘اور پھر25 ستمبر کی درمیانی رات ایک بجے کے قریب12 IA فوجی ٹرک جو ترپال سے مکمل طور پر ڈھکے ہوئے تھے‘ اسی سیکٹر کی جانب جاتے ہوئے دیکھے گئے جو انتہائی اہم ہے۔
سپیشل ٹاسک فورس کے20 کے قریب جوان جو سول آبادیوں میں ٹھہرائے گئے ہیں ان کے بارے میں اطلاعات یہ مل رہی ہیں کہ وہ کرن سیکٹر کے ارد گرد مشکوک افراد اور ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہیں‘ تاکہ و ہاںکی مسلم آبادی کی سرگرمیوں کو مانیٹر کر سکیں۔اپنے اس مضمون میں لائن آف کنٹرول کے چپے چپے پر بھارتی فوج کے توپ خانے اور اس کی فوج کی مختلف یونٹوں کی ڈیپلائمنٹ لازماََ پاکستان کی فوجی قیا دت کے علم میں ہو گی لیکن میرے وطن عزیز کی عسکری قیا دت اور خفیہ ایجنسیوں کو عیار اور مکار دشمن کی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر وقت اس طرح الرٹ رہنا ہو گا کہ دشمن ملک کے کسی بھی حصے اور سیکٹر کا انتخاب کر سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved