تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-09-2018

زندگی کی کہانی کا آخری باب

ایک زندہ چیز تخلیق کرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔اس کی قدر ان سائنسدانوں سے پوچھیے ‘ جو مریخ اور دوسری زمینوں پر ایک جاندار ڈھونڈنے کے لیے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں ؛اگر انہیں وہاں کاکروچ جیسا ایک مکروہ کیڑاتو دور کی بات ‘ اپنی نسل بڑھانے کے قابل ایک بیکٹیریا بھی مل جائے‘ تو خوشی سے وہ پاگل ہو جائیں ۔انہیں یہ پوری کہانی سمجھ آجائے کہ زمین پر زندگی کیسے پیدا ہوئی ۔ اس کہانی کو سمجھنے کے لیے‘ قدیم فاسلز اور ڈی این اے کو پڑھنے کے لیے دنیا بھر میں جدید ترین لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں ۔ایسے آلات اور سپر کمپیوٹرز ایجاد کیے گئے ہیں ‘ جن سے ان چیزوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ زمین کھود کر گہرائیوں میں دفن پرانی تہذیبوں کو ڈھونڈا جاتا ہے ۔لوگ دور دراز کے سفر طے کر کے پرانی تہذیبوں کو دیکھنے جاتے ہیں ۔
ایک جاندارچیز ‘ ایک کتا اور ایک بلی پیداکرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کی صورت میں ایک مرکزی اعصابی نظام بنانا پڑتا ہے ‘ جو کہ پورے جسم سے زندگی برقرار رکھنے والے (Life Sustaining)افعال سر انجام دلواتا رہے ۔جسم و دماغ کے ایک ایک خلیے کو توانائی فراہم کی جاتی ہے ؛اگر ایک خالق کی حیثیت سے دیکھیں‘ تو ہر جاندار کے زندگی بھر کے رزق کا بندوبست کرنا پڑتا ہے ۔ ایک ایک خلیے سے فاضل مادے اکھٹے کر کے انہیں جسم سے باہر نکالنے کا بندوبست کیا جاتاہے ۔ تخلیق کرنے والے کی طرف سے بھوک کا احساس‘ذائقے کا احساس‘ مثانہ پیشاب سے بھر جانے کا احساس اور اسے خالی کرنے کے لیے مثانے کے عضلات میں سکڑ جانے کی صلاحیت‘ ٹانگ پر چوٹ لگنے کا احساس اور دوسرے تمام احساسات کو دماغ تک پہنچانے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں‘ تو جاندار کبھی بھی اپنی زندگی کی حفاظت نہ کر پاتے ۔ اس کے علاوہ نر اور مادہ میں ایک دوسرے کے لیے محبت رکھی گئی ہے ‘ جو کہ زندگی کو برقرار رکھنے والا سب سے اہم عنصر ہے ۔اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو زندگی اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتی ۔ 
سیارہ ٔ ارض پہ زندہ چیزوں کی قدر کیوں نہیں ؟ اس لیے کہ یہاں زندہ چیزیں بہتات میں ہیں ۔ پانی کے ہر قطرے میں خوردبینی جاندار موجود ہیں ۔ ہمارے جسم کے اندر آنتوں میں یہ جرثومے موجود ہیں ۔یہ زندہ چیزیں انٹارکٹکا کی برفانی جھیلوں میں موجود ہیں ۔ افریقا کے جنگلات میں ‘ ہمالیہ کے پہاڑوں میں ‘ ریگستانوں میں اورکرۂ ارض کی فضا میں ‘ ہر جگہ ۔ یہ جاندار رینگتے ہیں ‘ چار ٹانگوں پہ چلتے ہیں ‘ پروں کی مدد سے اڑتے ہیں ۔پرائمیٹس کی صورت دو ٹانگوں اور دو بازوئوں کا استعمال کرتے ہیں ۔جب کسی چیز کی بہتات ہو‘ جب وہ مٹی کی طرح ہر کہیں موجود ہو تو اس کی قدر ختم ہو جاتی ہے ۔ 
ان سب چیزوں کو پڑھنے کے بعد انسان اگر کرۂ خاک پہ زندگی کی تخلیق کا آخری باب پڑھے‘ تو خوفزدہ ہو جائے ۔ یہ بات درست ہے کہ زندگی اس سیارے پر پید اہوئی اور پھلی پھولی۔کئی بار اسے ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچا۔ ہمیشہ یہ نت نئی شکلوں میں دوبارہ پھوٹ پڑی اور اپنے جوبن پر آئی ۔اس آخری باب میں لکھا ہے کہ اگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود امیون سسٹم ‘ قدرتی مدافعاتی سسٹم نہ ہوتا تو زندگی نے مکمل طور پر تباہ ہو جانا تھا۔ باوجود اس کے کہ گردے‘ پھیپھڑے‘ مرکزی اعصابی نظام‘ جلد‘ پٹھے‘ ہڈیاں ‘ معدے ‘ خوراک کی نالی‘ آنتیں ‘ خون کی نالیاں ‘ Nerves جگر‘ کان اور آنکھیں ‘ سب کچھ درست طور پر کام کر رہی ہوتیں‘ لیکن صرف امیون سسٹم نہ ہوتا تو کرہ ٔ ارض پہ زندگی کی یہ عظیم الشان عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ۔ نہ درختوں پہ چھلانگ لگاتا کوئی بندر باقی بچتا‘ نہ چاند اور حسین چہرے دیکھ کر شاعری کرنے والا شاعر اور نہ ہی اونچے درختوں کے پتے کھانے والا زرّافہ۔
قدرتی مدافعاتی نظام(Immune System) نہ ہوتا ‘تو کچھ بھی نہ ہوتا۔اربوں سال کی محنت کے بعد اس زمین کی لیبارٹری میں جو بھی زندہ چیزیں پیدا ہوتیں‘ وہ اپنی موت آپ مر جاتیں ۔سب کیے کرائے پر پانی پھر جاتا۔ ایک زندہ خلیے والے جرثومے سے لے کر 37ٹرلین خلیات والے انسان تک ‘ سبھی ہمیشہ بیمار رہتے اور بہت جلد موت سے ہمکنار ہوتے ۔ یہ امیون سسٹم نہ ہوتا تو انسان کبھی دنیا کو فتح کرنے کے خواب نہ دیکھتا ‘بلکہ ہوش سنبھالنے کے بعد یا اس سے پہلے ہی اپنے زخم چاٹتا ہوا مر جاتا۔ جنگلات جانوروں سے بھرپور نہ ہوتے۔ ہمیں کھانے کے لیے بکری اوربیل دستیاب نہ ہوتے ۔ کوئی اس قابل ہی نہ ہوتا کہ جوانی کو پہنچے اور اپنی نسل آگے بڑھا سکے ۔
انسان کے پھیپھڑے ہوا سے آکسیجن کشید کر رہے ہوں‘ اس کے گردے خون کی صفائی کر رہے ہوں‘ اس کا دل بھرپور انداز میں دھڑکتے ہوئے خون کو پمپ کر رہا ہو‘ اس کی آنکھیں اپنے ماحول کا جائزہ لینے کے قابل ہوں‘جگر خون بنا رہا ہو‘معدہ خوراک کو پیس رہا ہو ‘ ٹانگیں کام کر رہی ہوں ‘ اس کے کان‘ توازن کا نظام‘ خون کی نالیاں ‘ nerves جلد ‘ سب کچھ ہو‘ لیکن صرف یہ ایک امیون سسٹم نہ ہو تو زندگی ایک اذیت ناک سزا سے زیادہ کچھ نہ ہوتی ۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ سکندرِ اعظم جیسا فاتح جوانی میں بیماری سے فوت ہوا۔ ظہیر الدین بابر ‘جیسا بادشاہ صرف 49برس کی عمر میں ٹی بی سے مر گیا ۔صرف ایک جرثومہ بھی انسان کے جسم میں گھس جائے ‘تو تباہی مچا سکتا ہے ۔ 
اگر آپ کو کبھی زندگی میں ایسے کسی شخص سے ملاقات کا موقع ملے‘ جس کا کوئی عضو (Organ)ناکارہ ہو گیا ہو۔ اس نے کسی اور سے وہ عضو ٹرانسپلانٹ کروایا ہو ۔ جس شخص کا امیون سسٹم ڈاکٹرز نے کمزور کر دیا ہو‘ تاکہ جسم نئے عضو کو مسترد نہ کرے‘ تو یہ شخص آپ کو مسلسل بیماری سے گزرتا ہوا نظر آئے گا ۔ اس کی زندگی اذیت ناک ہوگی ۔ وہ منصوبے بنانے اور ان پر عمل کرنے کے قابل نہیں رہ جاتا‘بلکہ اس کی تمام تر جدوجہد صرف زندہ رہنے تک محدود ہو جاتی ہے ۔ایسے شخص سے ملنے کے بعد انسان کو اس امیون سسٹم کی قدر معلوم ہوتی ہے ‘ جسے وہ for grantedلیتا ہے ۔ رات بھر سو کر صبح وہ تازہ دم اٹھتا ہے ۔ اس کے جسم میں توانائی موجود ہوتی ہے ۔ وہ کھانا کھاتا ہے ‘ چلتا پھرتا ہے ‘ دماغ استعمال کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر کھربوں ڈالر مالیت کے اس امیون سسٹم کی وجہ سے بیماریوں سے بچا رہتا ہے ؛ اگر بیماری لاحق ہو بھی جائے تو اسی امیون سسٹم کی وجہ سے دوبارہ تندرست ہو جاتاہے ۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ ادویات تنہا کچھ بھی نہ کر سکتیں ‘ اگر انہیں اس امیون سسٹم کی مدد حاصل نہ ہوتی ۔ 
ایسی چیز کی آپ کیا قیمت لگا سکتے ہیں ؟ دنیا کی تمام دولت خرچ کر کے بھی‘ جسے لیبارٹری میں تیار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ مفت میں میسر ہے ۔ اس کے باوجود زندگی سے ہمارے گلے شکوے ہیں کہ دور ہونے میں ہی نہیں آتے ۔ کیوں نہ انسان یہ سب تخلیق کرنے والے کی محبت میں ڈوب جائے۔ کیا وہ محبت کے لائق نہیں ‘ جس نے یہ سب تخلیق کیااور یہ سب بندوبست کیا؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved