تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-10-2018

مہلت لامحدود نہیں ہوتی

وقت آ گیا ہے کہ عمران خان فیصلے صادر کریں۔ چند دن کے لیے شاید انہیں تنہائی اختیار کرنی چاہیے‘ کسی الگ تھلگ مقام پہ چلے جانا چاہیے۔ اس تنہائی میں غیرسرکاری ماہرین سے مشورہ کرنا چاہیے۔ کوئی مہلت لامحدود نہیں ہوتی۔
جو ذمہ داری قبول کرتا ہے‘ معاملات اسی کو نمٹانا ہوتے ہیں۔ چیزوں کو معلق نہیں رکھا جا سکتا۔ زندگی اسی کا نام ہے‘ ہر چند قدم کے بعد دو میں سے کوئی ایک قدم۔ دائیں یا بائیں‘ شمال یا جنوب‘ مشرق یا مغرب۔ کسی غلط فیصلے کی تلافی ممکن ہے۔ آدمی متامل کھڑا نہیں رہ سکتا۔ یہ ادراک یا شخصیت کی کمزوری ہوتی ہے۔ 
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے 
سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ میں اس مرض کی واضح الفاظ میں نشاندہی ہے‘ جو پاکستانی معیشت کو لاحق ہے۔ اخراجات زیادہ ہیں اور آمدن کم۔ حالت یہی رہی۔ بنیادی فیصلے صادر نہ کیے گئے تو بحران بڑھتا رہے گا۔ مرض پھیلتا جائے گا۔ علاج اور بھی مشکل ہوگا۔ 
بارہ سو ارب روپے سرکاری کارپوریشنوں پہ ضائع ہوتے ہیں۔ سٹیل مل‘ بجلی‘ ریلوے‘ پی آئی اے‘ یوٹیلیٹی کارپوریشن‘ سرکاری ٹیلی ویژن اور پاکستان ریڈیو وغیرہ وغیرہ۔ بتایا گیا ہے کہ وزیرخزانہ اسد عمر اداروں کی نجکاری کے خلاف ہیں۔ ایک سے زیادہ بار ناچیز نے اس موضوع پر ان سے بات کرنے کی کوشش کی۔ ہر بار انہوں نے ٹال دیا۔ کہا کہ کھانے کی میز پہ تبادلہ خیال ہو گا۔ جانے وہ لمحہ کب آئے گا کہ ان کا مافی الضمیر معلوم ہو سکے۔ خم آئے گا‘ صراحی آئے گی‘ تب جام آئے گا۔
کیا فیصلہ کرنے والے آدمی کے ذہن میں وسوسوں کے سنپولیے رینگتے ہیں؟ اندیشوں میں مبتلا لوگ کارِحکمرانی انجام نہیں دے سکتے۔ محمود غزنوی کے بعد غزنوی سلطنت زوال پذیر ہوئی۔ اس کے بھائی بادہ نوش مسعود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے تذبذب نے کھا لیا۔ مرحوم بھائی کے ہاتھوں پامال ہونے والے جنوب سے چیلنج درپیش ہوتا‘ مگر وہ شمال میں ماورالنہر کا رخ کرتا۔ وزیرخزانہ کیا یہ چاہتے ہیںکہ نجکاری سے پہلے ان اداروں کو بہتر بنایا جائے؟ کیا وہ ملازمین کے ردّعمل سے خوف زدہ ہیں؟جو کچھ ہے بطنِ شاعر میں ہے۔ چھ کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے ہیں۔ یعنی دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ روزگار حکومت کی ذمہ داری ہے تو ان سبھی کی ذمہ داری اٹھانا چاہیے۔ جی ہاں ریاست اس قدر وسائل نہیں رکھتی۔ پھر لاکھ‘ ڈیڑھ لاکھ ملازمین کے لیے معیشت یرغمال کیوں ہے۔ 
2007ء میں چیف جسٹس افتخار چودھری نے سٹیل مل کی نجکاری روک دی تھی۔ اب تک سینکڑوں ارب روپے ضائع ہو چکے۔ آج بھی ہم تاریکی میں ہیںکہ آنے والا دن کیا لائے گا۔ ملازمین کا مستقبل محفوظ ہے اور نہ معیشت کا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ایک عشرہ قبل کچھ امدادی رقم دے کر ان لوگوں کو سبکدوش کر دیا جاتا۔ اب تک ان کے قدم جم چکے ہوتے۔ ملک بھی بوجھ سے نجات پا لیتا۔ 
تین چار سو ارب روپے کی بجلی چوری کرلی جاتی ہے۔ قبائلی علاقے‘ بلوچستان اور دیہی سندھ سمیت بعض علاقوں کے مکین بجلی کے بل ادا نہیں کرتے۔ روک تھام تو دور کی بات ہے‘ ابھی تک کوئی جامع منصوبہ ہی نہیں بنایا گیا۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ سب بجلی چوروں کے کنکشن منقطع ہونے چاہئیں۔ ظاہر ہے کہ ایک مضبوط فیصلے‘ صوبائی حکومتوں کی تائید اور پولیس کی تشکیل نو کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ آج اگر منصوبہ بنے تو چند ماہ کے بعد نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے۔ کہیں سے آغازِ کار تو ہو۔ شش و پنج سے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ویران زندگی ویران ہی رہتی ہے۔ کسی شاخ اور شجر پہ کوئی کونپل نہیں پھوٹتی‘ کوئی شگوفہ نہیں کھلتا‘ ثمر تو دور کی بات ہے۔ آغا شورش کاشمیری نے کہا تھا: بہادر کا سفینہ منجدھار میں ڈوبتا ہے اور بزدل کا کنارے پر۔ خاک آلود زندگی سے گلے مل کر جینے والے استاد دامن کا ایک شعر یہ ہے:
رانجھا تخت ہزاریوں ٹرے تے سہی
پیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آئوندا
خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کو بہتر بنانے کی اپنی سی کوشش کی تو نتائج نکلے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب تین گنا مسافر ریل گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ دو چیزیں رکاوٹ بن کے کھڑی رہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کا بہت سا قیمتی وقت سیاست کی نذر ہو جاتا‘ ثانیاً ذاتی کاروبار میں بھی۔ محنتی وہ بہت ہیں لیکن ادارے کو دلدل سے نکالنے کے لیے سینکڑوں ارب روپے درکار تھے۔ مسافروں سے منافع کا حصول ممکن نہیں بلکہ صرف مال گاڑی سے۔ حادثے پہ حادثہ ہوتا رہا۔ پہلے فوجی حکمران کے اہتمام سے بننے والے ایک ادارے نے حصّہ بٹایا۔ پھر ایک جنرل نے چین سے وہ انجن خریدے جو اب بیکار کھڑے ہیں۔ اس آدمی سے کبھی بازپرس نہ کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے دور میں فوجی قیادت نے پیچیدہ مسئلے کا جائزہ لیا۔ جنوبی کوریا میں‘ جو نیا نظام تشکیل دے رہا تھا‘ ریل کے فالتو انجن ڈھونڈ نکالے جو بہترین حالت میں‘ دس ملین ڈالر کی بجائے ایک ملین میں مہیا تھے۔ ریل کے وفاقی وزیر اور سیکرٹری کو مدعو کرکے معلومات مہیا کردی گئیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس تجویز پر کیوں عمل نہ ہو سکا۔ من مانی پر تلے رہنے والے غلام احمد بلّور کے بارے میں ایک بار قمرزمان کائرہ سے بات کی۔ بے بسی سے انہوں نے ہاتھ جھٹکے اور کہا: وہ ہماری حلیف پارٹی کے نمائندہ ہیں۔ 
سعد رفیق کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کی خواہش کے باوجود راولپنڈی‘ مظفرآباد ریل کا منصوبہ پروان نہ چڑھنے دیا۔ اس پر کئی ارب ڈالر خرچ ہوتے۔ خسارہ پانچ سات ارب اور بڑھ گیا ہوتا کہ اس راہ میں کوئی شہر آباد نہیں۔ پشاور سے کابل تک اسی طرح کے ایک اور منصوبے کی فوجی قیادت نے مزاحمت کی۔ یہ بھی میاں صاحب کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھا۔
ریل کو منافع بخش بنانے کے لیے سرکاری وسائل مہیا نہیں تو نجی اداروں کو مال گاڑیاں چلانے کی اجازت دی جائے۔ چیزوں کو برسوں تک لٹکائے رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ پی آئی اے کی تباہی پر آئے دن بات ہوتی ہے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ سرکاری اہتمام میں یہ ادارہ چل سکتا ہی نہیں۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں نجکاری کرنا ہوگی۔ نجی کمپنی کو یہ سفید ہاتھی سونپا جائے‘ ڈھنگ کے ملازمین کو برقرار رکھے‘ باقیوں کو گولڈن شیک ہینڈ دے کر معذرت کر لی جائے۔ ملک اب اسے پال نہیں سکتا۔ 
بجلی کمپنیوں کو سدھارا نہیں جا سکتا تو ان کی بھی نجکاری کی جائے۔ چھوٹے ادارے مثلاً لاہور شہر کے نو ٹائون ہیں تو نو کمپنیوں کے سپرد کیے جائیں تاکہ ان میں صحت مند مقابلہ ہو۔ اس تجویز سے جو لوگ خوف زدہ ہوں‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ساری دنیا میں چلن یہی ہے۔ حکومتیں کاروبار نہیں کیا کرتیں۔ کاروبار وہ کرتا ہے جس کا نفع نقصان اور مستقبل اس سے وابستہ ہو۔ 
1200 ارب روپے سالانہ کی بچت اگر ممکن نہ ہو تو آدھی ہی سہی۔ معیشت سنگین علالت سے چھٹکارا پا لے گی۔ ایک بڑے مرض کا نام ایف بی آر ہے۔ ٹیکس وصولی کا قومی ادارہ کرپشن کا گڑھ ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم نے ایک ایسے شخص کو سونپ دیا ہے‘ جس کی اپنی شہرت داغدار ہے۔ آخرکار اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ آج ہی کیوں نہیں اور اس کی تشکیل نو کا آغاز کیوں نہیں؟
عالی شان گھروں میں رہنے‘ بیرون ملک چھٹیاں گزارنے اور مہنگے سکولوں میں بچوں کو تعلیم دلانے والوں سے ٹیکس وصولی کا آغاز کب ہوگا؟ حکومت میں آنے سے پہلے منصوبہ بندی اگر نہ کی تو اب ہونی چاہیے۔ کب تک قوم حکمرانوں کا منہ دیکھتی رہے گی؟
وقت آ گیا ہے کہ عمران خان فیصلے صادر کریں۔ چند دن کے لیے شاید انہیں تنہائی اختیار کرنی چاہیے‘ کسی الگ تھلک مقام پہ چلے جانا چاہیے۔ اس تنہائی میں غیرسرکاری ماہرین سے مشورہ کرنا چاہیے۔ کوئی مہلت لامحدود نہیں ہوتی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved