تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     30-09-2018

اخلاقی اور مالی کرپشن

ہمارا معاشرہ اس وقت مالی اور اخلاقی کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کے بہت سے مؤثر افراد اور سیاسی قائدین پر بھی مالی بدعنوانی کے الزامات لگتے رہتے ہیںاور آئے دن اُن کی مالی کرپشن کے حوالے سے مقدمات قائم کر نے کی باز گشت بھی معاشرے میں سنائی دیتی ہے‘ اسی طرح اخلاقی بے راہ روی کے واقعات بھی بکثرت دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے مختلف آراء کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کی نظر میں اخلاقی بے راہ روی کوئی بڑا جرم نہیں اور وہ اس کو ایک انفرادی مسئلہ سمجھتے ہیں جب کہ مالی کرپشن کو اجتماعی نوعیت کا جرم تصور کرتے ہیں۔ اس کے مدمقابل ایسے لوگ بھی مل جائیں گے‘ جو مالی کرپشن کو معمولی مسئلہ سمجھتے ہیں اور اخلاقی بے راہ روی کو بہت بڑا عیب گردانتے ہیں۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کرپشن کی دونوں قسمیں ہی ہر اعتبار سے مذموم ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دونوں قسم کی قباحتوں کی شدید انداز میں مذمت کی ہے۔ سورہ ہود میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دو بے اعتدالیوں میں ملوث دو اقوام پر اپنے بھیجے ہوئے عذاب کا ذکر کیا۔ قوم مدین پر عذاب آنے کی وجہ مالی بدعنوانی اور قوم لوط پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وجہ اخلاقی اور جنسی بے راہ روی تھی۔ قوم مدین کے حوالے سے قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر بہت تفصیل سے ارشادات فرمائے‘ جن میں سے سورہ ہود کا مقام درج ذیل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ہود کی آیت نمبر84 سے 88 تک ارشاد فرماتے ہیں: ''اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا گیا) اس نے کہا :اے میری قوم (ایک) اللہ کی عبادت کرو نہیں ہے‘ تمہارے لیے کوئی معبود اس کے سوا اور نہ کمی کرو ماپ اور تول میں۔ بے شک میں دیکھتاہوں ‘تمہیں اچھے حال میں اور بے شک میں ڈرتا ہوں‘تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب سے۔ اور اے میری قوم! پورا کرو ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ اور نہ کم دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت پھرو زمین میں فسادی بن کر۔ اللہ کا باقی دیا ہوا (جائز منافع) بہتر ہے‘ تمہارے لیے اگر تم ایمان لانے والے ہو اور میں تم پر ہرگز کوئی نگہبان نہیں ہوں ۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں (وہ معبود) جن کی عبادت کرتے تھے ہمارے آباء واجداد یا یہ کہ ہم کریں اپنے مالوں میں جو ہم چائیں بے شک تو یقینا بہت برد باد بڑا سمجھ دار ہے۔ اس نے کہا: اے میر ی قوم! کیا تم نے دیکھا (غور کیا) اگر میں واضح دلیل پر ہوں اپنے رب کی طرف سے اور اس نے مجھے رزق دیا ہو‘ اپنی طرف سے اچھا رزق (اسے چھوڑ کر میں حرام کیوں کھاؤں) اور نہیں میں چاہتا کہ میں تمہارے خلاف (ارتکاب ) کروں‘ اس کی طرف جس سے میں تمہیں منع کرتاہوں ۔میں نہیں چاہتا‘ مگر (تمہاری) اصلاح جتنی میں کرسکوں اور نہیں ہے‘ میری توفیق مگر اللہ (کی طرف) سے‘ اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے لوگ جب مسلسل بغاوت پر آمادہ وتیار رہے‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ایک چنگھاڑ کے ذریعے تباہ وبرباد کر دیا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ہود کی آیت نمبر 94 سے95 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب آیا ہمارا حکم (عذاب کا تو) ہم نے نجات دی شعیب کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اس کے ساتھ اپنی طرف سے رحمت کے ساتھ اور پکڑ لیا ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا چیخ نے تو ہو گئے وہ اپنے گھروں میںاوندھے منہ گرے ہوئے۔ گویا کہ نہیں وہ رہے ان (گھروں) میں۔ خبردار دوری ہے (اہل) مدین کے لیے جیسا کہ دور ہوئے ثمود (رحمت سے)‘‘۔ 
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنسی بے راہ روی کی انتہاء کو پہنچ جانے والی قوم قوم لوط کا ذکر بھی کیا۔ سورہ ہود میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس قوم کا ذکر 77 سے 83 تک یوں فرماتے ہیں: ''اور جب آئے ہمارے قاصد (فرشتے) لوط کے پاس وہ مغموم ہوا ان کی وجہ سے اور تنگ ہوا ان کی وجہ سے دل میں‘ اور کہا: یہ دن بہت سخت ہے۔ اور آئے اس کے پاس اس کی قوم (کے لوگ) (گویا کہ ) وہ سختی سے ہانکے جا رہے تھے ‘اس کی طرف ۔اور پہلے سے ہی وہ برے کام کیا کرتے تھے۔ اس نے کہا :اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں‘ وہ زیادہ پاکیزہ ہیں‘ تمہارے لیے تو اللہ سے ڈرو اور نہ رسوا کرو مجھے میرے مہمانوں میں کیا نہیں ہے‘ تم میں کوئی بھلا آدمی۔ انہوں نے کہا بلاشبہ یقینا تو جان چکا ہے (کہ) نہیں ہے‘ ہمارے لیے تیری (قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (رغبت) اور بے شک تو یقینا جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس نے کہا: کاش ! واقعی ہوتی میرے لیے تمہارے مقابلے کی طاقت یا میں پناہ لیتا‘ کسی مضبوط سہارے کی طرف۔ انہوں نے کہا: اے لوط! بے شک ہم قاصد ہیں‘ تیرے رب کے ہرگز نہیں وہ پہنچ سکیں گے آپ تک۔ سو ‘لے چل اپنے گھروالوں کو رات کے کسی حصے میں اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھے تم میں سے کوئی ایک سوائے تیری بیوی کے ‘ بے شک یہ (یقینی بات ہے کہ) پہنچنے والا ہے اسے (وہ عذاب) جو پہنچے گا انہیں۔ بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے کیا نہیں ہے صبح بالکل قریب؟ پھر جب آیا ہمارا حکم ہم نے کر دیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے والا اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر پتھر کھنگر (کی قسم) سے تہہ بہ تہہ۔ (جو) نشان زدہ تھے‘ تیرے رب کے ہاں سے اور نہیں وہ ظالموں سے ہرگز دور۔ ‘‘
ان قوام کا ذکر پڑھنے کے بعد اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مالی اور اخلاقی بدعنوانی کے مرتکب لوگوں کو ہلاکت کے کس قدر بڑے گڑھے میں گرا دیا۔ ہمیں اس حوالے سے اپنے رویوں اور سوچ وفکر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم بعض سنگین نوعیت کے جرائم کے بارے میں نرم رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ میں مذکور بعض اہم تدابیر کو اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے؛ اگر ان تدابیر کو اختیار کر لیا جائے‘ تو مالی اور جنسی بے راہ روی پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔1۔ خشیت الٰہی: مادی کشمکش نے لوگوں کی اکثریت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بہت دور کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف سے بے نیاز ہو کر فقط اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہیں ۔ یہ بات زندگی کے تمام شعبوں میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ نفسا نفسی کی اس کیفیت کی وجہ سے نا تو لوگ مال حلال کمانے پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے میں روحانی اقدار کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں منبرومحراب اپنا جو کردار ادا کر رہے ہیں‘ اس کے ساتھ پوری ریاست اور پورا سماج ایمان باللہ اور خشیت الٰہی کی کیفیت کو بھر پور طریقے سے اجاگرکریں ‘تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جوابدہی کے احساس کی وجہ سے نفوس انسانی میں تزکیہ‘ پاکیزگی اور طہارت کی کیفیت پیدا ہو۔ 2۔ ارکان اسلام کی ادائیگی: ارکان اسلام بالخصوص نماز کو صحیح طریقے سے قائم کرنے کی وجہ سے انسان فحاشی وعریانی اور منکرات سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 45میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ ہر نماز کو احسن طریقے سے ادا کرنے والا شخص جب کبھی نفس امارہ کی اکساہٹ کی زد میں آتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ احساس بھی بیدا رہو جاتا ہے کہ میں اگلی نماز میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کس چہرے کو لے کر حاضر ہوں گا۔ چنانچہ وہ اپنی منفی خواہشات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے جذبے کے سبب دبا لیتا ہے اور نیکی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ 3۔ اسلامی سزاؤں کا نفاذ: معاشرے میں مالی بدعنوانی اور بے راہ روی کی روک تھام کے لیے قرآن وسنت میں مذکور سزاؤں کا التزام کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر معاشرے میں بدی کی روک تھام کے لیے اسلامی سزاؤں کو نافذ کر دیا جائے تو سزا کے خوف سے بہت سے بد دیانتی اور حیوان صفت لوگ بے حیائی اور بدکرداری کے راستے پر چلنے سے باز آ سکتے ہیں۔ 4۔عدالتی اختیارات میں وسعت اور ریاستی اداروں کی نگرانی: مالی بدعنوانی اور جنسی بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے عدالتوں کے کردار کو مؤثر بنانا اور ریاست کے بااختیار اداروں کو فعال کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جدید سائنسی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے مجرم تک رسائی حاصل کرنا پہلے کے مقابلے میں بہت آسان ہو چکا ہے‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عام طور پر مجرم کوئی نہ کوئی سیاسی سہارا یا سماجی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کا کندھا میسر آ جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے مجرم کا صحیح طریقے سے احتساب نہیں ہو پاتا۔ اخلاقی بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے پردے داری کے فروغ ‘ اختلاط کے خاتمے اور نکاح کو آسان بنانے کی بھی ضرورت ہے؛ اگر ان تمام تجاویز پر خلوص نیت اور دیانت داری سے عمل کرلیا جائے‘ تو یقینا معاشرے سے مالی بدعنوانی اور بے راہ روی کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved