تاریخی واقعات کو ہم اس طرح دیکھتے ہیں کہ جوکچھ ہوا اس کے کیا اسباب تھے اور بعد میں کیا نتائج پیدا ہوئے۔ تاریخ کے طالب علم جب امتحان دیتے ہیں تو اس میں بھی ان سے سوالات اس طرح ہی کیے جاتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے اسباب پر روشنی ڈالو یا پھر یہ پوچھا جاتا ہے کہ جنگ افغانستان کا جو جنیوا میں معاہدہ ہوا تھا اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے۔ علیٰ ہٰذ القیاس بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ کل کائنات میں پتّہ بھی پروردگار کے حکم یا اذن کے بغیر نہیں ہلتا۔ تو پھرکیوں ہم تاریخی واقعات کا اس تناظر میں بھی جائزہ نہیں لیتے۔ ہر تاریخی واقعہ میں اگر ہم اس پہلو پر بھی غورکریں کہ کائنات کے مالک کا اس واقعے کو وقوع پذیر کرانے میں کیا منشا ہو سکتا ہے تو ممکن ہے تاریخ کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ ہم جو اندازہ لگائیں گے ہو سکتا ہے وہ صحیح نہ ہو لیکن مجھے یقین ہے ایسی کوشش پر کوئی قدغن نہیں ہوسکتی اور پھر یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ ذات جو علیم و خبیر ہے اپنی رحمت سے ایسی کوشش کرنے والے کو سچائی تک پہنچا دے۔ میں اس بات کو ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مسلمانوں میں قرونِ اولیٰ میں یہ شدید خواہش تھی کہ وہ قسطنطنیہ فتح کریں۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس شہر کو فتح کرنے کے جہاد میں حصہ لینے والے تمام مجاہد جنتی ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی غرض سے قرونِ اولیٰ سے شروع ہو کر پندرھویں صدی عیسوی کے وسط تک مسلمانوں کی طرف سے مسلسل کوششیں ہوئیں مگر پروردگار نے ان میں سے کسی کوشش کو پذیرائی نہ بخشی۔ آخر کار سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ قسطنطنیہ میں صدیوں سے ایسے خاندان رہ رہے تھے جن کے پاس گھروں میں یونانی علم و فن کے خزانے نسل در نسل چلے آ رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اپریل 1453ء میں جب سلطان محمد فاتح نے اس شہر پر چڑھائی کی تو یہ لوگ خطرہ بھانپ کر قسطنطنیہ چھوڑ کریورپ کے دوسرے شہروں کی طرف کوچ کر گئے تھے۔ بعض یورپی مفکرین کا خیال ہے کہ ان لوگوں کے پاس جو یونانی دانش محفوظ تھی وہ جب یورپ میں پھیلی تو اس سے علوم میں وہاں لوگوں کی دلچسپی بڑھی اور یوں ان مفکرین کی رائے میں تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا۔ تاریخ دان تحریک احیائے علوم کے اور بھی اسباب بیان کرتے ہیں جو کہ قرین قیاس بھی ہیں لیکن قسطنطنیہ سے اس انخلا کو اس تحریک کا ایک سبب اکثر مفکرین مانتے ہیں۔ اب اگر ہم اس بات پر اس پہلو سے غور کریں کہ خداوندتعالیٰ نے کیوں قسطنطنیہ فتح ہونے میں اتنی تاخیر ہونے دی تو جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ پروردگار پندرھویں صدی تک مسلمانوں کا دنیا میں عروج رکھنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ اور مسلمان واقعتاً چھائے رہے۔ یہ تحریک احیائے علوم تھی جس نے یورپ کو Dark ages سے جگایا اور پھر انہوں نے جو آگے بڑھنا شروع کیا تو آج تک ان کو عروج حاصل ہے۔ قسطنطنیہ کی فتح میں تاخیر سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ پروردگار کا یہ فیصلہ مسلمانوں کیلئے رحمت ثابت ہوا۔ اگر یہ فتح پانچ صدیاں پہلے ہوجاتی اور یورپ جاگ جاتا تو پھر تاریخ مختلف ہوتی۔ پروردگار کے فیصلے ،یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی باعث رحمت ہوتے ہیں وہ تو کل جہانوں کا مالک ہے۔ غیرمسلموں کے ضمن میں آپ کو نیوٹن کی مثال دیتا ہوں۔ نیوٹن کو بلاشبہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا سائنسدان سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سائنسی عظمت کا انحصار بنیادی طور پر اس کی معروف زمانہ تصنیف Principia پر ہے۔ اس کتاب میں طبیعات کے جو بنیادی قوانین بیان ہیںوہ 1665ء میں جب نیوٹن کی عمر 23 برس تھی اس کے ذہن میں مکمل شکل میں موجود تھے لیکن موصوف کو ان قوانین کی اہمیت کا یا تو پورا اندازہ نہ تھا یا کوئی اور خوف تھا کہ اس کے سات برس بعد جا کر نیوٹن نے ان قوانین طبیعات کو تحریری شکل دی۔ اس تحریر کو بھی موصوف نے اپنی میز کی دراز میں ڈال دیا اور مزیددس برس تک یہ نادر الوجود کتاب نیوٹن کے دراز میں بند رہی اور موصوف اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار نہ کرسکے کہ اس کو منظر عام پر لائیں۔ وہ شاید نہ ہی لا پاتے مگر اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ ایک اور سائنسدان جس کا نام Edmond Halley تھا اور جس کے نام سے Halley`s comet یعنی ہیلی کا دم دار ستارہ فلکیات کی دنیا میں مشہور ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بہت ساری سائنسی دریافتیں کیں مگر اس کی سب سے اہم دریافت یہ تھی کہ اس نے نیوٹن کی میزکے دراز میں Principiaکا مسودہ دریافت کیا تھا۔ Halley کی اس مسودے پر نظر پڑنا بھی منشائے ایزدی تھا کیونکہ موصوف ہی نے اس کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا۔ نیوٹن کی میز کی دراز میں مسودہ Principia کا حصہ اوّل تھا۔ Halley نے نیوٹن کو اس کتاب کا دوسرا اور تیسرا حصہ لکھنے پر ایک طرح سے مجبور ہی کردیا اور پھر اس کتاب کی اشاعت پر اُٹھنے والے اخراجات کا بھی خود ہی انتظام کیا اور اپنی نگرانی میں چھپوایا۔ اب چونکہ پروردگارنے Principia کی اشاعت اور دنیائے سائنس پر احسان عظیم کا وہ وقت مقرر کردیا تھا تو ایسا ہوا وگرنہ اگر بات محض نیوٹن کی مرضی تک رہتی تو شاید Principia مکمل نہ ہوتی اور بس اس کا پہلا حصہ نیوٹن کی میز کے دراز میں بند رہ جاتا۔ ان معروضات سے یہ مطلب ہرگز نہ نکالیے کہ انسانی کوشش کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسانی کوشش ہی دراصل سب کچھ ہے اور اسی کے نتیجے میں پروردگار انسانوں کے لیے فیصلے کرتا ہے۔ میں نے تو تاریخی حقیقتوں کو سمجھنے کا ایک انداز پیش کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved