تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-10-2018

چور… ایک جوڑا اور

یہ درخواست ضمانت پر بحث تھی۔ ملزم کا نام محمد حیات پریغال اور اس کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا۔ الزام تھا سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرنے کا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بحث ختم ہوئی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ مجھ سے سوال کیا‘ بحث ایک جانب فیصلہ میرٹ پر ہو گا‘ آپ یہ بتائیں ہم بحیثیت قوم کدھر چل نکلے ہیں۔ حساس موضوع پر انتہائی حساس سوال تھا۔
عرض کیا: سچی بات کریں تو اس سے رسوائی نکلے گی۔ سچ نہ کہنا بھی بذاتِ خود ایک جرم ہے۔ قوم کی حیثیت سے اچھائی کے بارے میں جتنا شور ہم مچاتے ہیں دنیا کا شاید ہی کوئی دوسرا سماج اس کا مقابلہ کر سکے۔ چیختی ہوئی ٹی وی سکرین۔ چنگھاڑتے ہوئے کالم اور شہ سُرخیاں۔ لائوڈ سپیکر پر آسمان کا سینہ چیرتی ہوئی آوازیں۔ لیکن ہم میں سے ہر آدمی اچھائی کا آغاز اپنے سامنے والے سے کرنا چاہتا ہے۔ سامعین سے یا مریدوں سے۔ ہم سب کو ٹھیک دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقدار، روایت، شائستگی، صبر اور درگُزر‘ سب کچھ دوسروں میں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ اسی ذہنیت کا اظہار ابنِ انشا نے یوں طشت از بام کر رکھا ہے:
حق اچھا، پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سُولی پہ چڑھو؟ خاموش رہو
دوسری بات یہ عرض کی اب حد کراس کرنے کا جذبہ افراد کے ساتھ ساتھ اداروں میں بھی کارفرما ہو گیا ہے۔ اپنے کام کے علاوہ باقی سب کو درست کر دینے کا جہاد۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ قوم اپنے اپنے ''بڑوں‘‘ کے طریقے پر چل نکلی ہے۔ چلئے صرف دو عدد تازہ وارداتیں دیکھ لیں۔ میرا مطلب ہے انٹرنیشنل چوری کی وارداتیں۔ ان میں سے ایک وارداتیا میزبان تھا اور دوسرا مہمان۔ پہلا وطن کے اندر کویتی وفد کا سرکاری خدمت گار مقرر ہوا‘ جبکہ دوسرا کئی عشروں سے قطر میں ڈالر اور دینار کے مینار تلے جھکا ہوا مہمان۔ مہمان کو عربی زبان میں ضیف کہتے ہیں۔ یعنی ضیافت اُڑانے والا۔ نہ جانے کیوں مجھے یہاں آدم سمتھ کی معاشیات پر مبنی ایک تھیوری یاد آ رہی ہے‘ جسے THEROY OF DEMONSTRATION EFFECT کہتے ہیں۔
اس معاشی نظریے کا آسان ترین ترجمہ اور مفہوم اُردو زبان کے ایک محاورے نے 100فیصد بیان کر رکھا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، والا محاورہ۔ جس دیش میں نیم خواندہ، کم تعلیم یافتہ لیڈر اور حکمران‘ اُن کی دوسری نسل اور پھر اُن کی بھی اگلی اور اُس سے بھی آگے کی نسل‘ عیش کی زندگی گزار رہے ہوں۔ ایسی عیش پرستی اور عیاشی کہ کوئین آف انگلینڈ کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی نہ کر سکیں۔ اس قدر سہولتیں‘ نوکر چاکر، پروٹوکول، ہٹو بچو‘ مفت کا مال اور دلِ بے رحم، بینکوں کے قرضے‘ دن دیہاڑے اُنہیں واپس کرنے سے انکار۔ 10 سال، 20 سال، 30 سال قرضوں پر سٹے آرڈر طاری رکھنے والا نظامِ قانون و انصاف۔ سرکار کے خرچ اور عوام کے ٹیکس پر پلنے والے سینکڑوں محافظ۔ ایسے میں Demonstration effect محنت اور سرمایہ کاری کی بجائے چوری چکاری، ڈکیتی، سینہ زوری اور مارا ماری کو آرڈر آف دی ڈے نہیں بنائے گا‘ تو اور کیا کرے گا۔پاکستانی قوم کو سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لیے ترکی کی خاتونِ اول ایمائین اُردوان کا احسان‘ اور سیلاب کے متاثرین کے غم میں نیکلس چوری کا واقعہ نہیں بھولا ہو گا۔ پھر سب کو یہ بھی یاد ہے کہ اس چوری کا نہ مقدمہ درج ہوا‘ نہ ہی قوم یہ جان سکی کہ مالِ مسروقہ کدھر چلا گیا۔ 
پہلے چور کی سٹوری آف دی چوری کا مورال یہی ہے کہ جس نظام میں سیلاب زدگان کے فنڈز کا ہدیہ چیف ایگزیکٹیو کے قدموں کی دھول ثابت ہو‘ وہاں کویتی وفد کے دیناروں سے بھرا بیگ کتنی بڑی چیز ہے۔ کل شام لاہور سے واپس پہنچا تو پتہ چلا دینار چور کو بچانے کے لیے بڑے بڑے چور ایکشن میں ہیں۔ ہر طرف ہرکارے دوڑ رہے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ چوروں کے پکڑے جانے کا رواج نہ پڑے۔ ورنہ لانگ آرم آف دی لأ بڑے چوروں کی کلائی تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔ چوروں کی جوڑی میں سے دوسرا اس قدر سرٹیفائیڈ اور مستند چور نکلا کہ سمجھ نہیں آتی اسے ٹھگ آف پاکستان کہا جائے یا عربستان کے ٹھگ کا ٹائٹل دیا جائے۔ اسلام آباد کے تھانہ روات سے لے کر بنی گالا اور بہارہ کوہ کی جھاڑیوں تک اس ٹھگ کی گاڑیوں کی فصل بکھری پڑی ہے۔ جونہی حکومت بدلی بد حواسی میں سینکڑوں گاڑیاں ویرانوں میں کھڑی کر دی گئیں۔ کہتے ہیں کہ جلے ہوئے گائوں سے جوگی سب سے برے طریقے سے بھاگتا ہے۔ ایک ایک گاڑی کروڑوں روپے کی۔ 332 گاڑیوں کی صرف ایک کھیپ۔ اسے سلطنت کا کاروبار کہا جائے یا لوٹ مار کا بازار۔ اتنی گاڑیاں تو عراقی صدر صدام حسین اور لیبیا کے کرنل معمر قذافی کے صدارتی محلات سے برآمد نہیں ہو سکیں۔ ہاں البتہ فلپائن کی ایملڈا مارکوس کے محل سے اسی قدر فیشنی جوتوں کے جوڑے برآمد ہوئے تھے۔ عالمی برادری میں صدر مارکوس کی بیوی آج بھی چورنی کے طور پر مشہور ہے۔ صدر مارکوس اور ایملڈا مارکوس کی جوڑی بھی برسرِ اقتدار رہی۔ اس جوڑی کی پہچان صرف چور... ایک جوڑا اور کے سوا کچھ نہیں۔ اس موضوع سے ملتے جلتے سوال ہی تازہ لاہور یاترا کا باعث بنے‘ جہاں پنجاب کا سابق صوبے دار بین الاقوامی شہرت رکھنے کے دعو ے دار کے طور پر‘ وزیرِ اعظم سے 10 ارب روپے مانگ رہا ہے۔ اگرچہ اس قبیل کے لوگوں کے لیے 10 ارب روپے 10 روپے کے نوٹ سے زیادہ قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ پھر بھی زر پرستی کی یہ ذہنیت سڑک پر پڑے 10 روپے کے نوٹ کو اٹھانے کے لیے محترمہ کرنسی کی لکشمی دیوی کے حضور جھک جانا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ 
قانونِ شہادت آرڈر مجریہ 1984ء میں ایک دلچسپ آرٹیکل (دفعہ) موجود ہے‘ جہاں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص پارسائی کا دعویٰ کرے‘ اچھی شہرت (good character) کلیم کر ے تو ایسے میں مخالف فریق کو قانونی طور پر اجازت ہو گی کہ پارسائی کا دعویٰ کرنے والے کی نا پارسائی‘ اور گڈ کریکٹر کے دعوے دار کو بد کردار ثابت کرنے کے لیے سوال اٹھائے۔ جرح کرے۔ ثبوت کھول کر رکھ دے۔ عمران خان کی طرف سے ایسے ہی ڈیڑھ درجن سوالات مجاز عدالت کے سامنے میرے ذریعے رکھے گئے ہیں۔ یہ تو عدالت کی بات تھی۔ و یسے اگر احتساب کا کوئی ادارہ واجبی اور عامیانہ سی تعلیم و تربیت والے 1000 سیاست کاروں، سفارت کاروں اور ریاست کے تپے داروں سے بے رحمانہ تفتیش کر ے کہ اُن کے پاس پچھلے 30,35 سالوں میں ہوش ربا اثاثے اور مدہوش کُن ڈالروں کے انبار کہاں سے آئے تو قیامت سے پہلے قیامت برپا ہو جائے گی۔ یہ تو الف لیلیٰ یعنی 1000 شب خون مارنے والوں کی بات ہو رہی ہے۔ یا اگر کو ئی سمدھیوں کی جوڑی میں سے دوسرے سمدھی کو پکڑ لے۔ میری مراد لندن میں چوری شدہ مال کے ڈھیر میں غرق سمدھی سے ہرگز نہیں‘ بلکہ اُس سمدھی سے ہے جس نے ایک مال دار خاندان کا سمدھی بننے کے لیے ایک سے زیادہ بار بیٹے کی کمرشل شادیاں کروائیں۔ اور آخر کار دلِ بے رحم کے ہاتھوں مجبور ہو کر مالِ مفت بیٹے، بیٹی، سمدھی، داماد میں ابا جی کی پرشاد سمجھ کر بانٹ ڈالا ۔ دو روزہ لاہور ٹرپ کو ایک نان کمرشل بابے نے یادگار بنا دیا۔ سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر مجھے روک کر بابا جی نے کہا ''پُتر تُو چنگا بولتا ہے۔ مجھے یہ تو بتا اتنے غریب ملک میں اتنی گاڑیاں، بنگلے، کمپنیاں اور امیر لوگ کہاں سے آئے۔ چل چھڈ! چوروں کی فیصدی نکال دے‘ غور سے سن سانپ کی طرح چور بھی جوڑا ہوتا ہے۔ یہاں تو ان جوڑوں کی باراتیں ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved